مقالہ جات

اللہ اکبر : انصاراللہ نے اپنا لوہا منوالیا

ایک ساتھ سات میزائل انصاراللہ کا کھلا پیغام
بمباری رکی تو میزائل بھی رک جاینگے ورنہ مزید سرپرائز
میری قبر کھودو میری کتابیں جلاڈالو سعودیہ یمن میں ڈوب جائے گا
انصار اللہ کے پاس میزائل کہاں سے آئے ہیں ؟
خطے میں مزاحمتی قوتوں کی ایک جیسی حکمت عملی

عالمی شہرت یافتہ مصری دانشور حسین ہیکل نے یمن پر سعودی جارحیت کے صرف دو ہفتے بعدتیرہ اپریل 2015 کوہی مصری ٹی وی چینل کو دیے گئے ایک طویل انٹریو میں یمن پر جارحیت کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ آج ہرگذرتا لمحہ سچ ہوتا دیکھائی دیتا ہے ۔
ہیکل کا کہنا تھا کہ جس وقت شرم الشیخ میں عرب لیگ کا اجلاس ہورہا تھا تو اس اجلاس میں سے اچانک سعودی بادشاہ اٹھااور اس نے شرم الشیخ ائرپورٹ کا رخ کیا ان کے ساتھ یمن کے صدر منصور ہادی بھی تھا
یہ واضح تھا کہ سعودی بادشاہ نہیں چاہتا تھا کہ یمنی صدر منصور ہادی اس اجلاس میں زیادہ وقت گذارے
سعودی بادشاہ کو خطرہ تھا کہ کہیں دیگر عرب سربراہوں کی گفتگو اس کے موقف کو نہ بدلے
سعودی عرب کو یمن پر جارحیت کے لئے منصور ہادی جیسے پٹھو صدر کی قانونی پوزیشن کی چھتری چاہیے تھی
تاکہ وہ بین الاقوامی برداری اور رائے عامہ کے سامنے یمن پر حملے کا قانونی جواز بنا سکے ۔
سعودی بادشاہ بھی اس بات کو بخوبی جانتا تھا کہ یمن کے مستقبل میں منصور ہادی کا کسی قسم کا کوئی کردار ممکن نہیں کیونکہ عوام میں منصور کے لئے کسی قسم کی پذیرائی نہیں پائی جاتی ۔
ہیکل کہتا ہے کہ یمن میں امریکی سفیر نے عدن شہر میں عوامی انقلاب اورشہر پر کنٹرول سے دو دن پہلے ہی منصور ہادی کو کہا تھا کہ وہ عدن کو چھوڑ دے کیونکہ اسے پہلے سے معلوم تھا کہ عدن پر سعودی طیاروں کی بمباری کا پلان بنایا جاچکا ہے ۔
حسنین ہیکل نے اس جارحیت کے بارے میں اس وقت ہی کہا تھا کہ میں اگر مر جاوں تو میری قبر کھود لینا اور میری کتابوں کو آگ لگادینا اگر سعودی عرب یمن کی جنگ کے دلدل میں ڈوب نہیں گیا تو ۔
آج مصر کا یہ عظیم دانشور ہم میں نہیں رہا لیکن اس کی کہی ہوئی ایک ایک بات وڈیو کی شکل میں موجود ہے اور دوسری جانب یمن میں سعودی عرب کی صورتحال ہرگذرتا لمحہ اس کی باتوں کو سچ کرتی دیکھا رہی ہے
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ 25مارچ کی رات کو اس جارحیت کے تین سال مکمل ہونے پر یمنیوں نے سات بلیسٹک میزائل سات مختلف سعودی اہم ائرپورٹس بشمول دارالحکومت ریاض کے بین الاقوامی اڈے پر داغے ہیں ۔
فلسطینی معروف تجزیہ کار عبدالباری عطوان کا کہنا ہے کہ سعودی اتحادنے حملوں کے شروع کے ہفتوں ہی میں دعواکیا تھا کہ یمن کی میزائل صلاحیت کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے ۔
لیکن آج تین سال مکمل ہونے کے بعد بھی یمن سے داغے جانے والاے میزائلوں کی اقسام اور رینج اور ہدف تک رسائی کی مہارت میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
