سعودی عرب

اس جنگ نے تو کہیں کا نہیں چھوڑا

شیعت نیوز اپیشل رپورٹ ؛یہ دوسال پہلے کی بات ہے کہ جب سعودی عرب نے یمن میں عوامی احتجاج کے بعدمستعفی ہونے والے صدرمنصور ہادی کی حمایت لشکر کشی کرنے کا سوچ لیا تو اس وقت امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے پینٹاگون کے عسکری ماہرین کے حوالےسے سعودی عرب کو مشورہ دیا تھا کہ وہ یمن میں نہ کودے
لیکن سعودی عرب کا کہنا تھا بس زیادہ سے زیادہ تین ماہ لگ سکتے ہیں اور پھر مسئلہ حل ہوگا ۔
سعودی عرب کو یمن میں کودنے سے روکنے والے اور بھی بہت سے تجربہ کار افراد تھے لیکن جوان اور ناتجربہ کار سعودی وزیردفاع اور شہزادے بن سلمان کی بچگانہ حرکت کے آگے کسی کی نہیں چلی
آج دوسال ہونے کو آئے ہیں کہ بیچارے سعودی دفاعی مشیر اور اتحادی افواج کے سربراہ جنرل عسیری کو مسلسل خفت اٹھانی پڑ رہی ہے جو بار بار مورال بڑھانے کے لئے ایسے بیانات دیتے ہیں کہ بعد میں فورا صفائیاں پیش کرنی پڑتی ہیں ۔
البتہ سعودی عرب نے مصر کے حوالے سے ہی جھوٹ نہیں بولا اس قبل بھی یمن جنگ کے آغاز میں بھی ’’حرمین شریفین ‘‘کے دفاع کے نام سے پاکستان جیسے انتہائی روائتی معاشرے سے کرایے کے ٹٹو حاصل کرنے کی بھی کوشش کی تھی ،یہاں تک کہ دفاع حرمین کے نام سے فورا مصنوعی تحریکوں کا بھی آغاز ہواتھا ۔
تازہ ترین بیان انہوں نے مصرکے بارے میں دیا کہ’’ مصر نے دوسال قبل یمن جنگ میں زمینی کاروائی کے لئے چالیس افواج بھیجنے کی پیش کش کی تھی ‘‘
ان کے اس بیان کے چوبیس گھنٹوں میں سے بھی کم وقت میں مصر نے تردید کردی اور کہا کہ جس چالیس ہزار فوج کی وہ بات کررہا ہے اس کا یمن جنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا ،مصر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب مصر اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری ہونے جارہی ہے اس قسم کےمن گھڑت بیانات کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے ۔
اس سلسلے میں معروف عرب تجزیہ نگار عبدالباری عطوان کا کہنا ہے کہ ’’سعودی عرب اور مصر کے درمیان اختلافات کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب دوسال مصر نے یمن کی جنگ میں کودنے سے انکار کردیا تھا جبکہ سعودی عرب اخوان المسلمین کی حکومت کے خاتمے سے اب تک مصر کو تیس ارب ڈالرامداد دے چکا ہے
بات صرف مصر کی نہیں بلکہ اس بردار کشی میں سلطنت عمان اور اردن نے بھی اپنی افواج بھیجنے سے انکار کردیا ۔
مصر ی عسکری ادارے کا کہنا ہے کہ مصری فوج کو ملک سے باہر کسی مہم جوئی میں بھیجنا ایک ریڈ لائن کو عبور کرنے کے برابر ہے ،مصر کو یاد ہے کہ ساٹھ کی دہائی میںیمن میں مصرکے قریب بیس ہزار فوجی مارے گئے تھے ۔
سعودی عرب زیادہ سے زیادہ ممالک اور قوتوں کو اپنا حامی بتاکرنفسیاتی آگسیجن فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری جانب یمن جنگ کے جرائم اور برادر کشی کے الزام میں دوسروں کی شراکت سے اپنے اپر موجود دبا وکو کم کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے ۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یمن جنگ اب سعودی عرب کے برداشت سے باہر ہوتی جارہی ہے اور دوسال سے بدترین بمباری کے باوجود کسی بھی ہدف تک عدم رسائی نے سعودی عرب کو مایوسی اور جھنجلاہٹ کا شکار کردیا ہے ۔
دلچسب بات یہ ہے کہ عرب ممالک سعودی عرب کی بردار کشی میں شریک ہونے کے لئے تیار نہیں لیکن ہمارے ملک میں یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ سعودی عرب کی بردارکشی اور فرقہ وارنہ عسکری اتحاد میں شرکت کی جائے

متعلقہ مضامین

Back to top button