مقالہ جات

خطے میں مقاومتی بلاک کا پلڑہ بھاری ہے

القدس العربی کے سابق چیف ایڈیٹر اور رای الیوم کے موجودہ فلسطینی کالم نگار عبدالباری عطوان نے موصل میں عراقی افواج اور رضاکار فورسز کی کامیابی اور صہیونی ـ تکفیری ٹولے داعش کی عبرتناک شکست پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا: ”ان دنوں 2006 میں اسرائیل پر حزب اللہ کی تاریخی کامیابی کی گیارہویں سالگرہ منائی جا رہی ہے اور ساتھ ہی ان ہی دنوں عراقی افواج نے موصل کو داعش سے آزاد کرا لیا ہے؛ گو کہ یہ ایک حادثاتی سا واقعہ ہو لیکن ان دو واقعات کا باہمی تعلق یہ ہے کہ یہ دونوں کامیابیاں اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت میں برسرپیکار اسلامی محاذ مزاحمت کی کامیابی اور ایران اور اس کے حلیفوں کی کامیابیوں کے تسلسل کی ایک اور کڑی ہے” حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اسی سلسلے میں خطاب کرتے ہوئے موصل میں عراقی افواج کی فتح و کامیابی کی تعریف کی اور داعش کے تسلط سے اس شہر کی آزادی کو بہت اہم اور عظیم قرار دیا۔ داعش کے خلاف لڑنے والے سنی افسروں کے کردار اور مقام و منزلت کو منفرد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر فتنہ گری کے حامی ٹولے کی سازشیں ناکام ہوئیں تو اس کا اصل اور بنیادی سبب علمائے اہل سنت کا شجاعانہ موقف تھا۔”

عراق، شام اور لبنان میں اسلامی محاذ مزاحمت کی کامیابیاں ایسے حال میں رقم ہو رہی ہیں کہ سعودی محاذ کو مسلسل پسپائیوں اور شکستوں کا سامنا ہے اور سعودیوں کے اپنے ہی منصوبوں نے اسے اپنے اندرونی بحرانوں، اور قطر اور یمن سمیت علاقائی بحرانوں میں ڈبو دیا ہے۔ اسلامی محاذ مزاحمت عراق، شام اور لبنان سمیت خطے کے ممالک میں کامیاب رہا اور یہ محاذ روز بروز متحد تر اور مستحکم تر ہو رہا ہے جبکہ سعودی محاذ اپنی یکجہتی کھو چکا ہے اور شکست و ریخت کا شکار ہو کر شام، عراق اور یمن سمیت مختلف محاذوں پر شکست کھا چکا ہے۔ محاذ مقاومت کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ صہیونی ریاست کے خلاف مزاحمت کی قانونی حیثیت کا سہارا لئے ہوئے ہے جو اس محاذ کی کامیابی کا بنیادی ترین راز ہے اور اس کے مد مقابل سعودی محاذ آ کھڑا ہوا ہے جو صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور اس کے ساتھ سازباز اور تعلقات کے قیام کو جائز سمجھتا ہے اور یہی ان دو محاذوں کے درمیان بنیادی فرق ہے۔ سید حسن نصراللہ عراق میں کسی بھی فتنے کے سد باب میں اہل سنت کے کمانڈروں کے کردار کو خراج تحسین پیش کرنے میں حق بجانب تھے اور ان کا یہ اقدام علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر شیعہ اور سنی کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی راہ میں ایک نہایت دانشمندانہ اقدام تھا؛ اس فتنے کے سد باب کی راہ میں اقدام، جس کے تحت نت نئے ٹولے بن رہے ہیں اور عراق میں خانہ جنگی کی صورت حال اور داعش کی فارغ البالی کا سبب بنتا ہے۔