ادھر یمن کے دار الحکومت صنعا میں پولیٹیکل کونسل کے چیئرمین نے سعودی اتحاد کو پیغام دیا ہے کہ تم بمباری روک دو ہم میزائل روکے گے ،انہوں کہا کہ جب تک سعودی اتحاد کی وحشیانہ بمباری جاری رہے گی تب تک میزائل بھی برستے رہے گے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے میزائل امن اور ڈئیلاگ کا پیغام لئے ہوئے ہیں ہم ایک بار پھر جارح سعودی اتحاد اور یمن میں ان کے حامیوں کو پیغام دیتے ہیں کہ مذاکرات کی میز پر آو اور بمباری روک دو ۔
ادھر سعودی آفشل نیوز ایجنسی واس نے سول ڈیفنس کے زرائع سے خبر دی ہے کہ دارالحکومت ریا ض میں گرنے والے میزائل کے ٹکڑوں کے سبب ایک مصری شخص مارا گیا ہے ۔
جبکہ یمن کی سب سے بڑی سیاسی جماعت انصار اللہ کے سربراہ سید عبدالمالک الحوثی نے آج صنعا میں ایک انتہائی بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس وحشی جارحیت کے چوتھے سال میں ہمارے جدید ترین اور متنوع میزائل کی سیریز تیار ہے جو ہرقسم کے امریکی اور غیر امریکی دفاعی میزائل نظام کو عبور کرتے ہوئے آگے بڑھے گے ،ہمارے ڈرون طیارے جارحیت کے اس چوتھے سال میں بہتر ین عسکری کارکردہ گی کے ساتھ دفاع میں داخل ہونگے ،چوتھے سال ہماری افواج پہلے سےزیادہ ایمان ،مضبوط ارادے اور شعور کے ساتھ میدان میں ہونگے ‘‘
تو انصاراللہ کے پاس میزائلوں کی کھیپ کہاں سے آئی ہے ؟
یمن سے سعودی عرب پر داغے جانے والے مختلف ناموں اور مختلف رینج کے میزائلوں کی کم ازکم پچاس سے زائد تعداد بتائی جاتی ہے ۔
گوگل ارتھ کے مطابق دارالحکومت صنعا سے لیکر سعودی دارالحکومت ریاض تک کی مسافت تقریبا ایک ہزار کلومیٹر بنتی ہے جبکہ یہ فاصلہ یمنی اور سعودی سرحدی علاقے سے ریاض تک آٹھ سو کلومیٹر بنتا ہے
امریکی ویب سائیٹ جونز یا جینز کے مطابق سعودی زرائع کہتے ہیں کہ اب تک یمن سے پینتس کے بیلسٹک قریب میزائل داغے گئے ہیں ۔
آخری سٹیلائیٹ معلومات کے مطابق یمنی فوج کے پاسا سکڈمیزائل سمیت کچھ بیلیسٹک میزائل ،چھ کے قریب P117sجیسی لانچنگ پیڈ اور دس کے قریب دیگر اقسام کی لانچنگ پیڈ موجود تھیں ۔
لیکن یمنی افواج کے پاس مختلف اقسام کے اور کتنے میزائل تھے اس کی کسی کو خبر نہیں گرچہ یہ بات واضح ہے کہ یمن روس اور شمالی کوریاسے اسکڈبی ایس سمیت دیگر میزائل خریدتا تھا۔
سن 2002 میں اس وقت ایک اسپینی مال بردار کشتی کو روکا گیا تھا کہ جس وقت اس کشتی پر شمالی کوریا کے پندرہ سے کے قریب اسکڈ میزائل موجود تھے جنہیں یمن لے جایا جارہا تھا ۔
ستمبر 2016میں انصاراللہ نے اسکڈ میزائلوں کی ایک نئی سیریز کا انکشاف کیا کہ جس کا نام انہوں نے برکان ۔۱ ۔رکھا تھا ،اس میزائل کا قطر 88سینٹی میٹر اور اس کی لمبائی 12.5میٹر تھی جبکہ یہ میزائل اپنے ساتھ 500کلوگرام دھماکہ خیزمواد اٹھائے ہوئے تھا یوں یہ میزائل اسکڈ بی میزائل سے تقریبا ڈیڑھ میٹر لمبا دیکھائی دے رہا تھا ۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جب کوئی فوج میزائل کی رینج بڑھانا چاہتی ہے تو وہ دو کام کرتی ہے ایک جانب وہ دھماکہ خیز مواد کے وزن میں کمی کرتی ہے تو دوسری جانب اس کے مختلف مراحل بناکراس کے انجن کی طاقت میں اضافہ کرتی ہے ،یوں میزائل کا ہر مرحلہ اپنے مراحل کے لئے انرجی کی فراہمی کا ذمہ در ہواکرتا ہے ،ایک ایسے میزائل کو Multi-stage میزائل کہا جاتا ہے ۔
