مقالہ جات

لشکر حسینی کا علمبردار قمر بنی ہاشم (ع)

ڈاکٹر سکندر عباس زیدی

شدید پیاس کے عالم میں جانے کس ادا سے علم اٹھایا کہ علم کا نام سنتے ہی بے ساختہ غازی عباس علیہ اسلا م کا نام گرامی ذہن میں آتا ہے- غازی، جری، شیر ،پیکر ایثار ، باوفا، سقہ سکینہ ، حسین علیہ اسلام کی ہمت ، لشکر حسینی کا علمبردار،بچوں کی آس ، زینب علیہ اسلام کا فخر، شہزادی کونین کی دعا، ام البنین کا لخت جگر، سقاۓ حرم، قمر بنی ہاشم ، ابو قریہ ،عباس علمدار علیہ اسلام ہیں- ‎ -‎قرآن مجید کے سورۂ مریم میں جناب زکریا (ع)کی دعا اور تمنا کا تذکرہ ملتا ہے جس سے جناب یحییٰ پیدا ہوئے،حضرت فاطمہ بنت اسد کی دعا اور تمنا سے حضرت علی (ع) نے دنیا کو زینت بخشی اور حضرت علی (ع) کی دعا اور تمنا سے قمر بنی ہاشم ،علمدار کربلا، سقائے حرم، عبد صالح حضرت عباس (ع) نے دنیا کو رونق بخشی،حضرت عباس (ع) کی تاریخ ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن سن ولادت میں کوئی اختلاف نہیں ہے تمام محققین نے حضرت عباس کی ولادت سن ۶۲ ہجری میں بیان کی ہے،ہندوستانی علمائ نے حضرت عباس (ع) کی تاریخ ولادت میں اختلاف کیا ہے کسی نے ۹۱ جمادی لثانی،کسی نے ۸۱/ رجب، کسی نے۶۲/جمادی الثانی بیان کی ہے لیکن اہل ایران۴ شعبان پر متفق ہیں-

ایمان ،شجاعت اور وفا کی بلندیوں پر جب نگاہ کرتے ہیں تو وہاں ایک شخص نظر آتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی جو فضل و کمال میں ، قوت اور جلالت میں اپنی مثال آپ ہے۔جو اخلاص ،استحکام ، ثابت قدمی اور استقلال میں نمونہ ہے اور ہر اچھی صفت جو انسان کی بزرگی کو عروج عطا کرتی ہے اس شخص میں دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک لشکر کا علمبر دار نہیں بلکہ مکتب شہادت کا سپہ سالار ہے جس نے تمام دنیا کی نسل جوان کو درس اطاعت،وفاداری ،جانثاری اور فداکاری دیا ہے۔ اور وہ حیدر کرار کا لخت جگر عباس ہے۔ امام و معصوم باپ کے زیر تربیت بچپن کی منزلیں طے کیں- سید الشباب الجنتہ سید المظلوم، علی و بتول کے لعل ، ابن جری و غیر فرار ، حق وصداقت کے علمبردار ۔ نوک نیزہ پر قرآن کی تلاوت کرنے والے رشید ۔ ذکی طیب ، سید الشہداء امام حسین علیہ اسلام کے ساتھہ پروان چڑہےاور اسی تربیت کا اثر تھا کہ آپ کمسنی میں ہی معرفت کی اعلی منزلوں تک پہنچ گی – ‎آپکی والدہ محترمہ ام البنین تھیں وہ ایک بہت بہادر قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں-‎ایک عجب جوش و جذبے سے سقاۓ حرم کی پرورش ہوئ آپ جنگ صفین میں بھی موجود تھے، مگر آپ کو جنگ کی اجازت نہیں ملی تھی ۔ آپکی فوجی تربیت کربلا کے لیے کی گئی تھی ۔آپ معرکہ کربلا کی امانت تھے۔