ایران وسیع سطح پر غیر عسکری اور غیر روایتی قوتوں کی تشکیل میں کامیاب ہو چکا ہے اور اس کا یہ اقدام پر ثمر ثابت ہوا؛ لبنان میں حزب اللہ کی کامیابی کے بعد آج ہم عراق کی الحشد الشعبی کی عوامی فورسز میں دیکھ رہے ہیں اور یہ عوامی افواج دہشت گرد ٹولے داعش کو شکست دینے میں بنیادی کردار ادا کرچکی ہیں۔ ایسے حال میں جب امریکہ اور اس کی افواج نے عراق کے خلاف جنگ لڑی اور اس پر قبضہ کیا اور اس جنگ کو فرقہ وارانہ ٹولے “حزب بعث” کے کھنڈرات کے اوپر “نئے عراق کے قیام” کا عنوان دیا لیکن آج ہم وہاں موصل کی آزادی کے بعد اس سے بھی بھی زیادہ نئے اور تازہ ترین عراق کو دیکھ رہے ہیں جو ایران ـ شام کے مشترکہ [اسلامی محاذ مزاحمت] کے سائے میں اہم علاقائی قوت کے طور پر اپنا کردار ایک بار حاصل کر چکا ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ بعض قوتیں موصل میں محاذ مزاحمت کی عظیم کامیابی کو غیر اہم ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ عربی خطہ جغرافیائی ـ سیاسی لحاظ سے اپنے ڈھانچے کی تعمیر نو میں مصروف ہے، بالخصوص اس حوالے سے کہ شام کے حالات تیزرفتاری سے بدل رہے ہیں، روس کا کردار کئی گنا بڑھ چکا ہے، اور گذشتہ چھ برسوں کے دوران صدر بشار الاسد کے زوال کے بارے میں دیئے جانے والے تمام نظریات غلط اور بےبنیاد ثابت ہو چکے ییں۔

حالیہ عشروں میں خلیجی حکمرانوں کا دور دورہ تھا، علاقے میں ان کی دولت حکمرانی کر رہی تھی لیکن وہ زمانہ گذر چکا ہے اور خلیجی ممالک کا سنہری دور نابود ہو رہا ہے، صرف اس لئے نہیں کہ تیل کی قیمتیں گر گئی ہیں اور ان کے عظیم مالی ذخائر دھواں ہو چکے ہیں، بلکہ اس لئے کہ یہاں امریکی نقشے نافذ ہو رہے ہیں، امریکہ بےچینی اور تناؤ کی کیفیت اس علاقے پر مسلط کرنے کے درپے ہیں۔ ظاہری اقدامات کے برعکس، امریکہ 11 ستمبر 2001 کے واقعات کے سلسلے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر پر مقدمہ چلانے کی تیاری کر رہا ہے اور 9/11 میں ان تین ممالک کے ملوث ہونے کے سلسلے میں اب تک 15 ثبوت امریکی عدالتوں کو فراہم کئے جا چکے ہیں اور ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ اس سلسلے میں ان ممالک پر مقدمہ چلائے جانے کی صورت میں ان ملکوں پر کئی کھرب ڈالر تاوان واجب الادا ہو جائے گی جو انہیں 9/11 کے دن مارے جانے والے امریکیوں کے اہل خانہ کو ادا کرنے پڑیں گے۔

مجھے یقین ہے کہ موجودہ زمانے میں علاقے کی شکست و ریخت کی غرض سے لڑی جانے والی تمام تر جنگیں اور سازشیں اسرائیل کے مفاد میں ہیں لیکن یہ جو نئی تبدیلیاں آئی ہیں وہ ہرگز اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہیں بلکہ یہ صورت حال امریکیوں کے لئے بنیادی خطرہ ہیں۔ اس وقت یہودی ـ صہیونی ریاست کے لئے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ایران اور اس کے حلیف شام کی سرحدوں تک پہنچ جائیں [جن کے اس پار مقبوضہ سرزمین پر مسلط صہیونی ریاست واقع ہے]۔ مصر نے شام کے ساتھ اپنے تعلقات بحال رکھے ہیں اور مصری وزارت خارجہ نے موصل کی آزادی کے سلسلے میں عراقی حکومت اور عوام کو مبارک باد دی ہے۔ مصر کی طرف سے ایران پر ہونے والے ابلاغی حملوں میں شدید کمی آئی ہے، حالانکہ مصر نے قطر کے بحران کے سلسلے میں سعودیوں اور اماراتیوں کا ساتھ دیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصر اپنے تمام اڈے سعودی ٹوکری میں رکھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ مغربی ایشیا [مشرق وسطی] کو بڑی بڑی تبدیلیوں کا سامنا ہے جو اگر مؤثر ہوئیں تو امریکی ہیبت کا مکمل خاتمہ نہ بھی ہو، اس میں شدید کمی واقع
ہو گی۔ اور طاقت کا توازن اس ملک کے مفاد میں بدلے گا جو اس وقت ہر تقابل سے بخوبی عہد برآ ہو چکا ہے۔
عبدالباری عطوان

متعلقہ مضامین

Back to top button