مقالہ جات

رقہ سے سینکڑوں جنگجوؤں کا فرار: امریکہ،برطانیہ و کرد اتحادی افواج کا داعش سے خفیہ معاہدہ بے نقاب –بی بی سی

ادارتی نوٹ : داعش کے خلاف امریکہ، برطانیہ کا کردار پہلے بھی خاصا مشکوک رہا ہے۔شام میں داعش کے خلاف امریکی و برطانوی افواج کا مشترکہ اتحاد شامی کرد تنظیم سیرین ڈیموکریٹک فورسز۔ایس ڈی ایف کے خلاف کئی ماہ سے رقہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھا۔چار ماہ کے بعد رقہ میں جب مغربی اتحادی ایس ڈی ایف کے ساتھ داخل ہوئے تو وہاں ایک بھی داعش کا جنگجو نہیں تھا اور نہ ہی ان کے خاندان وہاں موجود تھے۔اتنے سخت محاصرے کے باوجود داعش کے جںگجوؤں کا فرار ایک سوالیہ نشان تھا۔روس، شام، ایران ،حزب اللہ کا کیمپ پہلے ہی امریکہ پہ یہ الزام عائد کرتا آیا ہے کہ وہ داعش تنظیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں سنجیدہ نہیں ہے بلکہ ان لڑاکوں کو دنیابھر میں پھیل جانے کا موقعہ فراہم کررہا ہے تاکہ ایشیا، افریقہ سمیت دنیا بھر میں فوجی مداخلتوں اور پراکسی وار کا جواز پیدا کیا جاسکے۔حال ہی میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکہ پہ الزام عائد کیا تھا کہ اس نے افغانستان میں داعش کو پھلنے پھولنے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔پاکستان کو بھی داعش سے سخت خطرات لاحق ہیں۔داعش کے نام پہ پاکستان کے اندر پہلے سے سرگرم تکفیری دیوبندی-سلفی وہابی نیٹ ورک اور شام و عراق سے بھاگ کر آنے والے عسکریت پسندوں کے پاکستان کی قبائلی ایجنسی کرم، جنوبی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی و اندرون سندھ میں سرگرم ہونے اور ان کے خفیہ سیل پنجاب کے اندر اور بلوچستان میں ان کی تربیت گاہوں کا سراغ لگا ہے۔یہ گروہ پاکستان کے اندر شیعہ نسل کشی، کرسچن،ہندؤ، احمدی ، صوفی سنّی مسلمانوں پہ حملوں میں ملوث ہیں۔ساتھ یہ پاکستانی پولیس،ایف سی، رینجرز، فوج اور سرکاری اداروں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔پاکستان کی ریاست ابتک داعش جیسی تنظیموں کا سبب بننے والی فکر کو پھیلانے والے تعلیمی اداروں، تنظیموں اور افراد کے خلاف کوئی ٹھوس حکمت عملی بنانے سے قاصر نظر آتی ہے۔بلکہ ریاست تو کالعدم فرقہ پرست تنظیمیں جن کی داعش سے سب سے زیادہ ہمدردی ہے کو مین سٹریم کرنے کا ایک پروجیکٹ چلارہی ہے۔پنجاب ہوم ڈیپارٹمنٹ نے دو سو سے زائد افراد کے نام فورتھ شیڈول اور واچ لسٹ سے نکال دئے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی انگریزی ویب سائٹ نے دعوی کیا ہے کہ انھوں نے رقہ سے داعش کے لڑاکوں اور ان کے خاندانوں کے امریکہ،برطانیہ اور کرد فوجوں پہ مشتمل الائنس کی نگرانی میں فرار پہ مشتمل خفیہ معاہدے کی تفصیلات معلوم کرلی ہیں۔