ضو وہ شیشے میں کہاں جو الماس میں ہے

سارے عالم کی وفا حضرت عباس میں ہے

حضرت ابوالفضل عباس کا نام ومقام نصرت و حمایت امام میں چند خصوصیات کی وجہ سے نمایاں تھا آپ اپنے حسن وجمال اور طویل القامتی کی وجہ سے القمر بنی ہاشم کہلاتے تھے۔ ہمت جرات دلیری کی وجہ سے آپ علمدار حسینی تھے۔ تاریخ میں سقائےسکینہ سے قبل بہت سارے علمدار تھے جنہوں نے علم اٹھایا ۔ وفاداری کے بغیر نہ شجاعت کی کوئی حیثیت ہے ،نہ ہی شجاعت کے بغیر وفاداری کاکوئی خاص فائدہ ہے۔راہ حق میں فرض شناس،وفادار اور ایک بہادر انسان کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔میدان جنگ میں ایسی بہادری کی ضرورت ہوتی ہے جس میں وفاکا رنگ پایا جاتا ہو۔یہ صفت کامل طور پر حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے فرزند میں موجود تھی۔آپ ذاتی شجاعت اور موروثی شہامت کے حامل تھے۔عباس کے بابا علی نے شجاعت کو ایک نیا مفہوم عطا کیااور خود عباس نے بھی اسی کو اپنے لئے نمونۂ عمل قرار دیا۔

جب اطفال اور بچے پیاس کى وجه سے ناله و زارى کررہے تهے، تب امام حسین (ع) نے عباس (ع) کو پانى لانے کے لئے دریائے فرات کى طرف روانہ کیا، حضرت عباس (ع) نے دریائے فرات کا محاصره کئے ہوئے چار ہزار یزیدى فوجیوں سے مخاطب ہوکر یہ رجز خوانى کى:

اقاتل القوم بقلب مهتدى اذب عن سبط البنى احمد – – –

"میں اس کافر قوم کے ساتھ، ہدایت یافته قلب کے ساتھ جنگ کررہا ہوں اور پیغمبر اکرم (ص) کے فرزند کى حریم کا دفاع کررہا ہوں ! تیرو تلوار سے ان کےسرو‏ں پر وار کررہا ہوں تاکه میرے سرور ، حسین (ع) سے جنگ نه کریں! میں عباس بن على مرتضى ہوں، جن کى همیشہ تایئد کى جاتی تهى -حضرت عباس (ع) سپاہیوں پر دایئں اور بایئں سے حمله کرکے ان کے چهکے چهڑا رہے تهے اور اس طرح بہت سے نامردوں کو تہ تیغ کرتےہوئے یہ رجز خوانى کررہے تهے :

لا أَرهبُ الموتَ إذا الموتُ زَفا

حتى أوارى فى المصالیت لقا

إِنّى اَنَا العباس اغدُو بالسِّقاء

ولا اَهابُ الموتَ یومَ المُلْتَقى

” میں موت کى طرف سے دعوت کے وقت نہیں ڈرتا ہوں، یہاں تک که میرا بدن بهى بہادروں اور دلیر مردوں کے ساتھ خاک پر گرے، میں عباس ہوں اور میرا کام پیاسوں کى پیاس بجهانا ہے اور دشمن سےلڑتے وقت موت سے نہیں ڈرتا ہوں –”

جب حضرت عباس (ع) نے نهر فرات میں قدم رکها، تو پانى کو چلو میں بهر لیا تاکه اسے پى لیں، لیکن اس چلو میں لئے ہوئے پانى کو پینے کے بجائے دریا میں پهینک کر اپنى وفادارى کا مظاہره کیا:

یا نَفسُ مِن بعدِ الحُسین هُونى

مِن بعده لاکُنتِ اِنْ تَکونى…

هذَا الحسین وارِدُ المَنونِ

و تَشْرَ بینَ بارِدَ المعین

” اے نفس ! حسین (ع) کے بعد خوار ہو، ایسا نہ ہو کہ ان کے بعد زنده رہوگے، حسین (ع) موت کا شربت پى لیں گے اور تم سرد پانى پى لوگے؟ یہ کردار مجھ سے بعید ہے؟ یه میرا دین نهیں هے اور نہ بهادر انسان کے کردار کا جزء ہے –”

