مقالہ جات

رمضان قرآن اور احادیث معصومین (ع) کی نظر سے

مقدمہ
اسلام ، انسان سازی کا مکتب ہے، مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا ایک راز تزکیہ نفوس ہے، کیونکہ خداوندعالم ،کمال مطلق ہے، تو اس کا انتخاب اور چناؤ بھی بر اساس حکمت ہے، اس نے ممالک ہستی کے درمیان سے بہشت کو انتخاب کیا تو بہشتی نہروں کے درمیان سے کوثر کو چنا، بہشتی درختوں میں طوبی کو منتخب کیا۔
تمام موجودات اور مخلوقات کے درمیان سے انسان کو، سارے انبیاء اور پیغمبروں کے درمیان سے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اورمکاتب و مذاہب میں سے اسلام کو پسند فرمایا ہے۔
زمینی بستیوں میں کعبہ، پتھروں میں حجرالاسود، راستوں میں صراط مستقیم، کتب آسمانی میں قرآن کریم، قرآنی سوروں میں یاسین، ارکان میں نماز، ایام ہفتہ میں جمعہ، مہینوں میں رمضان، اور عبادت میں روزہ کو منتخب فرمایا ہے۔
رمضان اور روزے کی فضیلت
مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،رمضان اور روزہ کی فضیلت و اہمیت میں ارشاد فرماتےہیں: ” لوگو! ماہ خدا برکت ، رحمت اور مغفرت کے ہمراہ تمہارے سامنے ہے، یہ مہینہ ، پیش خدا تمام مہینوں سے برتر ، اس کے دن برترین ایام، اس کی راتیں ساری شبوں سے بہتر اور اس کا وقت و لمحہ بہترین اوقات سے ہے۔
اس ماہ میں آپ لوگوں کو ضیافت الہی کی طرف دعوت دی گئی ہے ،اور اس کے حضور اہل کرامت بنایا گیا ہے، اس میں تمہاری سانسیں تسبیح کا دربہ رکھتی ہیں اور اس میں تمہاری نیندیں عبادت، اور تمہارے عمل مقبول ، تمہاری دعائیں مستجاب ہیں، لہذا خداوندعالم سے خلوص نیت اور پاکیزہ قلوب سے سوال کرو تاکہ تمہیں اس کے روزے، اس کی کتاب کی تلاوت کی توفیق مرحمت ہو، یقینا بدنصیب ہے وہ شخص جو اس ماہ عظیم میں خداوندعالم کی بخشش سے محروم رہ جائے۔
اس ماہ میں اپنی بھوک اور پیاس سے روز قیامت کی جوع و عطش کو یاد کرو ، ضرورتمندوں اور محتاجوں کو صدقہ دو، اپنے بزرگوں کی توقیر کرو اور بچوں پر رحم و نوازش کرو، صلہ رحم کرو اور اپنی زبانوں کو(برائیوں سے) حفظ کرو، اپنی آنکھوں کو جن کو دیکھنا حلال نہیں ہے اور سماعتوں کو جن چیزوں کوسننا ناجائز ہے بچاؤ۔ اے لوگو! یتیموں سے مہربانی سےپیش آؤتاکہ تمہارے یتیموں سے مہربانی کی جائے اپنے گناہوں کی خداسے توبہ کرو، اوقات نماز اپنے ہاتھوں کو دعا کے لیے اٹھاؤ، بے شک وہ بہترین وقت ہے خداوندعالم اپنے بندوں کی طرف نظر رحمت کرتا ہے ، مناجات کا جواب دیتا ہے ، جب اسے آواز دی جائے تو لبیک کہتا ہے اور جب اسے بلایا جائے تو قبول فرماتا ہے ۔
