سعودی عرب

سعودی شہزادے کا انٹرویوں چھوٹا منہ بڑ ی بات

سعودی عرب نے دنیا بھر کے جدید ترین اسلحے کی ایک اچھی کلیکشن بنا رکھی ہے لیکن بس اس کلیکشن میں جس چیز کی کمی دیکھائی دیتی ہے تو وہ چند عدد ایٹم بمبوں کی ہے ۔
عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے پاس موجود اسلحہ کے زخائر کی مثال ایک ایسے کلیکشن کی ہے جیسے عرب شہزادوں کے پاس دنیا کی انتہائی مہنگی ترین گاڑیوں کی ایک کلیکشن ہمیشہ سے پارکنگ میں کھڑی ہوں اور شائد وہ ان تمام مہنگی گاڑیوں کو کبھی ایک باربھی استعمال نہیں کر سکے ہوں لیکن بس ان گاڑیوں کا پارکنگ میں ہونا ہی انہیں ایک جھوٹی برتری اور خوشی کا احساس دلاتا رہتا ہے کہ ان کے پاس مہنگی ترین گاڑیوں کی ایک کلیکشن موجود ہے ۔
بس ان گاڑیوں کی موجود گی پر ہی وہ اتراتے رہتے ہیں کہ ایسی گاڑیوں کا کلیکشن کسی اور کے پاس نہیں جیسا کہ ان کے پاس ہے ۔
اگر ہم گذشتہ ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جانب سے امریکی صدر ٹرمپ سے سعودی عرب کو ایٹمی ٹیکنالوجی کی عدم فراہمی کے بیان پر زرا باریکی سے توجہ دیں تو ذیل کے نکات ہماری سمجھ میں آسکتے ہیں ۔
الف:سعودی عرب پرحاکم آل سعود خاندان کی سرتوڑ کوشش ہے کہ عربوں اور مسلمانوں کے زہن سے اسرائیل کو بعنوان ایک دشمن ملک کے نکال باہر کرے اور اس کی جگہ ایران کو اپنا پہلا نمبر کا دشمن بنا کر پیش کرے ۔
لیکن اس کی تمام تر کوششوں کے باوجود اسرائیل سعودی عرب کو اب بھی ایک دشمن ملک کے طور پر دیکھتا ہے ،اسرائیل کبھی بھی یہ برداشت کرہی نہیں سکتا کہ عربوں اور مسلمانوں کے پاس ایٹمی قوت آجائے ۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر سعودی عرب ایٹم بم حاصل کرلیتا ہے تو ایران کو اس قدر تکلیف نہیں ہوگی کیونکہ ایران سمجھتا ہے کہ آخر کار کسی نہ کسی دن سعودی عرب کے حالات بدلے گے اور یہ ایٹمی صلاحیت امت کے دفاعی مقاصد کے لئے ہی استعمال ہوگی اور مزاحمتی بلاک ہی اس سے استفادہ کرے گا ۔
ب:بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نیتن یاہونےسعودی عرب کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے فروخت پر تشویش کا اظہار کرکے درحقیقت ٹرمپ کو خوش کردیا ہے کیونکہ ان کی مخالفت کے بعد اب سعودی عرب کے لئے اس ٹیکنالوجی کی قیمت کئی گنا اور بڑھ چکی ہے اور امریکی اب اسے پہلے سے کئی گنازیادہ قیمت میں فروخت کرپاینگے ۔
جـ:سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ٹی وی انٹریوں میں یہ کہنا کہ ’’اگر ایران ایٹم بم تک رسائی حاصل کرلیتا ہے تو سعودی عرب بھی فورا ایٹم بم تک رسائی حاصل کرے گا ‘‘در حقیقت امریکیوں اور اسرائیلوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ یہ ایٹم بم آپ کیخلاف نہیں بلکہ ایران کیخلاف ہے جو آپ بھی دشمن ہے ۔
د:ہوسکتا ہے کہ امریکی اور اسرائیلی ایران کے ایٹمی معاہدے کو لیکر بن سلمان کے اس بیان سے کو پیش کریں کہ اگر ایران معاہدے کے مطابق اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھتا ہے تو وہ سعودی عرب کو ایٹم بم کی ٹیکنالوجی دینگے ۔
سعودی شہزادے کے اس غیر سنجیدہ اور حقائق سے دور انٹریومیں بہت سے ایسے تضادات موجود ہیں کہ جن پر بات کرنا قارئین کے وقت کا ضیاع ہوگا لیکن چند مزید نکات کی جانب توجہ ضروری ہے جو کہ زمین حقائق ہیں ۔
