مقالہ جات

سربراہان مملکت برائے فروخت

روسی نیوز ایجنسی اقتباس
سعودی شہزادے کا دورہ برطانیہ اور لابیز
یوں لگتا ہے کہ بہت سے ملکوں کے سربراہ بڑی آسانی کے ساتھ ان دنوں خود کو اور اپنے موقف کوسستے داموں فروخت کرتے بالکل بھی جھجک محسوس نہیں کررہے ۔
بات ا گر تیسری دنیا کے ملکو ں تک محدود ہوتی تو بھی سمجھ میں آسکتی تھی لیکن یہاں تو دوسروں کو تہذیب اور انسانی حقوق ،جمہوریت اور انصاف کی تعلیم دینے کے دعوئے داروں کا یہ حال ہے کہ بڑی سستی بولیوں میں بکتے دیکھائی دے رہے ہیں ۔
معروف تجزیہ کار عماد آبشناس مشہور فرانسوی مصنف پل آمیر کی کتاب خداوند الموت سے ایک داستان کو کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’داستان کے کردار حسن الصباح نے ایک دن اپنے کسی ایجنٹ کو بھیجا کہ وہ جاکر کوشش کرے کہ بادشاہ کی بیوی یعنی ملکہ کو خرید سکے اور الصباح نے ایجنٹ کو دس لاکھ سکے بھی دیے تاکہ ملکہ کو خریدا جاسکے ،ایجنٹ ملکہ کے پاس پہنچتے ہیں بات چیت میں ملکہ بڑی آسانی کے ساتھ صرف بیس ہزار سکوں میں ہی تیار ہوجاتی ہے کہ دربارمیں ان کی طرفداری کرے گی اور الصباح کی ایجنٹ بن جائے ملکہ کی اس صورتحال کو دیکھنے کے بعد واپسی پر ایجنٹ کہتا ہے کہ ملکہ بڑی مہنگی پڑ گئی لیکن میں سوچا تھا کہ اس کی قیمت اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہوگی‘‘
ایسی ہی کچھ صورتحال ہمیں ان بظاہر بڑے بڑے کہلانے والے ملکوں کے سربراہوں میں دیکھائی دیتی ہے کہ جس کے بارے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا وہ چند ملین میں بک سکتے ہیں اور چند ملین میں ان کے موقف کو بدلا جاسکتا ہے ۔
سعودی ولی عہد شہزادہ بن سلمان نے اپنے حالیہ دورے کا آغاز مصرسے کیا جہاں مصر کے سابق آرمی چیف اور موجودہ صدر السیسی کی حالت دیدنی تھی
سیسی نے تمام تر سفارتی آداب اور پروٹوکولز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جہاز کی سیڑھیوں پر اس جوان سال ولی عہد کا استقبال کیا ۔
آخر ایساکیوں نہ کرے سیسی وہی تو ہے کہ جس نے اخوان المسلون کیخلاف سعودی عرب اور امارات کے کہنے پر بدترین ایکشن کے بعد اقتدار پر قبضہ جمایا ہے اور مصر جیسے عظیم ملک کی صورتحال ایسی بنائی ہے کہ آج اسکی معیشت سعودی اور اماراتی امداد کے بغیر دو ماہ بھی نہیں چل سکتی ۔
لگتا ہے کہ ٹرمپ کو پانچ سو ارب ڈالر اور متعدد قسم کی فنڈنگ کے بعد اب برطانیہ کی باری ہے ۔
اورلگتا یہ بھی ہے کہ برطانوی وزیراعظم اپنی اعلی کہلانے والی تہذیب و قدروں کے برخلاف اپنے موقف کو چند ملین فروخت کرنے جارہی ہے ۔
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ لیبیا کے سابق ڈکٹیٹر قذافی نے بھی سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کو بڑی آسانی کے ساتھ چند ملینز میں خریدا تھا ۔
قذافی جیسا نفسیاتی مریض شخص کو صرف اس لئے ملک الملوک افریقیہ ،اور آئمہ جمعہ کا امام کہا جاتا تھا کیونکہ وہ رقم نچھاور کرتا تھا ۔
پاکستان سمیت بہت سے ممالک کے بڑے بڑے نامور مولانا حضرات ان کے حضور قذافی کی مئے نوشی کو اس لئے برداشت کرتے تھے کیونکہ وہ انہیں رقوم سے تولتا تھا ۔
افریقی عرب ملک کے اس عجوبہ نما انسان قذافی کے مرنے کے بعد سامنے آنے والی دستاویزات یورپ کے بڑے بڑے تہذیب یافتوںحکمرانوں اور سربراہوں کی قلعی کھول رہیں ہیں ۔
بات صرف امیر عرب شہزادوں کی جانب سے ان سربراہوں اور ان کے موقف کی خردیداری کی نہیں بلکہ اسرائیل کی سب سے بڑی لابی AIPACکے سالانہ اجلاس میں جو بازار مصر سجتا ہے وہ بہت کچھ سمجھا رہا ہے کہ جہاں امریکہ کے پچھتر فیصد ممبران پارلیمان اکثر سرکاری اہم ذمہ دار ں کی شرکت ایک حتمی بات ہے ۔
امریکہ اپنے انتخابات میں ممکنہ روسی سائبر مداخلتوں کو لیکر جس قدر بے چین ہے اس قدر بے چینی انہیں اس قسم کی لابیز سے بالکل بھی نہیں ہوتی ۔
آج اگر عرب بادشاہتیں یہ سمجھ رہی ہیں کہ اگر وائٹ ہاوس کے پچھلے گیٹ سے اند ر داخل ہونا ہے تو انہیں اس قسم کی لابیز کا سہارا لینا ہوگا اور ان لابیز کا سہارا تب ہی میسر آئے گا جب تل ابیب کے ساتھ ان کے معاملات نارمل ہونگے ۔
برطانیہ یورپی یونین سے نکلنے جارہا ہے اور اسے معلوم ہے کہ اس کی معشیت کوپیٹرو فنانس ہی سہارے دے سکتی ہے لہذا اگر ایسے میں غریب یمن کہ جس کا کوئی والی ووارث نہیںاوردنیا کے نقشے میں انتہائی چھوٹا سے بحرین کہ جس کا بادشاہ خود سعودی طفیلی ہے ،میں جاری مظالم کیخلاف برطانیہ کی عوام احتجاج کر بھی لے تو کیا ہوگا ۔
ہماری آج کی دنیا میں قومی مفاد اورذاتی مفادات کی تشریح اس قدر بدل چکی ہے کہ اس کی خاطر خود فروشی اور برائے فروخت کوئی برائی نہیں رہی ۔
ان ملکوں کی تاریخ میں پھر ایسی شخصیات کاپیدا ہونا تقریبا معدوم دیکھائی دیتا ہے جو نظریے ،قدروں اور اصولوںکی خاطر قربانی دیا کرتے تھے۔
لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ان ملکوں کی تاریخ آستین کے سانپ جیسی رہی ہے جو دودھ پیلانے والے کو ڈس ہی لیتے ہیں جس کی ایک مثال قذافی ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button