مقالہ جات

پاکستان اور ایران کے تعلقات :پہلا حصہ

یوںتو دونوں ہمسائیہ ممالک میں تعلقات کی تاریخ1947 میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے شروع ہوجاتی ہے کہ جہاں ایران ہی وہ پہلا ملک تھا کہ جس نے دنیا کے نقشے میں ابھرنے والی اس نئی مسلم ریاست پاکستان کو بعنوان ایک ملک کے فورا قبول کرلیا تھا ۔
ہمسائیہ ملک ایران کی اس وقت کی بادشاہت نے پاکستان کو بعنوان ملک قبول کرنے کے فورابعد سیاسی تعلقات استوار کرتے ہوئے اس نئے مسلم ملک کو اپنی ہمسائیگی میں نہ صرف خوش آمدید کہاتھا بلکہ مختلف حوالوں سے اس کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے عالمی فورمز میں اس کی کھل کر مدد بھی کی تھی ۔
گرچہ اس وقت کا ایران اور پاکستان دونوں زیادہ سے زیادہ امریکی حمایت اور دوستی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں تھے لیکن اس کے باوجود طرفین باہمی تعلقات میں توازن کی پوری کوشش کرتے تھے۔
ہمسائیہ ممالک ہونے کے علاوہ قدیم ثقافتی، تاریخی، دینی اور ادبی رشتوں کا تعلق بھی وہ اہم عنصر تھا کہ جس نے دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے لئے ایک خاص قسم کا احترام قائم رکھنے میں مدد دی تھی۔
ایران کے بادشاہ پہلے غیر ملکی سربراہ تھے کہ جس نے اس نئے ملک پاکستان کا 1950میں دورہ کیا تھا جبکہ اس دورے کے دوماہ بعد ہی تہران میں پاکستان اور ایران نے دوستی کے ایک معاہدے پر دستخط کردیے تھے۔
پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایران سے اس وقت کے ایرانی آئین کی کاپی کی درخواست کی تھی تاکہ اپنا آئین مرتب کرتے وقت اس سے استفادہ کیا جاسکے ۔
چھ فروری 1958میں دونوں ملکوں نے انتہائی دوستانہ و برادرانہ انداز سے کامیابی کے ساتھ سرحدوں کے حدود کا تعین کیا جو آج تک طرفین کے درمیان بغیر تنازعے اور اعتراض کے موجود ہے ۔
1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران جب امریکہ نے پاکستان کے ساتھ داغا بازی کی توایران نے پاکستان کی سیاسی، اخلاقی، عسکری اور مالی مددکے علاوہ پاکستانی طیاروں کو محفوظ بنانے کے لئے اپنے اڈے فراہم کئے تاکہ بھارتی فضائی حملوں سےا نہیں بچایا جاسکے ۔
1971کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھی ایران نے پاکستان کی سرگرم سفارتی مدد کی اور امریکہ و مغربی ممالک پر دبا ڈالا کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار نہیں ہونا چاہیے
کہا جاتا ہے کہ شاہ ایران نے کہا تھا کہ پاکستان پر حملہ ایران پر حملہ تصور کیا جائے گا جیسا کہ اس وقت بھی جب سے امریکہ نے پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کیں ہیں تو ایرانی ذمہ داروں کا لہجہ کچھ ایسا ہی ہے ۔
ایران نے بنگلہ دیش کو اس وقت تک تسلیم نہ کیا جب تک پاکستان نے خود اسے تسلیم کرنے کا فیصلہ نہ کرلیا
بلوچستان میں علیحدگی پسند بلوچوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے تو ایران نے پاکستان کو جدید جنگی ہیلی کوپٹر دئیے اور باغی بلوچوں کو ایرانی سرحد کے اندر محفوظ پناہ گاہیں نہ بنانے دیں۔
واضح رہے کہ ایران کا بادشاہ اس وقت خطے میں امریکی پولیس مین کا کردار ادا کررہا تھا اور وہ اپنے اس کردار کے سبب عالمی فورمز میں ایک حدتک اثر ورسوخ رکھتا تھا ۔