تفصیلات کے مطابق ایک لاری ڈرائیور ابو فواذی ہے جوکہ 18 وہیلر گاڑی چلاتا ہے اور شمالی شام کے خطرناک ترین علاقوں میں دور دور تک جاتا رہتا ہے۔بمباری سے متاثرہ پل،لق و دق صحرا کی ریت، یہاں تک کہ حکومتی افواج اور نام نہاد دولت اسلامیہ کے جنگجو اس کی ڈیلیوری کے آڑے نہیں آتے۔ لیکن اس بار وہ انسانوں کا بوچھ لیکر جارہا تھا۔سیرین ڈیموکریٹک فورسز/ایس ڈی ایف،کرد اور عرف داعش مخالف عسکریت پسندوں کا اتحاد، اس سے چاہتا تھا کہ وہ ایک کانوائے کی رہنمائی کرے جس میں ان کے بقول فرات کنارے طبقہ قصبے میں موجود شمالی شام کا ایک دور دراز قصبہ پہ موجود جنگ سے بے دخل ہونے والے لوگوں کے کیمپ سے سینکڑوں لوگ ہیں جن کو مزید شمالی شام میں کسی محفوظ مقام منتقل کرنا ہے۔ ان کو کہا گیا تھا کہ اس کام میں چھے گھنٹے لگیں گے۔ لیکن جب وہ اور اس کے ساتھی ڈرائیوروں نے 12 اکتوبر 2017ء کی صبح کانوائے کو اس کی منزل تک پہنچادیا تو ان کو پتا چلا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا۔ کیونکہ ان کو تین دن تک بہت ہی مشکل ڈرائیونگ کرنا پڑی، ان کے قافلے میں داعش کے سینکرڑوں جنگجو، ان کے خاندان اور ٹنوں کے حساب سے اسلحہ و گولہ بارود تھے۔ ابوفواذی اور درجنوں دوسرے ڈرائیورز کو اس کام کے کرنے کے ہزاروں ڈالر دینے کا وعدہ اس شرط پہ ہوا تھا کہ وہ اس کام کو خفیہ رکھیں گے۔داعش کے جنگجوؤں کو خودساختہ خلافت کے ڈی فیکٹو داراخلافہ سے فرار کروانے کا معاہدہ مقامی حکام نے کیا تھا۔چار ماہ کی جنگ کے بعد معلوم ہوا کہ شہر مکمل کھنڈر اور لوگوں سے یکسر خالی ہے۔اصل میں داعش سے یہ معاہدہ کیا گیا کہ ان کے زیر قبضہ جو عرب، کرد اور داعش کے مخالف جو دیگر عسکریت پسند ہیں ان کی جان بخشی کی جائے گی اور اس کے عوض ان کو فرار کا محفوظ راستا فراہم کردیا جائے گا اور لڑائی اپنے انجام کو پہنچے گی۔ لیکن اس عمل نے داعش کے سینکڑوں عسکریت پسندوں کا فرار آسان بنایا۔اس وقت نہ تو امریکہ اور برٹش افواج نے اور نہ ہی ایس ڈی ایف جس کی امریکی و برطانوی حمایت کرتے ہیں اپنا کردار تسلیم کرنا چاہتے تھے۔ اس خفیہ معاہدے کیا باقی دنیا کو خطرے میں نہیں ڈال دیا گیا، کیونکہ اس معاہدے نے داعش کے عسکریت پسندوں کو اس قابل بنادیا ہے کہ وہ شام کے اندر اور اس سے باہر پھیل جائیں۔