جب حضرت عباس (ع) پر نیزه اور تیروں کى بارش هوئى اور زید بن ورقانے ان پر حملہ کیا اور حضرت (ع) کے دایئں بازو کو قلم کیا تو اس وقت حضرت (ع) نے تلوار کو بایئں هاتھ میں اٹها کر یوں رجز خوانى کى:

واللّه إِن قَطَعْتُمُوا یَمِینى

إِنِّى اُحامى اَبَدا عَن دینى…

وَ عن امامِ صادِقِ الیَقینِ

نَجْلِ النَّبِىِّ الطاهِرِ الأمین

” خدا کى قسم اگر میرے بایئں بازو کو بهى قلم کریں گے، تب بھی بیشک جہاد کو جارى رکهتے ہوئے اپنے دین کى حمایت کروں گا اور سچے اور باتقوى امام اور پیغمبر (ص) کے فرزند کى حمایت کرتا رہوں گا-

اپنے بہادر اور جانثار بھایئوں کے بعد حضرت عباس میدان جنگ میں جانے کے لیے تشریف لاۓ اس وقت امام مظلوم کے چہرے پر افسردگی چھا گی اور آپ نے فرمایا بھائی ،، تم ہمارے لشکر کے علم بردار ھو، اور تم بھی ہم کو چھوڑے جارہے ہو۔ غازی نے ایک طرف گرم ریت پر پائمال لاشوں کی طرف اشارہ کیا مولا جس لشکر کا میں علمبردار تھا وہ تو زمیں کربلا کی گرم ریت پر پائمال ہوگیا ہے مجھہ سے سکینہ اور چھوٹے بچوں کی پیاس نہین دیکھی جاتی ۔ معصوم سکینہ اپنی چھوٹی سی خشک مشکیزہ اٹھا کر لائ اور چچا کے گلے میں ڈال دی ۔بی بی سکینہ نے سارے پیاسوں بچوں کو جمع کیا اور کہا اپنے اپنے کوزے لے آؤ میرے عمو اب پانی لینے جاتےہیں ۔ تین دن کے بھوکے پیاسے بچے اپنے اپنے کوزے اٹھا کر در خیمہ پر بیٹھ گئے ۔‎ادھر علم لیکر لشکر حسینی کا علمبردار چلا ۔ امام نے حکم دیا تھا ،عباس جنگ نہیں کرنی ۔ حکم امام نے غازی کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں صرف ایک تلوار لی ، حضرت عباس کو دیکھتے ھی لشکر یذید میں ہیبت پھیل گی –