اے لوگو! تمہاری سانسیں تمہارے اعمال کا مرہون منت ہیں ، تو تم انہیں استغفار سے آزاد کرواور تمہاری پشتیں گناہوں سے سنگین ہوگئی ہیں لہذا انہیں طولانی سجدوں سے سبک کرلو، اور جان لو کہ خداوندتبارک وتعالی نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ نماز گزاروں کو اور سجدہ کرنے والوں کو عذاب سےمحفوظ رکھے، نہ آتش جہنم سے نہ ڈرائے جس دن لوگ امر خداکی خاطر اٹھائے جائیں گے۔
اے لوگو! تم میں سے جو شخص کسی مومن کو اس ماہ میں افطاری کرائے اس کے لیے خداکےنزدیک غلام آزادکرنے کا ثواب ہے اور گذشتہ گناہوں سےمغفرت ہے، کہا گیا : اے رسول اللہ ! ہم میں سے ہر ایک افطاری کرانے پر قادر نہیں ہے! حضور نے فرمایا: خود کو آتش جہنم سے بچاؤ چاہے آدھی کھجور سے ہی کیوں نہ ہو ، آگ سے دوری اختیار کرو گرچہ تھوڑے پانی ہی سے سیراب کرکے۔
اے لوگو! جو شخص اس ماہ میں اپنے اخلاق کو نیک بنائے اس کے لیے پل صراط سے گزرنے کا پروانہ ہے جس دن قدم متزلزل ہونگے، اور جو کوئی اس ماہ میں اپنے غلام اور کنیز سےکم خدمت لے خداوندعالم اس کے حساب کو سبک کرے گا، اور اس کے ساتھ سختی نہیں کرے گا، اور جو کوئی اس ماہ میں شر اور برائی سے دور رہے خداوندعالم اپنے غضب کو اس سے دور رکھے گا جس دن وہ اس سےملاقات کرے، اور جو کوئی اس ماہ میں یتیم کا اکرام کرے خداوندتبارک وتعالی روز قیامت اسے مکرم بنائے گا ، جو کوئی صلہ رحم کرے وہ روزقیامت خداوندعالم کے سایہ رحمت میں رہے گا اور جو قطع رحم کرے خداوند روزقیامت اس سے اپنی رحمت قطع کرلے گا۔اور جو شخص اس ماہ میں مستحبی نمازیں بجالائے خداوندعالم آتش جہنم سے آزادی و برائت کا پروانہ اس کے لیے کھولے گا، اور جو واجب نمازوں کو ادا کرے گا تو اس کے لیے اس شخص کی طرح ثواب ہے کہ جس نے ستر(70) واجبات کو ماہ رمضان کے علاوہ انجام دیا ہے، اور جو مجھ پر کثرت سے صلوات بھیجے خداوندعالم اس کے میزان کو سنگین بنادے گا جس دن بار میزان سبک و ہلکے ہوں گے، اور جو شخص قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے اس کے لیے اس شخص کی طرح اجر و ثواب ہے جس نے غیر ماہ رمضان میں قرآن کامل ختم کیا ہو۔
اے لوگو! اس ماہ میں درواوہ بہشت کھول دیے گئے ہیں، اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ انہیں تم پر بند نہ کرے، اور دوزخ کے دروازے بند کردیے گئے ہیں لہذا اپنے خداسے چاہو کہ تمہارے لیے نہ کھولے، اس ماہ میں شیاطین قید کردیے گئے ہیں خداوندعالم سےالتجا کرو کہ انہیں تم پر مسلط نہ کردے۔
امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: میں اٹھا، اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا : یا رسول اللہ ! اس ماہ کا بہترین عمل کیا ہے؟ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس مہینے میں سب سے بہترین عمل ان چیزوں سے بچنا اور دور رہنا ہے جنہیں خداوندعالم نے حرام قرار دیا ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ حرام سے پرہیز کرنا ماہ رمضان کا افضل ترین عمل ہے ،اور تقوی اختیار کرنے کی طرف اشارہ ہے یعنی جس طرح انسان جنگل و بیابان سے گزرتے وقت خار وخاشاک سے بچتا ،احتیاط کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے ، اپنے لباس کو بچاتا ہے اور آہستہ آہستہ احتیاط سے قدم بڑھاتا ہے تاکہ کوئی نقصان و آسیب نہ پہنچے، اسی طرح چاہیے کہ معاصی و گناہ سے دور رہے اور اپنی زندگی احتیاط سے بسر کرے ۔ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: تقوی ؛ اخلاقیات کا منبع اور بنیاد ہے۔
خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے :اگر تقوی الہی اختیار کروگے تو خداوندعالم تمہیں فرقان(حق و باطل کی تشخیص کی قدرت) عطا کرےگا۔ اور اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہے: جو کوئی تقوی الہی اختیار کرے خدااس کے لیے راہ خروج قرار دے گا۔
اسماء ماہ رمضان
متعد د روایات کہ جو ماہ رمضان کی عظمت کو اجاگر کرتی ہیں اور انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں جیسا کہ ماہ رمضان المبارک کے اسماء گرامی، ماہ رمضان المبارک کی عظمت و جلالت کو اجاگر کرتے ہیں،ماہ رمضان المبارک کے متعدد اسماء ہیں جو احادیث میں وارد وارد ہوئے ہیں اور سب کے سب ایک مفصل بیان وتشریح کے محتاج ہیں ماہ رمضان المبارک کے بعض اسماء اس طرح ہیں:
ماہ خدا، ماہ اکبر خدا ، ماہ ضیافت خدا، ماہ نزول قرآن، ماہ تلاوت قرآن، ماہ صیام، ماہ اسلام، ماہ طہور، ماہ تمحیص، ماہ قیام، ماہ عتق و آزادی، ماہ صبر، ماہ مواسات، ماہ برکت، ماہ مغفرت، ماہ رحمت، ماہ توبہ، ماہ انابہ، ماہ استغفار ، ماہ دعا، ماہ عبادت، ماہ اطاعت، ماہ مبارک، ماہ عظیم، وہ مہینہ کہ جس میں خداوندعالم مومن کےرزق کو زیادہ کرتا ہے، مہینوں کا آقا و سردار، اولیاء خدا کی عید، بہار قرآن، فقراء کی بہار، مؤمنین کی بہار۔
فضائل ماہ رمضان
فضائل و خصائص ماہ رمضان خاص اہمیت کے حامل ہیں یہ مہینہ خدا کی نعمتوں کی بنیاد و اساس ہے کہ جن کو نہ شمار کیا جاسکتا ہے اور نہ جن کا حساب لگایا جاسکتا ہے، اس ماہ کی مادی و معنوی عظمت و جلالت کو اگر اجاگر کرنے سے انسان قاصر ہے اور اگر اس ماہ کا فضل وشرف اہل ایمان پر واضح ہوجائے اور مسلمین صحیح معرفت سے بہرہ مند ہوتے تو یقینا تمنا کرتے کہ اے کاش سال بھر ماہ رمضان رہتا جیسا کہ خود حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واضح ہے :
1- "لو یعلم العباد ما فی رمضان ؛ لتمنت ان تکون رمضان سنة” اگر بندگان خدا ماہ رمضان کی حقیقت سے واقف ہوتے ، یقینا تمنا کرتے کہ رمضان سال بھر رہے۔
2- اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لو علمتم ما فی شهررمضان لزدتم لله شکرا ؛ اگر تم ماہ رمضان کے بارے میں علم رکھتے کہ (اس ماہ میں کیا ہے) یقینا خداکا زیادہ سے زیادہ شکر اداکرتے۔
3- پھر فرمایا: شعبان شھری و شھر رمضان شهر الله ؛ یعنی ماہ شعبان میرا مہینہ ہے اور ماہ رمضان خداکا مہینہ ہے۔
4- ایک اور روایت میں فرمایا: شهر رمضان شهر الله وشهر شعبان شهری ؛ شهر المطهرو رمضان المکفر؛ ماہ رمضان ماہ خدا اور ماہ شعبان میرا مہینہ ہے ، ماہ شعبان طاہر اور پاکیزہ بناتا ہے اور ماہ رمضان گناہوں کا کفارہ ہے۔
5- ایک اور جگہ فرمایا: انما سمی رمضان ؛ لانه یرمض الذنوب؛ رمضان کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ جھاڑ دیتا ہے اور جلادیتا ہے۔
اسی طرح کی اور بھی احادیث مختلف طرق سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیہم السلام سے ماہ رمضان کے فضائل و برکات کو بیان کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں جن کو اس مختصر مقالہ میں اکھٹا نہیں کیا جاسکتا اس کی عظمت و جلالت کے لیے یہی کہہ دینا کافی ہے کہ یہی وہ مہینہ ہے کہ جس میں قرآن کریم اور دیگر کتب آسمانی کا نزول ہوئی ہیں ۔ لیلۃ القدر، جو ہزار مہینوں سے افضل ہے اس ماہ میں موجود ہے ، جس کی ابتداء فضل و رحمت اور آخر اجابت دعا و پروانہ آزادی پر ہے۔
جب ماہ رمضان کی ابتداء ہوتی ہے تو رحمت کے ابواب کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں ، شیاطین کو زندانی بنادیا جاتا ہے ۔
ایک مفصل حدیث جو کتاب ثواب الاعمال شیخ صدوق اور روضۃ الواعظین شیخ شہید ابی علی محمد بن علی نیشاپوری اور وسائل الشیعہ شیخ حر عاملی میں ملتی ہے یہاں پر یبان کی جاتی ہے ، مقالہ کے طویل ہونے کے اندیشہ کی وجہ سے ہم صرف حدیث کے ترجمہ پر اکتفا کرتےہیں جو اس طرح ہے:
ترجمہ حدیث شریف: سعید بن جبیر کہتے ہیں : میں نے ابن عباس سے سوال کیا کہ جو شخص ماہ رمضان میں روزہ رکھے اور اس کے حق کو پہچانتا ہو تو اسے کیا ثواب ملے گا؟
ابن عباس سے فرمایا: تیار ہوجا اے فرزند جبیر! تاکہ تجھے سناؤں وہ چیز جس کو تیرے کان نے نہ سنا ہو ، اور تیرے دل میں خطور نہ ہوا ہو، اور خود کو تیار کر اس چیز کے سننے کے لیے جس چیز کے بارے میں سوال کیا ہے، میں تجھے بتانے کا ارادہ رکھتا ہوں اس چیز کے بارے میں جو علم اولین وآخرین میں سے ہے۔
سعید کہتے ہیں : میں ابن عباس کے پاس سے اٹھا اور باہر چلا گیا اور اپنے آپ کو اس کے لیے آمادہ کرلیا، صبح سویرے وقت طلوع فجر ابن عباس کے پاس پہنچا ، نماز صبح ادا کی اس کی یاد دہانی کرائی جس کا وعدہ ہوا تھا، انہوں نے اپنا رخ میری طرف کیا اور فرمایا: جو میں کہہ رہا ہوں غور سے سن!
میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سناکہ آپ نے فرمایا: اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ ماہ رمضان میں تمہارے لیے کیا فائدہ ہے ، یقینا شکر الہی کثرت سے کرتے، جیسے ہی شب اول ماہ رمضان آتی ہے ، خداوند عالم امت کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے چاہے وہ گناہ مخفی و پوشیدہ کیا ہو یا علی الاعلان کیا ہو، اور تمہارے دو دو ہزار درجات بلند کرتا ہے، اور تمہارے لیے شہر بناتا ہے۔
دوسرے دن خداوندعالم ہروہ قدم جو بڑھتے ہیں اس دن ایک سال کی عبادت کا ثواب اور ثواب پیغمبری لکھتا ہےاور ایک سال کے روزے کا ثواب بھی خداوندعالم تمہارے لیے لکھتا ہے۔
تیسرے دن خداوندعالم تمہارے بدن کے ہربال کے مقابلے فردوس میں درہ بیضاء سے ایک قبہ عطا کرتا ہے کہ جس کے اوپر بارہ ہزار نورکے حجرے ہیں اور اس کے نیچے بھی بارہ ہزار حجرے ہیں اور ہر حجرے میں ہزار تخت اور ہر تخت پر ایک حور ہے۔ ہر روز تمہارے پاس ہزار فرشتے آئیں گےاور ہر فرشتے کے ساتھ ایک ہدیہ ہوگا۔
چوتھے روز خداوندعالم تمہیں عنایت کرتا ہے بہشت خلد میں ستر ہزار قصر، ہر قصر میں سترہزار حجرے اور ہر حجرے میں پچاس ہزار تخت اور ہر تخت پر ایک حور ہے۔ اس حور کے سامنے ہزار کنیز اور خدمتگار ہیں کہ جن کے مقنع و روپوش کا ایک حصہ اس دنیا اور اس کی ہر چیز سے بہتر ہے۔
پانچویں روز خداوندعالم تم کو عطا فرماتا ہے بہشت ماوہ میں ہزار ہزار شہر کہ جس کے ہر شہر میں ستر ہزار حجرے ہیں، اور ہر حجرے میں ستر ہزار دسترخوان و طعام ہیں ، ہر دسترخوان پر ستر ہزار کاسے و پیالیاں ہیں، اور ہر کاسہ میں ساٹھ ہزار قسم کے کھانے ہیں کہ جو ایک دوسرے سے باکل الگ ہیں۔
چھٹے دن خداوندعالم عطا فرماتا ہے دارالسلام میں ایک لاکھ شہر ، ہر شہر میں ایک لاکھ گھر، ہر گھر میں ایک لاکھ حجرے ، ہر حجرے میں ایک لاکھ سونے کے تخت ہیں اور ہر تخت ہزار ذراع کے برابر ہے اور ہر ایک تخت پر ایک حور ہے ہر حورکے تیس ہزار گیسو ہیں جو یاقوت اور موتی سے بنے ہوئے ہیں جس کے ہر گیسو کو ایک لاکھ کنیزیں اٹھاتی ہیں۔
ساتویں روز خداوندعالم تم کو عطا فرماتا ہے بہشت نعیم میں چالیس ہزار شہیدوں کا اجر اور چالیس ہزار صدیق کا ثواب۔
آٹھویں روز خداوندعالم تم کو عطا فرماتا ہے ساٹھ ہزار عابد کے عمل اور ساٹھ ہزار زاہد کا ثواب۔
نویں روز خداوندعالم تم عطا فرماتا ہے وہ چیزیں جو ہزارعالم کو عطا فرماتا ہے اور ہزار اعتکاف کرنے والوں کا کہ جنہوں نے مسجد میں شریعت کے مقرر ہ دستور کے مطابق خداکے لیے عمل اعتکاف انجام دیا ہواور ہزار مرابط( وہ شخص جو دشمن سے سرحدوں کی محافظت کرتاہے)کا ثواب۔
