یمن اور غوطہ ،انسانوں میں تفریق کیوں ؟
ستمبر 2014سے یمن میں قانونی حکومت کی بحالی کے نام سے سعودی قیادت میں ہونے والی بمباری میں مارے جانے والے سویلین افراد کے بڑھتے ہوئے اعداد شمار انتہائی خطرناک صورتحال کو بیان کرتے ہیں ۔
سعودی قیادت میں بمباری کرنے والے اتحادی ممالک کا کہنا ہے کہ ایسے تمام حملے کہ جس ہزاروں بے گناہ شہری مارے گئے ہیں پائلٹ کی غلطی یاغلط خفیہ معلومات کے سبب انجام پائے ہیں
اب تک سعودی قیادت میں یمن کی بے گناہ عوام پر براہ راست کئے جانے والے بڑے بڑے چند حملوں کی تفصیلات کچھ یوں ہیں
کارخانے کے مزدروں پر بمباری
24جولائی 2015کو ساحلی شہر مخا میں الیکڑک سپلائی پلانٹ کے انجینئرز اور ملازمین کے رہائشی کمپلیکس پر بمباری کی گئی کہ جس میں 217کے قریب انجینئرز اور ٹیکنکل ٹیم کے افراد اور ملازمین اپنی فیملیوں کے ساتھ مارے گئے ۔
مارے جانے والوں میں پچاس سے زائد خواتین اور اٹھائیس کے قریب بچے شامل تھے ۔
شادی کی تقریب پر بمباری
اٹھائیس ستمبر 2015کو مخاشہر کے ساحلی حصے میں کھلے میدان میں ٹینٹ لگاکر شادی کی ایک تقریب ہورہی تھی اس میدان پرصرف اس خیال سے کہ یہاں حوثی اورانصار اللہ کی کچھ اہم قیادت شریک ہوسکتی ہیں کہ سعودی طیاروں نے کئی میزائل مارے اور شادی کی یہ تقریب خاک اور خون میں لت پت ہوگئی
دلھا اور دلھن سمیت 152مردو زن اور بچے مارے گئے ۔
اقوام متحدہ کے ہائے کمیشن برائے انسانی حقوق کے ترجمان رابرٹ کولولی نے سعودی اس وحشیانہ عمل کو
یمن میں اب تک کا بدترین مجرمانہ عمل قراردیا ۔
امدادی تنظیم کے اسپتال پر بمباری
یمن میں تین بار ‘ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرزکے ہسپتالوں اور طبی عملے پر سعودی طیاروں نے بمباری کی
صوبے صعدہ میں واقع ایک ہسپتال پر ہونے والی بمباری میں 10 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جس میں عملے کے تین ارکان شامل تھے ۔
جبکہ اس قبل حیدان نامی علاقے میں قائم ‘ایم ایس ایف کا اسپتال پر بمباری کی گئی کہ جس میں زخمی سمیت متعدد افراد مارے گئے اور اسی طرح دسمبر 2015میں سعودی اتحاد کے ایک اور حملے میں تنظیم کے تعز میں واقع طبی مرکزکو تباہ کردیا گیا ۔
جنازے کے اجتماع پر بمباری
9اکتوبر 2016کو سعودی طیاروں نے مسلسل تین بارے ایک ایسے اجتماع کو نشانہ بنایا جو یمنی وزیر داخلہ کے علی رویشیان کے والد کی وفات کی تعزیت کے لئے منعقد ہورہا تھا
ان وحشیانہ حملوں میں 161عورتوں اور بچوں سمیت مارے گئے کہ جس میں متعدد پوری کی پوری خاندانیں ماری گئیں جبکہ 525کے قریب افراد زندگی بھر کے لئے معذور ہوگئے
اس حملے کے بعد امریکہ کو بھی مجبورا یہ بیان دینا پڑا کہ وہ سعودی اتحادی سے الگ ہونے کا سوچ رہا ہے
عالمی دباو اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی فریاد کے بعد سعودی عرب نے اعتراف کرلیا کہ یہ بمباری غلط معلومات کی بنیاد پر انجام پائی تھی ۔
سویلین گھروں کو نشانہ بنانا
ایک اندازے کے مطابق سعودی اتحادیوں کی بمباری میں اب تک آٹھ ہزار افراد مارے گئے ہیں جبکہ یمن میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد بارہ ہزار سے تجاوز کرگئی ہے
دسمبر 2017 میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے اعداد وشمار کے مطابق صرف 13دن میں سعودی طیاروں کی بمباری سے 136بے گناہ سویلن مارے گئے تھے
کمیشن کے مطابق حدیدیہ کے علاقے میں 14بچے صرف تیرہ دن میں سعودی بمباری سے مارے گئے تھے جبکہ مارب کے علاقے میں شادی کی ایک تقریب سے واپس لوٹتے ہوئے بچوں کے کے ایک ٹولے کو نشانہ بنایا گیا کہ جس میں 9بچے مارے گئے ۔
