سعودی عرب

سعودی شہزادے کے خطرناک عزائم

حیدر قلی
اسلامی عسکری اتحاد کے نام پر فرقہ وارانہ اتحاد اور اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے سعودی عرب کو معتدل سنی ملک کی سند دی گئی تھی کہ جس کے ساتھ غاصب صیہونی وجود اسرائیل چل سکتا ہے تو اسی وقت عالم اسلام اور دنیائے عرب کے اہم دانشوروں ،صحافیوں اور تجزیہ نگاروں نے خبردار کیا تھا کہ ان دو منفرد قسم کے عناوین کے پچھے خطرناک قسم کے سامراجی ارادے پوشیدہ ہیں ۔
ذمہ دارافراد مسلسل یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ مشرق وسطی سمیت اسلامی ملکوں میں موجود مسلکی،قومی و علاقائی رنگوں میں تصادم کے خطرات منڈلارہے ہیں ۔
سعودی ناتجربہ شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے حال ہی میں نشر ہونے والے ایک انٹریویا تشہیراتی پروگرام میں کھلے لفظوں یہ کہنا کہ وہ مشرق وسطی میں موجود بحران کو ’’ایران کے اندر لے کر جائے گا ‘‘درحقیقت ان دو عناوین کی تشریح اور ’’مسلکی بنیادوں پر قائم عسکری اتحاد‘‘ اور ’’اسرائیل کی جانب سے اعتدال پسندی کے میڈل‘‘ کے پچھے پوشیدہ عزائم ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ ایران اور عرب بادشاہوں کا مسئلہ در اصل عرب و عجم کی تاریخی و روائتی رنجش ہے لیکن اگر بغور عرب بادشاہوں کی پالیسی کو دیکھا جائے تو اس بات پر کسی بھی قسم کی صداقت نظر نہیں آتی بلکہ اصل مسائل کچھ یوں نظر آتے ہیں
الف:عرب بادشاہتیں دین کی ہر اس تشریح کی مخالف ہیں جو سیاسی پہلو رکھتی ہو کیونکہ وہ اسے اپنے اقتدار کے لئے خطرناک سمجھتی ہیں ،مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کا خاتمہ جو کہ ’’دینی جمہوریت‘‘کے تصور سے جنم لینے والی ایک جماعت کی حکومت کا نمونہ تھا اور اسی طرح پورے عرب ممالک میں اخوان المسلمون پر پابندی اور ان کی قیادت کاپچھا کرنا انہی وجوہات کے سبب ہے
ب:ایران فلسطینی کاز میں ہروال کردار رکھنے کے علاوہ اسرائیل کے مقابل موجود مزاحمت کو ایک مضبوط
بلاک میں بدلنے میں کامیا ب ہوا ،غزہ میں اخوان المسلمون سے جنم لینی والی مزاحمتی جماعت حماس ہو یا پھر لبنان پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں جنم لینے والی جماعت حزب اللہ ہو ایران دونوں کا برابر کھلے لفظوں حامی اور مددگار بھی ہے ۔
ج:سعودی شہزادہ محمد بن سلمان جوکہ ٹرمپ کے آنے تک امریکیوں کے نزدیک اگلے بادشاہ کے طور پر آپشن نہیں تھا اور امریکی اپنے تربیت یافتہ محمد بن نایف کو ہی مسند شاہی پر دیکھنا چاہتے تھے لیکن محمدبن سلمان کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتری سمیت خود سعودی معاشرے کو سیکولرزم کی جانب گامزن کرنے اقدامات اور ٹرمپ انتظامیہ کو دیے جانے والے ایک کھرب سے زائد مالی فوائد ۔۔نے ٹرمپ انتظامیہ کو قائل کردیا کہ وہ بن نایف کہ جگہ بن سلمان کے آپشن کو چنیں ۔