دسویں روز خداوندعالم تم کو عطا فرماتا ہے ثواب قضا اور ستر ہزار حاجات کے پورا کرنے کا ثواب۔ اور تمہارے لیے طلب مغفرت کرتے ہیں ،سورج،چاند اور ستارے اور اور ہر چوپایہ ،ہر جاندار، ہر پرندہ ، ہردرندہ، ہر سنگ و ہر ڈھیلا، اور ہر خشک و تر، دریاؤں کی مچھلیاں، درختوں کے پتے۔
گیارہویں روز خداوندعالم عنایت فرماتا ہے چارہزار حج و عمرہ کا ثواب کہ جس کا ہر حج کسی پیغمبر کے ساتھ انجام دیا گیا ہو، اور ہر عمرہ جو کسی صدیق و شہید کے ساتھ انجام دیا گیا ہو۔
بارہویں روز خداوندعالم لکھتا ہے سیات کو حسنات یعنی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے اور حسنات و نیکیوں کو کئی گناہ بڑھا دیتا ہے اور ہر حسنہ و نیکی کے بدلے ہزار ہزار حسنہ تحریر فرماتا ہے۔
تیرہویں روز خداوندعالم تمہارے لیے لکھتا ہے اہل مکہ اور مدینہ کی عبادات کی مثل اور تمہیں عطا فرماتا ہے مکہ و مدینہ کےدرمیان تمام پتھر و سنگریزوں کے برابر شفاعت کرنے کا حق۔
چودہویں دن ایسا ہے کہ جیسے تم نے ملاقات کی ہو آدم ،نوح، ابراہیم، موسی، داؤد اورسلیمان سے اور جیسے تم نے خداوندعالم کی عبادت کی ہو تمام پیغمبروں کے ساتھ دوسوسال تک۔
پندرہویں روزخداوندعالم تمہاری دنیا اور آخرت کی ہزار حاجتوں کو مستجاب فرماتا ہےاور تمہیں وہ چیزیں عطا فرماتا ہے کہ جو حضرت ایوب کا اجر ہے۔ اور حامل عر ش تمہارے لیے طلب مغرفت کرتے ہیں اور خداوندعالم تم کو روز قیامت چالیس نور عطا فرمائے گا کہ جس میں سے دس نو ر تمہارے داہنی جانب اور دس تمہاری بائیں جانب ، دس نور سامنے اور اور دس تمہارے پیچھے ہوں گے۔
سولہویں رو زعطا کرتا ہے تمہارے لیے کہ جس وقت تم قبر سے باہر آتے ہو ساٹھ زیور اوربہشتی پوشاک تاکہ تم انہیں زیب تن کرو ، اور بہشتی ناقہ و مرکب تاکہ اس پر سوار ہوجاؤ، اور تمہارے اوپر اس روز کے گرمی کے بدلے بادل کو سایہ فگن ہونے کے لیے بھیجتا ہے۔
سترہویں دن فرماتا ہے : بحق ویقین میں نے تمہیں بخش دیا ہے اور تمہارے والدین کو بھی، اور قیامت کی شدائد و سختیوں کو تم سے دور کیا۔
اور جب اٹھارہواں روز آتا ہے تو خداوندعالم امر فرماتا ہے جبرئیل و مکائیل و اسرافیل اور تمام حاملان عرش اور تمام فرشتوں کو کہ آئندہ سال تک امت محمد کے لیے طلب مغفرت کریں۔اور تم کو خداوندعالم اہل بدر کا ثواب عطا فرماتا ہے۔
اور جب انیسواں روز آتا ہے تو زمین وآسمان کے تمام ملائکہ خداوندعالم کی طرف سے تمہاری قبروں کی زیارت کے لیے اجیر ہوجاتے ہیں اور ہر فرشتے کے ساتھ ایک جام اوربہشتی ہدیہ و تحفہ رہتا ہے ۔
اور جب تمہارے ماہ رمضان کا بیسواں روز ختم ہوجائے تو خداوندعالم تمہاری طرف مبعوث کرتا ہے ستر ہزار ملائکہ تاکہ تمہیں بارگاہ الہی سے نکالے ہوئے شیطانوں سے محفوظ رکھیں، اور ہر اس دن جس روزہ رکھا ہے خداوندعالم تمہارے لیے سوسال کے روزوں کا ثواب لکھتا ہے اور تمہارے اور آتش جہنم کے درمیان خندق بناتا ہے۔ اور تم کو توریت ، زبور، انجیل اور فرقان کی تلاوت کا ثواب عطا فرماتا ہے اور تمہارے لیے ہر اس ایک بال کی تعداد میں کہ جو جبرئیل کے پرو ں میں ہیں ایک سال کی عبادت کا ثواب تحریر فرماتا ہے۔اور تسبیح عرش وکرسی کا ثواب عطا فرماتا ہے اور قرآن کریم کی ہر ایک آیت کے بدلے حور العین کے ساتھ تمہاری تزویج کرتاہے ۔