جب بھی آلودہ فضاؤں میں کھلے اُن کا علم

پاک کرتا ہے فضا حضرتِ عباس کا نام

یوں لگا گھر میں میرے چاند اُتر آیا ہے

میں جو دُہراتا رہا حضرتِ عباس کا نام

تھی کڑی دھوپ مجھ پہ گھنا سایا تھا

بس میرے ذہین میں تھا حضرتِ عباس کا نام

مشکلیں آ کے میرے پاس پڑی مشکل میں

اُن کوبھی لینا پڑا حضرتِ عباس کا نام

نام عباس کا عباس نہیں ہو تا اگر

بلقین ہوتا وفا حضرتِ عباس کا نام

‎حضرت عباس باوفا نے اپنی تلوار کی طاقت سےیزیدی فوجوں میں انتشار پیدا کیا اور فرات کی جانب پیش قدمی کی ایک طرف ۔ ہزاروں کی تعداد میں تازہ دم لشکر ایک طرف تین دن کا بھوکا پیاسہ 32 برس کا جوان جس کو امام نے جنگ کی اجازت نہیں دی ہے۔ عباس باوفا نے اسد اللہی طاقت کا مظاہرہ کیا فوج بھاگ گی-‎غازی نے فرات پر قبضہ کیا مشکیزہ بھرا ، ایک نظر خیام حسینی کی طرف کی سکینہ کی علی اصغر کی پیاس یاد آئی پانی چلو میں لیا اور پھر پھینک دیا ۔مشک بھر کر کے گھوڑے پر سوارہوۓ آگے بڑھنے لگے ۔ لشکر یذیذ کو شکت کا یقین ہوگیا -چنانچہ کمیں گاہ سے تیروں کی بارش ہونے لگی پہلے دایاں ہاتھہ قلم ‎کیا گیا پھر بایاں ہاتھہ آپنے دانتوں سے مشک پکڑ لی – آپ ّپھر بھی بہادری سے مشک کی حفاظت کرتے ہوے تیروں کی بوچھار میں آگے بڑھتے گے یہاں تک کے ایک تیر مشک سکینہ پر لگا اور سارا پانی بہہ گیا- غازی کے جسم میں اس قدر تیر ونیزے تھے کہ اب گھوڑے پر ٹکنا مشکل ہوگیا تھا۔ کوئی بھی سوار جب گھوڑے سے زین سے زمین پر آتا ہے تو اپنے دونوں ہاتھوں کا سہارا لیتا ہے ہاۓ میں غازی کی اس مصبیت کو کیسے بیان کروں حسین کا شیر زمین پر کیسے آیا ۔ آنکھوں میں تیر اور لہو دونوں ہاتھہ بریدہ سر پر گزر گراں اور سکینہ سے شرمندگی .‎امام سے کہا مولا میری لاش خمیہ میں مت لے جایئگا میں سکینہ سے شرمندہ ہوں امام سے فرمایا کہ آقا میں نے آنکھیں کھول کر سب سے پہلے آپکی زیارت کی تھی اب دنیا سے جاتے ہوے بھی آپکی زیارت کرنا چاھتاہوں-‎ہاۓ بے بسی کہ ایک آنکھہ میں خون بھرا ہے اور دوسری میں تیر پیوست ہے۔ ‎امام اعلی مقام نے فرمایا ، اے میرے باوفا بھائی ساری زندگی ھم کو آقا کہہ کر پکارا ہے ایک بار بھائی کہہ دو۔ حضرت عباس بھی ان اولیاء الٰہی میں سے ایک ہیں جو ہر سالک الی اللہ کے لیے مشعل فروزاں ہیں اور ہر تشنہ ہدایت کے لیے ہادی برحق ہیں وہ نہ صرف شجاعت اور جنگ کے میدان میں نمونہ اور سرمشق ہیں۔ بلکہ ایمان اور اطاعت حق کی منزل میں، عبادت اور شب زندہ داری کے میدان میں اور علم اور معرفت کے مقام پر بھی انسان کامل ہیں۔ ان کا سر کاٹ کر نیزہ پر لگایا گیا اور جسمِ مبارک کو گھوڑوں کے سموں سے پامال کیا گیا۔ ان کا روضہ اقدس عراق کے شہر کربلا میں ہے جہاں پہلے ان کا جسم دفن کیا گیا اور بعد میں شام سے واپس لا کر ان کا سر دفنایا گیا۔ دریائے فرات جو ان کے روضے سے کچھ فاصلے پر تھا اب ان کی قبر مبارک کے اردگرد چکر لگاتا ہے۔

غازی نے بڑھ کے نہر پہ قبضہ جما لیا
پانی نے انکے قدموں پہ خود کو گرا لیا
مشکِ سکینہ دوش پہ عباس کے تھی یوں
جیسے علی نے ہاتھ میں خیبر اٹھا لیا
صفدر ھمٰدانی

عباس اولاد ائمہ میں موجودفقہاء اور دین کی شناخت رکھنے والوں میں سے ایک تھے۔آپ عادل،باتقویٰ،موثق و مطہر تھے۔”مرحوم قاینی فرماتے ہیں:”عباس فقہائے اہلبیت کے اکابرین اور فضلاء میں سے ایک تھے،بلکہ آپ ایسے عالم تھے جس نے کسی غیر کے سامنے زانو ئے ادب تہہ نہ کئے تھے۔”

حضرت عباس کے عظیم افتخارات میں ایک یہ ہے کہ آپ اپنی عمر میں ہمیشہ امامت و ولایت اور خاص طور پر امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں سرگرم رہے۔حضرت ابوالفضل امام حسین علیہ السلام کی بنسبت وہی مقام رکھتے تھے جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو پیغمبر کی بنسبت حاصل تھا۔

