پاکستان

جنرل راحیل شریف کو این او سی کن شرائط پر دیا، سینٹ و پارلیمنٹ میں حکومت پر سوالات کی بوچھاڑ

شیعیت نیوز: قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے حکومت سے سوال کیا ہے کہ راحیل شریف کو کن شرائط پر این او سی دیا گیا، وزیراعظم ایوان کو سعودی اتحاد اور دورہ سعودی عرب پر اعتماد میں لیں۔ ایوان میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ شرط بھی عائد کی کہ ہم صرف وزیراعظم کی بات سنیں گے اور کسی کی نہیں سنیں گے۔ میں پوری اپوزیشن کی طرف سے ذمہ داری لیتاہوں کہ وزیراعظم ایوان میں آئیں ایک نعرہ بھی نہیں لگے گا جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے قطرکی صورتحال پر پارلیمنٹ کا مشترکا اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔

اپوزیشن جماعتوں نے منگل کو اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت اجلاس میں بھی ایوان سے واک آئوٹ کیا اور کارروائی کا بائیکاٹ جاری رکھا تاہم اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے نکتہ اعتراض پرتقریرکی۔ انہوں نے کہا کہ خطے کی صورتحال تشویشناک ہے۔ وزیراعظم نوازشریف ایوان کو اعتماد میں لیں کہ اسلامی عسکری اتحاد کیاہے۔ اس فوج کے سربراہ سابق آرمی چیف ہیں۔ پہلے ایوان کو کہاگیاکہ پہلے شرائط طے ہوں گی پھرراحیل شریف جائیں گے۔ وزیردفاع نے کیوں نہیں بتایاکہ وہ شرائط کیاہیں جن کے تحت راحیل شریف گئے۔ ایوان ان شرائط سے لاعلم ہے۔ بے شک ان کیمراسیشن میں بتایادیں۔ تمام ممبران پارلیمنٹ محب وطن ہیں۔ کوئی ممبرباہرجاکرنہیں بتائے گا۔ وزیراعظم نے اچھاکیاکہ سعودی عرب گئے لیکن نوازشریف ایوان میں آ کر بتائیں کے سعودی عرب میں کیابات ہوئی۔ وزیر خارجہ نوازشریف نہیں ہم مشیرکی بات سننے کے لئے تیارنہیں۔ وزیراعظم وضاحت کریں گے کہ ہم 35رکن اتحاد کاحصہ ہیں یا نہیں۔ پارلیمنٹ بہت بڑی طاقت ہے۔یمن پرپارلیمنٹ نے قرارداد منظور کرکے حالات سے نکالا۔پارلیمنٹ پر بات آئے گی۔ حکومت پربوجھ نہیں آئے گا۔

دوسری جانب سینٹ قائمہ کمیٹی برائے قواعدو ضوابط و استحقاق کو بتایا گیاکہ اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کی سربراہی کیلئے جنرل راحیل شریف کو این او سی مروجہ طریقہ کارکے تحت دیا گیا۔منگل کو سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدین کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد وضوابط کا اجلاس ہوا۔ سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ضمیر الحسن شاہ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ جنرل راحیل شریف کواین اوسی مروجہ طریقہ کارکے تحت دیا گیا، یہ این اوسی دہشت گردی کیخلاف جنگ کے لیے ہے، این او سی میں کسی ملک پر روایتی حملے کی اجازت نہیں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button