اکیسویں روز خداوندعالم تمہاری قبروں کو ہزار فرسخ وسیع فرماتا ہے تاریکی اور وحشت قبر کو دور کرتاہے ، تمہاری قبروں کو شہداء کی قبروں کے مثل بناتا ہے ، تمہاری صورتوں کو حضرت یوسف بن یعقوب کی جیسا بنادیتا ہے۔
بائیسویں روز خداوندعالم تمہاری طرف ملک الموت کو بھیجتا ہے جس طرح انبیاء علیہم السلام کی جانب بھیجتاہے ، منکر و نکیر کی وحشت کو دور کرتا ہے اور دنیا و آخرت کے عذاب کو اٹھالیتاہے ۔
تیئسویں روز آپ لوگ پیغمبروں ، صدیقین ، شہداء اور صالحین کے ساتھ پل صراط سے اترتےہیں اور اس طرح کہ جیسے تم نے میری امت کے ہر یتیم کو سیر کیا ہو اور میری ہر امت کے ہر بے لباس کو لباس پہنایا ہو۔
چوبیسویں رو ز، اس وقت تک آپ دنیا سے نہیں جاتے جب اپنی جگہ بہشت میں دیکھ نہیں لیتے اور تمہیں ہزار مریض ، ہزار غریب کا ثواب کہ جو اپنے وطن سے دور مرگئے ہوں، اور فرزندان اسماعیل میں سے ہزار غلاموں کو آزاد کرنے کا ثواب عطا فرماتا ہے۔
پچیسویں روز خداوندعالم زیر عرش تمہارے لیے ہزار سبزرنگ کے قبہ بناتا ہے کہ ہر قبہ پر نور کا خیمہ ہے اور ارشادفرماتا ہے کہ اے امت محمد ! میں تمہارا پروردگار ہوں ، تم سب میرے بندے اور کنیز ہومیرے عرش کے سایے میں میں آجاؤ، اور ان قبوں میں مقیم و مستقر ہوجاؤ،کھاؤ پیو اور لذت حاصل کرو، تم پر کسی طرح کا خوف وحزن نہیں ہے، اے امت محمد! میری عزت وجلالت کی قسم یقینا میں تمہیں بہشت کی طرف بھیجوں گا اس طرح کہ اولین و آخرین تمہیں دیکھ کرتعجب کریں ، تم میں سے ہر ایک کے سر پر نور کے ہزار تاج رکھوں گااور تم کو اس ناقہ پر سوار کروں گا کہ جو نورسے خلق ہواہے، ان کی لجام نور سے ہے اور ہر لجام میں ہزار سونے کے حلقے ہیں اور ہر حلقے پر ایک فرشتہ ہےاور ہر فرشتے کے ہاتھ میں نور کاعصا ہے یہاں تک کہ آپ بغیر حساب کے بہشت میں داخل ہوجاؤ۔
اور جب ماہ رمضان المبارک کا چھبیسواں دن ہو تو خداوندعالم تمہاری طرف نظر رحمت فرماتا ہے تمہارے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے سوائے اس خون کے جو ناحق بہایا گیا ہو، یا مال ومتاع جو ناحق حاصل کیا گیا ہواور پاک و پاکیزہ کرتا ہے تمہارے مکانوں کو ہر روز ستر غیبت و جھوٹ و بہتانوں سے۔
ستائیسواں روز ثواب میں ایسا ہے کہ جیسے کہ آپ نے مدد کی ہو کسی مرد مومن اور مومنہ کی، اور ستر ہزار بے لباسوں کو لباس پہنایا ہو، اور ہزار مرابط کی خدمت کی ہو، اور ایسا ہے کہ جیسے تم نے ہر اس کتاب کی قرائت کی ہو کہ جو خداوندعالم نے اپنے انبیاء پر نازل کی ہے۔