پاکستان اور ایران کے تعلقات کے بارے میں لکھی جانے والے کتاب Vatanka کا مصنف لکھتا ہے کہ ’’شاہ کی امریکی وزیر خارجہ ہینری کسنجر کے ساتھ جولائی 1973 میں واشنگٹن میں ہونے والی ایک میٹنگ میں واضح طور پر کہا تھا کہ اس نے روسی قیادت کو پاکستان کی سالمیت کے حوالے سے ایرانی عزم سے واضح طور پر آگاہ کر دیا ہے ۔
کسنجر کو بتایا گیا کہ شاہ نے بھارتیوں کو بتا دیا ہے کہ اگر پاکستان پر حملہ کیا گیا تو ایران اس سے لاتعلق نہیں رہ سکے گا اور ایران پاکستان کے مزید ٹکڑے نہیں ہونے دے گا‘‘
دونوں ملکوں میں تعلقات اس قدر بردرانہ رہے کہ شاہ ایران نے تجویز دی تھی کہ پاکستان اور ایران کی کنفیڈریشن بنائی جائے جس کی ایک ہی فوج ہو اور اس کے مشترکہ سربراہِ ریاست وہ خود ہوں۔
دونوں ہمسائیہ ملکوں کے تعلقات اسی انداز سے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ایران میں شاہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور امام خمینی کی قیادت میں انقلاب آیا جس وقت ایران میں انقلاب آرہا تھا تو اس وقت پاکستان میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی تھی اور جرنیل ضیاالحق مارشلاء کے زریعے حکومت کرنے کی تگ و دو میں تھے ۔
دوسری جانب کیونکہ ایران میں آنے والا اسلامی انقلاب اپنے مقاصد کا واضح اعلان کرتا آیا تھا کہ
اس انقلاب کا مقصد ایران میں امریکی بالادستی اور شاہ کے پولیس مین کے کردار کا خاتمہ ہے کہ جس کی اندرونی اور خارجہ پالیسی کا محور سامراجی رضامندی رہی ہے ۔
عالمی سطح پر شاہ ایران کی مکمل مدد اور کوششوں کے باوجود ایران کی مذہبی قیادت عوامی طاقت کے بل بولتے پر ایک ایسے آئیڈیالوجکل انقلاب کو کامیابی کے ساتھ ہمکنار کرتی ہے کہ جس کی بنیادظالم اور مظلوم کے اصول و ضوابط پر استوار ہے اور اس انقلاب کے بانیوں کا اعلان تھا کہ وہ ہر ظالم کیخلاف اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کی دائمی پالیسی پر چلے گے ۔
ایران میں آنے والے انقلاب نے پہلے دن سے ہی مشرق یعنی کیمونزم و سوشلزم مغرب یعنی سرمایہ داری سے عدم وابستگی کا اعلان کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ کے اسی تصور کا اعلان کردیا تھا کہ جسے پہلے ہی پاکستان اعلان کرچکا تھا ۔
یہ الگ بات ہے کہ پاکستان اسلام اور جمہوریت کے درمیان تعلق اور فاصلے کی حدود کو تعین کرتے کرتے اب تک کنفیوژن کا شکار ہے۔
ایران نے مسلم ممالک کے سلگتے مسائل فلسطین اور کشمیر کی کھل کر حمایت کی جو اب بھی اسی طرح جاری ہے اور ایران کشمیریوں کی حق خودارادیت کی مکمل حمایت کرتا ہے ۔
پاکستان میں ضیا الحق کی شروع میں کوشش رہی کہ اسلامائزیشن کے نعرے زریعے ایران کے مذہبی انقلاب میں
ذاتی طور پر ایک پوزیشن بنانے میں کامیاب بنے لیکن بقولvatanka ’’ضیا نے ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد دو طرفہ تعلقات بڑھانے کے لئے موقع کو غنیمت جانا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ خمینی اور اس کے لوگوں کو اپنے مذہبی خیالات کی وجہ سے بھا جائے گا مگر وہ اسے مذہبی نہیں بلکہ امریکیوں کا بندہ سمجھتے تھے ۔اس سلسلے میں ضیا نے پاکستان میں شیعہ رہنماں سے بھی مدد چاہی تھی ‘‘