یمنی فوج کے نائب ترجمان بریگیڈیئر عزیز رشیدنے روسی نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ فوجی میڈیا سعودی عرب پر بیلسٹک میزائلوں کے فائر کرنے سے لیکرجارح افواج کیخلاف ہرقسم کی کاروائیوں کے بارے میں مکمل ہم آہنگی رکھتا ہے اور گرونڈ سے ملنے والی معلومات کے مطابق بیانات جاری کرتا ہے ۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی جنگی حکمت عملی اور میڈیا سیل کا انداز لبنان کی حزب اللہ سے ملتا جلتا ہے تو بریگیڈئیر رشید کا کہنا تھا کہ یہ مزاحمت کا انداز اور یہ شباہت دراصل خطے میں امریکی منصوبوں کیخلاف مزاحمت سے تعلق رکھتا ہے وہ چاہے میڈیا وارہو یا عسکری ٹیکٹک یا فوجی حکمت عملی ہو ۔
ظاہر ہے کہ امریکی اپنے اتحادیوں کو مچھلی پکڑ پکڑ کردیتے ضرورہیں لیکن مزاحمتی بلاک کہلانے والے بلاک کی ایک خصوصیت یہی ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کو مچھلی پکڑ کر نہیں دیتے بلکہ پکڑنا سیکھاتے ہیں ۔
بریگیڈئیر رشید کا کہنا تھا کہ ہمارے بنائے ہوئے تمام میزائل مقامی ہیں اور اسے یمن کے عسکری ادارے نے بنائے ہیں اور اس میں اب بدر نامی جدید میزائلوں کی ایک سیریز شامل ہونے جارہی ہے کہ جس میں 4.5 میگ کی رفتارسے چلنے والے میزائل ہونگے ۔
ہم اس وقت مزائل کی ساخت میں سریز کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں اور ہم نے دشمن کے مقابل طاقت کا توازن برقرار رکھا ہواہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہمیں ایران میزائل دے رہا ہے کیونکہ ان کے پاس جتنا بھی اسلحہ ہے وہ سب کا سب امریکی ہے وہ ایک معمولی سی چیز بھی اس سلسلے میں خود نہیں بناسکتے اور انہیں یہی چیز ہضم نہیں ہو پارہی کہ یمن کیسے یہ سب کچھ بنارہا ہے ۔
بریگیڈئیر رشید کا مزید کہنا تھا کہ ہم ہر طرف سے محاصرے میں ہیں ہمارے زمینی آبی اور فضائی راستے تین سال سے محاصرے میں ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایران سے ہم تک میزائل پہنچ جائیں ۔
تجزیہ کار اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ایران نے یمن کو میزائل فراہم نہیں کئے جیسا کہ ایران بھی ہمیشہ کہتا آیا ہے کہ اس نے کبھی بھی یمن کو میزائل فراہم نہیں کئے لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ یمنیوں نے ایران سے کم درجے تک فائر ہونے والے میزائل اور میزائلوں کو اپ گریڈ کرنے اور ڈرون طیاروں کو بنانے کی ٹیکنالوجی ضرور حاصل کی ہے ۔
اس تمام گفتگو سے ہٹ کر یمن کے پاس موجود اسلحے کے بارے میں تین اہم نکات بیان کئے جاتے رہے ہیں کہ جن کا خلاصہ کچھ یوں ہے