الفـ:باوجود اس کے کہ سعودی عرب کے پاس جدید ترین اسلحے کی ایک کلیکشن موجودہے جو اس نے دنیا بھر سے مختلف ممالک کو خوش رکھنے کی خاطر خریدی ہے لیکن ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ اس سلحے کے استعمال اور ٹیکنالوجی سعودی فوجی بالکل بھی ناواقف ہے ۔
بـ:سعودی باشاہ غیر ملکی افواج کی اپنی زمین پر موجود گی کا ایک بہانہ بھی یہی بیان کرتی ہے کہ وہ ان کی افواج کو تربیت دینے کی غرض سے موجود ہیں تاکہ عوام میں ان کی موجودگی کو لیکر سوالات جنم نہ لیں ۔
جـ:یمن پر حملے میں سعودی عرب نے اپنے پاس موجود بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیارکو Weapons of mass destructionبھرپوراستعمال کیا ہے تو کیا اگر سعودی عرب کے پاس ایٹم بم ہوتا تو اس بات کا امکان نہیں تھا کہ وہ اسے بھی استعمال کرلیتا خاص ایٹم بموں کی بریف کیس والی قسم ۔
دـ: شہزادہ بن سلمان نے ایک جانب ایران کے بارے میں کہا کہ وہ ہمارے مقابل میں کچھ بھی نہیں ہے اور اس کے ساتھ ہمارا کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا ۔
اگر حقیقت میں وہ ایران کے بارے میں ایسا سوچتا ہے تو پھر صبح شام ایران کے خطرے کی وردکرنا اور تکرار کرنے کا مطلب کیا نکالا جائے ؟
بن سلمان یہ بھول گیا ہے کہ جو کچھ ایران کے پاس ہے خواہ ایران کی دفاعی قوت ہو یا پھر ایران کی معیشت وہ اس کی اپنی ہے اور خودان کا ذاتی کمال ہے لیکن جو کچھ سعودی عرب کے پاس معشیت اور دفاعی سازوسامان ہے وہ سب کچھ دوسروں سے خریدا ہواہے ۔
سعودی عرب معمولی سی اشیا بھی ملک کے اند ر بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور تمام اشیا باہر سے منگواتا ہے ۔
یہاں تک کہ اسے یمن جیسے غریب اور تباہ حال ملک میں لڑنے کے لئے بھی کرایے کے فوجی منگوانے پڑتے ہیں اور آج چار سال گذرنے کے باوجود بھی وہ اپنے مقاصد میں نہ صرف ایک فیصد بھی آگے نہیں
بڑھ پائے ہیں بلکہ مجبور ہورہے ہیں کہ سلطنت عمان کے توسط سے یمنیوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیں ۔
وہ بھول چکا ہے کہ وہ ایک ایسے ملک کی اعلی قیادت کے بارے میں بات کررہا ہے کہ جس کی جڑیںایک جانب عوامی حمایت اور محبت میں پیوستہ ہیں تو دوسری جانب اعلی الھی، اخلاقی و علمی صلاحیتوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ۔
وہ بھول چکا ہے کہ وہ سعودی عرب کا ایک ایسا حکمران ہے جیسے اپنی بادشاہت کو بچائے رکھنے کے لئے ملک کے اندر خاندان اور عوام کو دبائے رکھنا پڑتا ہے جبکہ ملک کے باہر مسلسل رشوتیں دینی پڑتی ہیں
ایک جانب جہاں ایران اپنی اعلی ٰ قیادت کے سبب ہی آج دنیا کی تمام مغرور اور گھمنڈ کی شکار طاقتوں کے مدمقابل کھڑا ہے تو دوسری جانب دنیا کے مظلوموں کے دردوں کی دوا بنا ہواہے جبکہ اس شہزادے کو اپنی بقا مظلوموں پر مزید ظلم ڈھانے اور ظالموں اور مغرورں کے ساتھ کھڑے رہنے میں دیکھائی دیتی ہے ۔
حجاز پر حاکم سعود خاندان کے سینکڑوں شہزادوں کے پاس ایسی کیا صفات حسنہ اور کمالات ہیں کہ جس پر اس شہزادے کو اترانا چاہیے ؟کیا ہزاروں پر مشتمل اس خاندان میں کوئی ایسا فرد ہے جو پائے کا عالم ہو یا اعلی علمی،اخلاقی و انسانی درجات پر فائز ہو ؟کیا کوئی ایسے کارنامے ہوسکتے ہیں جسے وہ اپنی میراث کے طور پر پیش کرسکتے ہیں ؟
دنیا میں اس خاندان کی وجہ شہرت عیاشی، دولت لٹانے اور دنیا کے شیطان صفت ظالموں سے دوستی کے علاو ہ کیا ہے ؟
بن سلمان کے انٹریوکے جواب میں ایک ایرانی ذمہ دار کا درست کہنا تھا کہ یہ چھوٹا منہ اور بڑی بات ہے ہم جواب دینے کے بھی لائق نہیں سمجھتے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button