جمعہ بازار اور کاشتکاروں پر بمباری
28دستمبر 2017کو اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق یمن کے جنوب مغرب میں ایک عوامی جمعہ بازار
اور کھیتوں پر کاشتکاری میں مصروف کسانوں پر کی جانے والے سعودی بمباری میں 68بے گناہ لوگ مارے گئے ۔
فرانس پریس کے مطابق مارے جانے والوں میں آٹھ بچے بھی شامل تھے ۔
خود مجرم بھی ،منصف بھی
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کے بعد سعودی اتحاد نے اپنی جانب سے تحقیقات کے لئے ایک کیمیٹی تشکیل دی کہ جس نے یمن میں عوامی بازاروں ،ہسپتالوں اور عام افراد کو نشانہ بنائے جانے کے بارے میں تحقیقات کرنا تھا ۔
خود ان کی اپنی بنائی گئی کیمیٹی نے مخا شہر میں شہری آبادی پر بمباری اور ڈاکٹرز وتھ آوٹ باڈر کے کیمپ پر بمباری کا اعتراف ضرورکرلیا لیکن باقی حملوں کو پائلٹوں کی غلطی قراردیکر چپ سادھ لی ۔
سن 2017میںخبر رساں ادارے روئٹرز نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر شیخ زید رعد الحسین کے حوالے سے بتایا کہ یمن میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کی غیر جانبدارانہ انکوائری نہ کروانا ایک ’شرمناک‘ عمل ہے۔
رپورٹ میں اس عالمی ادارے پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ یمن کے بحران کے تناظر میں اپنی ذمہ داریاں درست طریقے سے انجام نہیں دے رہا۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کمیشن نے سن 2015 میں یمن انسانی حقوق کی چھان بین کی خاطر ذمہ داری یمن نیشنل کمیشن کو سونپ دی تھی، جو صدر منصور ہادی کو رپورٹ دیتا ہےاور منصور ہادی سعودی حمایت یافتہ اور سعودی عرب میں ہی مقیم ہے دوسرے الفاظ میں خود قاتلوں کے ذمے ان کے جرم کے تفتیش اور فیصلے کا اختیار دیا گیا تھا ۔
خوارک کی کمی اور وبائی امراض
تین لاکھ سے زائد بچوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا
اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں پانچ لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار بچے شدید بھوک کے شکار ہیں۔
غذائی قلت کے شکار ان بچوں کی عمریں پانچ برس سے بھی کم ہیں جبکہ ان میں سے دو تہائی بچے ایسے ہیں، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ بچے اس قدر بیمار ہو چکے ہیں کہ ان کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔
تیس لاکھ افراد بے گھر
یمن میں سعودی بمباری کے سبب اب تک تیس لاکھ سے زائد یمنی بے گھر ہو چکے ہیںیہی وجہ ہے کہ حال ہی میں جرمنی سمیت بہت سے ممالک میں اٹھنے والے شور کے سبب جرمن حکومت سعودی عرب کو ہتھیار نہیں بھیجنا چاہتی ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یمن کی اس بمباری اور تباہی کے بارے میں عالمی سطح پر اس طرح کی کمپئین کیوں نہیں چلائی جارہی جس طرح کا شور وقفے وقفے سے شام میں جاری آپریشن کے بارے میں کیا جاتا ہے
کیا اہل یمن کا خون خون نہیں ؟کیا شام اور یمن میں الگ الگ مخلوقات رہتی ہیں ؟
کیا یمن کے بچے انسان نہیں ؟
بات دراصل یہ ہے کہ شام میں ماضی میں حلب کو لیکر تو ابھی غوطہ کو لیکر شور مچانے کے پچھے انسانی ہمدردی سے زیادہ سیاسی مقاصد کارفرماہیں یہی وجہ ہے کہ وقفے وقفے سے جب ضرورت محسوس کی جاتی ہے تو ایک مصنوعی شور مچایا جاتا ہے
کاش کی غوطہ کے لئے مچایا جانا والا شور سچ میںاس وحشی اور بربری جنگ کے خاتمے لئے ہوتا
کاش کہ یہ شور سچ میں اس جنگ کا ایندھن بنے والے بچوں اور عورتوں اور بے گناہوں کے لئے ہوتا
کاش کہ اس شور کا در پردہ مقصد شام میںسامراجی ایجنڈوں کی تکمیل نہ ہوتا ۔