الفـ:یمنی افواج کے خاص کر اسپیشل فورس کے پاس میزائل پہلے سے موجود تھے جسے پہاڑوں کے اندر بنائے گئے انتہائی محفوظ ٹھکانوں رکھا گیا ہے
ب:جس وقت سابق صدر نے حوثی قبائل کیخلاف جنگ شروع کی ہوئی تھی اس وقت میڈی صحرا سے وسیع پیمانے پر اسلحہ اسمگلنگ ہوکر حوثیوں تک پہنچا تھا کہ جس میں سودیت یونین زمانے کے اسکڈ میزائل اور کٹیوشا میزائل موجود تھے ۔
ج:یہ بات واضح ہے کہ اس وقت میزائل کو آپریٹ کرنے کا کام یمنی افواج کی میزائل ٹیم انجام دے رہی ہے جو انصار اللہ کے ساتھ ملکر اپنے وطن کا دفاع کررہی ہے ۔
سوموار کی علی الصبح سعودی چار مختلف شہروں بشمول دارالحکومت ریاض پر سات میزائل داغے کہ جن میں سے تین میزائلوں کارخ دارالحکومت ریاض جبکہ ایک مشیط شہر کہ جہاں سعودی بہت بڑا عسکری بیس ہے جبکہ باقی میزائل نجران اور جیزان شہروں پر داغے گئے تھے ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ یمن کے عسکری اور سیاسی میدان سے سابق صدر علی عبداللہ صالح کے ہٹ جانے کے بعد اب صرف انصار اللہ ہی وہ واحد یمنی سیاسی و عسکری قوت ہے جو میدان میں موجود ہے
یمنی پروفیشنل آرمی کی کمانڈ اینڈ کنٹرول اس وقت انصار اللہ کے پاس ہے جبکہ سیاسی میدان میں بھی وہ مکمل کنٹرول رکھتی جس کی ایک بڑی مثال دارالحکومت صنعا میں جمع ہونے والی لاکھوں کی تعداد کی عوام ہے ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ انصار اللہ عسکری میدانوں میں سات میزائل داغ کر جبکہ سیاسی میدان میں صنعا میں ملین مارچ کرکے ثابت کردیا ہے کہ یمن کی عوام کس کے ساتھ ہے اور اگر سعودی اتحاد نے مذاکرات کرنے ہیں تو کس کے ساتھ اور کن کی شرائط پر ممکن ہوسکتے ہیں ۔
سعودی اتحاد کی ماضی میں یہ خواہش رہی ہے کہ یمن کی جنگ تب ختم ہو جب انصاراللہ یا تو ختم کردی جائے یا پھر وہ سفید جھنڈی دیکھاکر ان کے سامنے خود کو سلینڈر کردیں لیکن اب صورتحال اس قدر بدل چکی ہے کہ سعودی عرب انصار اللہ سے فیس سونگ مانگ رہا ہے لیکن وہ ظالم کے چہرے میں ہمدردی کا نقاب رہنا نہیں دینا چاہتے ۔
فنانشل ٹائم کی ایک رپورٹ کے مطابق یمن پر سعودی جارحیت کے اخراجات 120ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں ۔
اخبار کے مطابق یمن سے اب تک سعودی عرب پر داغے جانے والے میزائلوں کی تعداد سو سے زیادہ ہے جبکہ ان میں سے ہرایک میزائل کو روکنے کے لئے چار سے پانچ پیٹریاٹ میزائل فائر کرنے پڑتے ہیں یوں ان کی مجموعی مالیت 700کروڑ ڈالر بنتی ہے ۔
واضح رہے کہ یمن کیخلاف عرب میڈیا میں موجود بائیکاٹ اور بلیک آوٹ بھی قطر کے اس اتحاد سے نکل جانے کے بعد نسبی طور پر ختم ہوچکا ہے اور اب قطری میڈیا انصار اللہ کو بھی کورکرنے لگا ہے ۔
جبکہ سعودی اتحاد میں شامل بہت سے ممالک اس لاحاصل جنگ سے تھکتے دیکھائی دیتے ہیں جبکہ خود دو بنیادی ملکوں سعودی عرب اور امارات کے درمیان بھی مفادات کے سبب تناو موجود ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button