بی بی سی کا کہنا ہے کہ اس ڈیل کو دنیا سے چھپانے کے لئے بہت مشقت اٹھائی گئی ۔لیکن اس نے درجنوں لوگوں سے بات چیت کرکے جو یا تو کانوائے میں تھے، یا انہوں نے اسے دیکھا اور وہ لوگ جنھوں نے اس معاہدے کے لئے مذاکرات کئے تھے سے بات چیت کی ہے۔ طبقہ شہر کے باہرگریس کے دھبوں سے بھرے ایک صحن میں، کجھور کے ایک درخت کے نیچے، تین لڑکے ایک لاری انجن کی مرمت کرنے میں مصروف ہیں۔وہ موٹر آغل میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ان بال کالے اور چکنے بالکل کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک ڈرائیوروں کا ایک ہجوم ہے۔ابوفوازی اپنی روشن سرخ جیکٹ میں ان کے درمیان نمایاں نظر آرہا تھہ۔اس کا رنگ اس کی محبوبہ 18 وہیلر گاڑی کے رنگ سے میچ کررہا تھا۔وہ ان سب کا لیڈر لگ رہا تھا، اس نے تیزی سے چائے اور سگریٹ کی پیشکش کی۔پہلے تو اس نے کہا کہ وہ کوئی بات نہیں کرنا چاہتا لیکن جلد ہی اس نے اپنا ذہن بدل دیا۔ وہ اور اس کے ساتھی ڈرائیور ناراض تھے۔ہفتوں انھوں نے جان جوکھم میں ڈال کر سفر کا خطرہ مول لیا جس نے ان کی گاڑیوں کے انجن تباہ، ایکسل توڑ دئے لیکن ابھی تک ان کو ادائیگی نہیں کی گئی تھی۔وہ کہتا ہے کہ یہ جہنم کی طرف سفر کرنے جیسا تھا۔ جس لمحے ہم رقہ میں داخل ہوئے تو ہم ڈرے ہوئے تھے۔ہمارا خیال تھا کہ ہم ایس ڈی ایف کے ہمراہ جائیں گے،لیکن ہمیں اکیلے ہی جانا پڑا۔جونہی ہم داخل ہوئے، ہم نے داعش کے لڑاکوں کو اپنے ہتھیاروں، خودکش جیکٹوں کے ساتھ دیکھا۔انہوں نے ہمارے ٹرکوں کو ان خودکش بمباروں سے بھردیا تھا۔اگر کچھ بھی غلط ہوتا تو وہ پورے کانوائے کو بموں سے اڑا دیتے۔یہاں تک کہ ان کی عورتیں اور بچوں نے بھی خودکش بیلٹ باندھ رکھیں تھیں۔ کرد فوج ایس ڈی ایف نے رقہ کو میڈیا سے خالی کردیا تھا تاکہ دولت اسلامیہ کے فرار کو کوئی چینل فلمانہ سکے۔
ایس ڈی ایف نے جبکہ اعلان یہ کیا تھا کہ چند درجن عسکریت پسند ہی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے،اور وہ بھی مقامی تھے۔ لیکن ایک لاری ڈرائیور کہتا ہے کہ یہ سچ نہیں ہے۔ ہم نے چار ہزار لوگوں کو وہاں سے نکالا جن میں عورتیں اور بچے شامل تھے۔ہماری گاڑیاں اور ان کی گاڑیاں اس کانوائے میں شامل تھیں۔ہم رقہ میں داخل ہوئے،ہمارا خیال تھا کہ 200 لوگوں کو لینا ہوگا۔میری گاڑی میں ہی 112 افراد آگئے۔ ایک دوسرا ڈرائیور کہتا ہے کانوائے چھے سے سات کلومیٹر طویل تھا۔اس میں 50 ٹرک،13 بسیں اور 100 سے زیادہ داعش کی اپنی گاڑیاں تھیں۔داعش کے جنگجوؤں کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے اور بعض گاڑیوں کی چھتوں پہ بھی وہ جارحانہ انداز میں بیٹھے ہوئے تھے۔ لاری ڈرائیوروں نے ان کی خفیہ فوٹیج بنالی تھی جو ہمیں دکھائی گئی اس میں مسلح لوگ گاڑیوں کے ساتھ جھولتے لٹکتے نظر آرہے تھے۔اگرچہ معاہدہ صرف ذاتی اسلحہ لیجانے کا تھا لیکن داعش والے ہر وہ اسلحہ ساتھ لے گئے جو گاڑیوں میں لیجایا جاسکتا تھا۔ٹرک اسلحہ و بارود سے بھرے ہوئے تھے۔