اٹھائیسویں دن خداوندعالم تمہارے لیے بہشت میں نور کے ایک لاکھ شہر عطا فرماتا ہے، کہ ہرایک میں ایک لاکھ چاندی کےقصر ہیں اور جنت الفردوس میں ایک لاکھ شہر اور ہر ایک شہر میں ہزار حجرے ، اور جنت جلال میں مشک کے ایک لاکھ منبر اور ہر ایک منبر کے درمیان ہزار زعفران کے حجرے ہیں ہر حجرے میں ہزار در یاقوت کے تخت اور ہر تخت پر حور العین ہے۔
جب انتیسوان دن ہوتا ہے توخداوندعالم عطا فرماتا ہے: تمہیں دس لاکھ محلےعطا کرتاہوں کہ ہر ایک محلہ کے بیچ میں سفید گنبد ہےہر قبہ میں سفید کافور کا تخت ہے اس تخت پر سندس سبز کے ہزار فرش ہیں، اور ہر فرش پر حور العین ہے کہ اس حور کوستر ہزار بہشتی زیور اور پوشاک پہنائی گئی ہیں اس حور کے سر پر اسی ہزار گیسوہیں اور ہر گیسو موتی و یاقوت سے مزین ہیں۔
جب تیس روز تمام ہوجاتے ہیں خداوندعالم تمہارے لیے تحریر فرماتا ہے ہر دن کی تعداد میں دو ہزار روز کا ثواب اور تمہارے درجات کو گیا ہ نیل(شاید مراد یہ ہو کہ اگردریائے نیل کے پانی کو صحرا میں ڈالیں اور وہاں گیا ہ و گھاس اگے اس ) کی تعداد کے برابر بلند کرتاہے ، اور خداوندعالم تمہارے لیے آتش جہنم سے برائت و بیزاری لکھتا ہے ، پل صراط سے عبور اور عذاب سے امان نامہ ، اور بہشت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتاہے جسے صرف روز قیامت کھولا جائے گا، لہذا اسے امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، کےروزہ دار مردوں اور عورتوں کے لیے کھولاجائے گا،اسوقت رضوان بہشت کا خزانہ دار آواز دے گا: اے امت محمد! ریان کی طرف دوڑیے ، میری امت اس دروازے سے بہشت میں داخل ہوں گےاور جو شخص ماہ رمضان میں بخشا نہ گیا تو پھر وہ کس ماہ میں بخشا جائے گا، اور حول و قوت نہیں ہے سوائے ذات مقدس خدائے تبارک و تعالی کے۔
نتیجہ
ماہ رمضان اور روزے کے فضائل بہت زیادہ ہیں کہ جس کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے ہر ایک روزہ ایک خصوصی فضیلت کا حامل ہے اسی طرح پھر اس کے دنیوی فائدے بھی ہیں کہ جس کے لیے مستقل کتاب کی ضرورت ہے لہذا یہیں پر مقالہ ہذا کو ختم کرتے ہوئے دعا گو ہیں کہ خدوندعالم ہم کو بھی روزے داروں میں شمار فرماتے ہوئے اس کے دنیوی اور اخری ، مادی و معنوی اجر و ثواب عنایت فرمائے۔ آمین۔

حواله جات:
خطبہ شعبانیہ۔
نہج البلاغہ، حکمت 410۔
سورہ انفال آیت 29۔
سورہ طلاق آیت 2
– بحارالانوار،ج 96، ص 347 فصل 13 فضائل الاشھر الثلاثہ۔ 6ش
– ثواب الاعمال، ص 903۔روضۃالواعظین، ص 375۔
– تحف العقول، ص 13۔
– کنزالعمال،ج8،ص466۔
– کنزالعمال،ج8،ص466۔
– ثواب الاعمال ، شیخ صدوق، ص 38۔ روضۃ الواعطین، شہید ابو علی بن محمد بن علی الفتال نیشاپوری، ص288۔ وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، ص96۔

متعلقہ مضامین

Back to top button