ایک دانشمند نے کچھ اس طرح سے باپ اور بیٹے کے درمیان موازنہ کیا ہے:

”عباس نے اپنے پدر کی طرح بہت سے میدانوں میں شجاعت وجوانمردی دکھائی۔عباس اُسی طرح حسین کے پشت پناہ تھے جیسے علی پیغمبر کے۔عباس نے میدان کربلا میں صبر و استقامت ،شجاعت،قوت بازو،ارادہ و ایمان…کا اسی طرح مظاہرہ کیا جس طرح علی میدان جنگ میںکیا کرتے تھے۔جس طرح سے علی روٹی اور خرما کی بوریوں کو اپنے کاندھوں پر لاد کر یتیموں اور مسکینوں کے لئے لے جاتے اسی طرح عباس بھی اپنے بھائی کے ہمراہ اور انکے کہنے پر مدینہ کے بہت سے فقراء کا پیٹ بھرتے۔جس طرح سے علی دربار نبوی(ص) کے باب الحوائج تھے اور در نبی پر آنے والا ہر شخص پہلے علی کو پکارتا اسی طرح عباس دربار حسینی کے باب الحوائج تھے۔اس طرح کہ کوئی محتاج اگر در حسین کا رخ کرتا تو پہلے عباس کو آواز دیتا۔اگرعلی نے شب ہجرت بستر نبی پر لیٹ کر پیغمبر (ص) کی راہ میں فداکاری کی تو عباس نے بھی اطفال حسینی کے لئے پانی لانے کی خاطر فداکاری کی۔علی نے رکاب پیغمبر (ص) میں شمشیر چلائی تو عباس نے رکاب حسین میں رزمی جوہر دکھائے۔جس طرح علی میدان جنگ میں تنہا دشمن کے مقابلہ پر جاتے اسی طرح عباس بھی ایک شب کی مہلت لینے کے لئے تنہا خیام عدو کی جانب گئے۔حضرت عباس (ع) کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ آپ نافذ البصیرہ اور گہری نظر رکھتے تھے اور معاشرے کے تمام سیاسی حالات اور کفر ونفاق کے تمام مکرو حیلے سے بخوبی واقف و آگاہ تھے آپ صرف ایک بڑے بہادر و جانباز اور شجاع علمبردار ہی نہ تھے بلکہ آّپ کی شخصیت فقاہت و قداست ، عبادت وبصیرت ، دوراندیشی، سادگی اور زہد وتقوی سے معمور تھی اور اسی بصیرت و عمیق نظر کا نتیجہ تھاکہ آپ نے امام وقت سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی حمایت میں قیام کیا اور شرافت و کرامت کے اعلی مقام پر فائز ہوئے اور صفحہ تاریخ پرہمیشہ کے اپنے نقوش چھوڑ دیئے۔

سیرت ِ حیدر ،محمد کی زباں عباس ہیں
داستاں در داستاں در داستاں عباس ہیں
پڑھ چکے ناد علی اپنے پروں پر جبرئیل
اُس جگہ جانے سے پہلے جس جگہ عباس ہیں
ہے وہ منزل آشنا وہ واقف راہ علوم
جس کے راہبر ،جس کے میرکارواں عباس ہیں
ہیں حسین ابن علی مہر منور بالیقین
عرش پر رہ کر یہاں بھی کہکشاں عباس ہیں
زیست ،عزت ،کربلا ،حق، نہر مشکیزہ علم
کشتی دینِ نبی کے پاسباں عباس ہیں
باپ کے عزم و عمل کا ھیں نمونہ دھر میں
عظمت و ھمت کا بحر بے کراں عباس ہیں
ہیں حسین ابن علی فخر بنی فخر رسل
اختتام ِعزو شانِ مرسلاں عباس ہیں
اوج دنیا کا سمائے کیا نگاہوں میں میری
کعبہ دل میں تو شاھیں کے نہاں عباس ہیں

بشکریہ : http://www.irannovin.info/article_1296_0.html

متعلقہ مضامین

Back to top button