مقالہ جات

قاضی نثار کی دعوت اتحاد اور آغا علی رضوی کا خیرمقدم

تحریر: عبداللہ گانچھے
اہلسنت والجماعت گلگت بلتستان کے پیشوا قاضی نثار نے ایک ہفتہ قبل شیعہ اور اسماعیلی مکتب فکر کو اتحاد، اسلامی اقدار کی حفاظت، امن کے قیام اور ماضی کی تلخیاں بھلانے کی باقاعدہ دعوت اپنے خطاب میں دئیے جس کا جی بی کے معتبر ترین عالم دین اور عوامی حقوق کے ترجمان ہردلعزیز رہنما آغا علی رضوی نے خیرمقدم کیا۔ اس سے قبل آغا علی رضوی نے کئی بار نہ صرف جی بی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کو دعوت دئیے بلکہ عملی اقدامات بھی کیے تاہم کہیں سے بھی مثبت جواب نہیں ملا۔ لیکن پہلی مرتبہ ایسا دیکھنے کو مل رہا جس کے لیے یکطرفہ کوششیں ماضی میں ہوتی رہیں۔ اس خیر مقدم کے ساتھ سوشل میڈیا پر کڑی تنقید کا نشانہ اس شخصیت کو بنایا جا رہا ہے جو تمام مسالک کے عوام کے لیے نہ صرف قابل اعتماد ہے بلکہ سب ان کو حقیقی عوامی حقوق کا محافظ قرار دیتے ہیں۔

اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اتحاد و وحدت کو خیر مقدم کرنے پر ان گروپس میں بحثیں چل رہی ہیں جن کے رہنماء احمد لدھیانیوٰی اور اورنگزیب کے ساتھ نشست و برخاست کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ جی بی الیکشن میں لدھیانوی نے باقاعدہ کمپین میں شریک ہو کر مسلم لیگ نون کے موجودہ وزیر اعلی کو جتوانے میں بھرپور کردار ادا کیا تھا انکی اتحادی جماعتیں بھی قاضی نثار کے دعوت اتحاد کو قبول کرنے پر تنقید کر رہے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ قاضی نثار کسی کلعدم دہشتگرد جماعت کا سربراہ نہیں بلکہ جی بی میں موجود ایک ہی اہلسنت مکتب فکر کے مذہبی پیشوا ہیں۔ انہی کے پیروکاروں کے ساتھ بڑے پیمانے پر تمام مکاتب فکر کے پیروکاروں کی رشتہ داریاں بھی ہیں اور سماجی اور معاشرتی تعلقات بھی۔ ماضی میں گلگت میں جو کچھ ہوا خطہ اس کا مزید متحمل نہیں اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جی بی کا مستقبل کسی قسم کی فرقہ ورایت یا تکفیریت میں نہیں بلکہ تمام مسالک کے باہم اتحاد و وحدت میں ہے۔ ماضی میں ایک گہری سازش کے تحت اہلسنت کو شیعوں سے لڑایا گیا جبکہ جی بی میں اہلسنت عالم دین تکفیر کے مخالف تھے، بلتستان میں نوربخشی کو شیعوں کے ساتھ لڑایا گیا جبکہ نوربخشی اور اہل تشیع کی اساس ایک ہے اور اسماعیلیوں میں بھی تکفیر گروہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ آغا علی رضوی ہی کے بیان پر عمل کرنا اسوقت آنے والی نسلوں کی بقاء کا ضامن ہے کہ تمام مکاتب فکر کو اپنی صفوں میں موجود فرقہ واریت کو ہوا دینے یا دوسرے الفاظ میں تکفیر کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہی اصل دین ہے۔ قاضی نثار اہل تشیع کو اتحاد کی دعوت دے اور اہل تشیع کے علماء صم‘‘ بکم‘‘ ہو جائے تو کیا یہی واضح نہیں ہوتا کہ اہل تشیع برادری نہیں چاہتی کہ جی بی میں موجود اہلسنت کے ساتھ اتحاد کے قائل نہیں۔ ایسے میں آغا علی کا بیان انتہائی جرات مندانہ آبرومندانہ اور دینی و وخلاقی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ کوئی نام نہاد شیعہ انہیں سراہے یا نہ سراہے ان کو سراہتا ہوں اور جی بی کے اہلسنت، نوربخشیہ اور اسماعیلی غریب عوام کے امید و سہارا قرار دیتا ہوں۔ ایک آغا علی شیعوں میں پیدا ہوا جس پر شیعوں کو فخر ہے ایک اہلسنت اور ایک نوربخشی میں پیدا ہونے کی ضرورت ہے، جو تعصبات کی بتوں کو توڑ کر اسلام کی سربلندی کی بات کرتا ہے جو لسانیت کو ختم کرکے مظلوم عوام کی بات کرتا ہے۔

ہمارے معاشرے کا منافقانہ رویہ بھی افسوسناک ہے کہ مفادات کی خاطر یا پیٹ کی خاطر اسی قاضی نثار کے نائب مولانا سلطان رئیس کی عوامی جدوجہد کو سراہتے ہیں اور تمام تحریکوں میں ساتھ دیتے ہیں۔ جب کی قاضی نثار کی دعوت اتحاد کو قبول کرنے پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ جبکہ مولانا سلطان رئیس متعدد بار بلتستان کے عوامی اجتماع میں خطاب کر چکے ہیں اور تمام مسالک و مکاتب فکر کے درمیان اتحاد کے لیے میدان عمل میں موجود ہیں۔ اس سے انکار کسی طور ممکن نہیں کہ جی بی میں فرقہ ورایت کو ختم کرنے، نوگو ایریاز کو ختم کرنے اور تکفریت کی حصوصلہ شکنی کرنے میں مولانا سلطان کی سب سے زیادہ محنت، خلوص اور قربانی شامل ہے۔ یہی آغا علی رضوی ہے جس پر مولانا سلطان کو سب سے زیادہ اعتماد ہے اور ہر تحریک میں آغا کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھتا ہے۔ لہذا ہر وہ عمل جس سے نفرتیں ختم ہوں، دوریاں کم ہوں، اتحاد و وحدت کی فضاء کی قائم ہو اس کو سراہنا دینی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے۔ اور جو سمجھتے ہیں کہ اس دعوت کو قبول کر کے آغا علی رضوی نے کوئی غیر مناسب عمل کیا امید ہے وہ قاضی نثار کے بیان کا ردعمل اسی انداز میں دیں گے جس انداز میں دینا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button