ایران میں انقلاب کے بعد شروع میں پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں نوائے وقت اخبار میں چھپنے والے ایک مضمون میں قیوم نظامی کہتے ہیں کہ ’’ایران میں کامیاب خمینی انقلاب کے بعد مشرق وسطی کے ممالک اور پاکستان خوف زدہ ہوگئے۔پاکستان کے اندر ایرانی انقلاب کو برآمد کرنے کے لیے آوازیں بلند ہونے لگیں۔
جنرل ضیاالحق نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے کئی کارڈ استعمال کیے۔ ان میں ایک شیعہ کارڈ بھی تھا جو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر کو دکھایا گیا۔۔۔۔جنرل ضیاالحق کے دور میں سعودی عرب کی جانب غیر معمولی جھکا کی وجہ سے پاک ایران تعلقات تنا کا شکار رہے۔‘‘
ضیا الحق کے بعد بھی پاکستان میں سیاسی عدم استحکام تو کبھی متزلزل اورمبہم خارجہ پالیسی امریکہ کے ساتھ پاکستان کے غیر ضروری اور غیر معمولی تعلقات تو دوسری جانب ایران اور مشر ق وسطی کے ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تناو کہ جس کے اثرات پاکستان بھی محسوس کرتا ہے کے سبب، ایران اور پاکستان کے تعلقات مختلف قسم کے نشیب و فراز میں رہے ۔
لیکن اس کے باوجود کبھی بھی ایران اور پاکستان کے تعلقات میں کسی بھی قسم کی کشیدگی دیکھائی نہیں دی
الیکس واٹانکا کے مطابق ایران عراق جنگ کے دوران جب ایران پر عالمی پابندیاں عائد کی گئیں تو پاکستان نے ایران کا مکمل ساتھ دیا۔ کراچی پورٹ پر ایران کو سٹریٹجک سہولتیں فراہم کی گئیں۔ ایران کو گندم، چاول، چینی اور کھاد برآمد کیے گئے۔
پاکستانی عوام نے ایران عراق جنگ کے دوران متعدد بار ایران کی مالی امداد کی اور جنگ سے متاثر ہوکر پاکستان کا رخ کرنے والے ایرانیوں کی بھی مدد کی گرچہ پاکستان آنے والے ایرانیوں کی تعداد انتہائی کم رہی ہے ۔
پاکستان اور ایران نے 1994میں پاک ایران گیس پائپ لائن کے سلسلے میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ۔
قیوم نظامی کے مطابق ’’میاں نواز شریف نے سعودی فرماں رواں سے ذاتی اور تجارتی تعلقات کی بناپر ایران سے تعلقات بگاڑ لیے۔
جنرل مشرف کا واضح جھکا مشرق وسطی کے عرب ممالک کی جانب رہا اس دوستی اور وفاداری کا صلہ اسے قیمتی گھر کے تحفے کی صورت میں دیا گیا۔ جب آصف زرداری پاکستان کے صدر بنے تو سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے امریکی جنرل جونز کو کہا کہ زرداری پاکستان کا Rotten Head یعنی خراب سر ہے۔
آصف زرداری نے ایران سے گیس پائپ لائین کا معاہدہ کرکے ایرانی سرحد پر اس کا افتتاح بھی کردیا۔ ایران نے اپنے علاقے میں اربوں ڈالر خرچ کرکے پائپ لائن کا کام مکمل کرلیا مگر میاں نواز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکہ اور سعودی عرب کے دبا پر اس قومی منصوبے کو تعطل کا شکار کردیا۔‘‘

جاری ہے ۔۔۔
اگلے حصے میں
بدلتی حکومتوں سویلن تو کبھی فوجی حکمران ۔واضح پالیسی سے محروم پاکستان
پاکستان کی پالیسی مستقل یا ذاتی مفاد و پسند و ناپسند کے تابع ؟
جنوبی ایشیا کے لئے امریکی پالیسی کے تناظر میں پاک ایران تعلقات
بھارت ایران تعلقات کی نوعیت اور چابہار پورٹ
افغانستان پالیسی اور پاک ایران تعلقات
روس چین اور پاک ایران تعلقات
سعودی عرب اور پاک ایران تعلقات جیسے مسائل کو زیر بحث لایا جائے گا

متعلقہ مضامین

Back to top button