د:ہم یہاں ایران کی وکالت کرنا نہیں چاہتے لیکن بن سلمان نے یہ کہہ کر کہ’’وہ امام مہدی کے ظہور کے لئے ماحول کو سازگار کرنا چاہتے ہیں لہذا ہمارے اور ان کے درمیان کوئی مشترکہ نکات نہیں ہوسکتےاور ہم اس جنگ کو ایران کے اندر لے کر جاینگے ‘‘ایک طرف جہاں بے دین نظریات کی حامل قوتوں کوخوش کرنے کی کوشش کی ہے وہیں پر پوری امت مسلمہ کے ایک مسلم اور واضح عقیدے کو بھی چلینج کیا ہے
کیونکہ امام مہدی کی آمد کا عقیدہ پوری امت مسلمہ کا ہے کہ جنہوں نے کعبے سے اپنے عالمی انقلاب کا آغاز کرنا ہے کہ جس کے مد مقابل ہروہ قوت کھڑی ہوگی جو دنیا پر اپنی حکمرانی چاہتی ہے اور ان میں سب سے بڑی شیطانی قوت کہ جس نے دین کا رنگ چڑھایا ہوگا سفیانی طاقت ہوگی ۔
چند سوال ایسے ہیں کہ جن کی جانب توجہ ضروری ہے
کیا سعودی عرب آنے والے دنوں میں ایران یا شیعہ مسلک کیخلاف محاذ آرائی کو مزید ہوادینے کا پلان رکھتا ہے ؟جیساکہ ایران کا کہتا آیا ہے کہ ان کے ہاں دہشتگردی میں ملوث دہشتگردو گروہ کی وابستگی عرب ممالک سے ہے ۔
گرچہ اکثر دہشتگردگروہ کی نظریاتی و عقیدتی وابستگی کا سعودی عرب کے دینی نظر یات سے ہونے میں تو کسی کو کوئی شک نہیں ۔
کیا ایران کے سرحدی علاقوں میں ہونے والی دہشتگردی کا تعلق اس پلان کا حصہ ہے ؟
کیا ایران کیخلاف اس کے ہمسائیہ ممالک کی زمین استعمال ہوگی جیسے افغانستان ،آزربائیجان ،پاکستان ۔۔تو ایسی صورت میں کیا ایران کے ہمسائیہ ممالک متاثر نہیں ہونگے ؟یا پھر سے اسی کی دہائی کی طرح افغانستان اور پاکستان ایک ایسی خطرناک پراکسی وار کا حصہ بن سکتے ہیں جو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگی ہوئی گی خاص کر کہ پاکستان سعودی فرقہ وارانہ عسکری اتحاد کا حصہ بھی بن چکا ہے اور پانچ ہزار اضافی افواج سابق سپہ سالار کی قیادت میں سعودی عرب پہنچی ہوئی ہے ۔۔۔
نہیں نہیں کرتے کرتے عملی طور پر ہم اس وقت پاکستان کو اس خطرناک پلان کاحصہ بنتے دیکھ رہے ہیں
ہمارے ملکی ذمہ داروں کا یہ کہنا کہ’’ ہم مصالحتی کردار نبھاینگے ‘‘انتہائی غیر حقیقی بات لگتی ہے کیونکہ سعودی عرب نے ہم سے کرایے کی فوج لی ہے نہ کی اپنی پالیسی ہمارے ہاتھوں میں تھامائی ہے ،ہماری فوج اور کمانڈر نے سعودی کمانڈ میں کام کرنا ہے نہ کہ سعودی کمانڈ ان کے ہمارے ہاتھوں میں ہوگی
سعودی عرب میں کہ جہاں فیصلہ ایک شخص ’’بادشاہ‘‘کرتا ہے اور اس کے فیصلے کی مخالفت جرم شمار ہوتی ہے وہاں تنخواہ دار فوج اور اس کے کمانڈر کی بات کو کون اہمیت دے گا ۔۔؟
دنیا بھر کے ہشیار دانشور اور تجزیہ نگار خبردار کررہے ہیں کہ مشرق وسطی کی آگ پھیلنے جارہی ہے ایسے میں اپنے گھر کو بچانے کے بجائے اس آگ کا اندھن بنا کسی بھی طور دانشمندی نہیں ہے لیکن اب چونکہ ہم اس آگ کا حصہ بن چکے ہیں تو ایسے ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں کہ جتنا جلدی ممکن ہو خود کو اس آگ سے باہر نکالیں اور دور کریں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button