ایک سفید ٹرک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابو فواذی نے بتایا کہ اس کا ایکسل ایمونیشن کے زیادہ وزن کے باعث ٹوٹ گیا۔

یہ انخلا نہیں تھا بلکہ داعش کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی تھی۔ ایس ڈی ایف نہیں چاہتی تھی کہ رقہ سے ان کی پسپائی فرار کی بجائے فتح لگے۔کسی جھنڈے یا بینر کو لہرانے کی کانوائے کو اجازت نہ تھی۔ مئی 2017ء میں، امریکی سیکرٹری دفاع جیمس میٹس نے کہا تھا، داعش کے خلاف جنگ ان کو فنا کرنے کی جن ہے۔ہمارا عزم ہے کہ غیرملکی جنگجوؤں کو لڑائی میں زندہ نہیں چھوڑا جائے گا کہ وہ واپس اپنے آبائی ملک شمالی افریقہ،یورپ،امریکہ،ایشیا یا افریقہ لوٹ جائیں۔ہم ان کو ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ ان کا یہ بیان امریکی سرکاری ٹیلی ویژن پہ نشر ہوا تھا۔ لیکن ان ڈرائیوروں کے بقول غیر ملکی عسکریت پسند جن کا تعلق شام یا عراق سے نہیں تھا وہ بھی اس کانوائے میں شامل تھے۔ اس قافلے میں بری تعداد میں فرانس، ترکی،آذربائجان، یمن، سعودیعرب،چین، تنزانیہ،مصر وغیرہ کے غیرملکی جنگجو شامل تھے۔
وسرے ڈرائیوروں نے درمیان میں لقمے دیتے ہوئے کچھ اور قومیتوں کے جنگجوؤں کی نشاندہی بھی کی۔ اب تک بی بی سی کی تحقیقات کی روشنی میں اب اتحادی افواج معاہدے میں اپنا کردار مان رہی ہیں۔250داعش کے عسکریت پسندوں کو 3500 ان کے خاندان کے لوگوں کے ساتھ رقہ سے بھاگنے کا راستا دیا گیا۔

آپریشن ان ہیرنٹ ری زالو، مغربی فوجی اتحاد برخلاف داعش کے ترجمان کرنل ریان ڈلن نے کہا،ہم کسی کو فرار ہونے نہیں دینا چاہتے تھے،اور یہ فرار ہماری سٹریٹجی کے خلاف تھا،لیکن مقامی لیڈر جو کہ ہمارے ساتھ لڑرہے تھے ان کا کہنا تھا کہ آپریشنل فیصلے ان کو کرنے دئے جائیں۔ کرنل ریان نے تسلیم کیا کہ اتحادی افواج کا ایک افسر ان مذاکرات کے دوران موجود تھا لیکن اس کا کردار فعال نہ تھا۔کرنل ریان کا کہنا کہ چار غیرملکی عسکریت پسند وہاں تھے جو ایس ڈی ایف کی تحویل میں ہیں۔ کانوائے سفر کرتا کرتا جب ایک صحرا میں پوچھا جہاں ٹرکوں کا چلنا دشوار تھا تو اس دوران جب تھوڑی ہچکچاہٹ دکھائی جاتی تو ہر ایک گاڑی کے ڈرائیور کے ساتھ دو سے تین داعش کے لوگ تھے جو ڈرائیور کو مارتے اور ساتھ اسے کافر،سور کہہ کر گالی دیتے تھے۔ عرب ڈرائیور جو ان کے فرار میں حالانکہ مدد دے رہے تھے ان کو سارے راستے گالیاں دی جاتی رہیں اور بدسلوکی ہوتی رہی۔ وہ کہتے،جب تم رقہ کی تعمیر نو کرلو۔ہم پھر واپس آئیں گے۔تم ذمہ دار ہو ہمیں رقہ سے نکلوانے کے۔ایک خاتون جنگجو نے اسے اے کے 47 سے مارا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button