یمن

یمن میں سعودی اتحاد فوجی آپس میں الجھ پڑے

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے کرائے کے فوجیوں نے جمعے سے اب تک عدن کے ہوائی اڈے کے قریب کئی بار ایک دوسرے پر حملے کیے ہیں۔
جھڑپوں کے نتیجے میں عدن کے ہوائی اڈے کو بند اور پروازوں کو منسوخ کردیا گیا ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے کرائے کے فوجیوں کے درمیان جھڑپیں اس قدر شدید ہیں کہ دونوں ملکوں کے جنگی طیاروں نے بھی ایک دوسرے کے ٹھکانوں پربمباری کی ہے۔
کہا جارہا ہے کہ یہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب یمن کے مفرور اور مستعفی صدر منصور ہادی نے عدن کے ہوائی اڈاے کا انتظام متحدہ عرب امارات کے کرائے کے فوجیوں سے لیکر سعودی عرب کے کرائے کے فوجیوں کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔
سعودی عرب نے مزید کمک عدن روانہ کی ہے اور متحدہ عرب امارات کے کرائے کے فوجیوں پر فضائی حملے بھی کیے ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ منصورہادی متحدہ عرب امارت کے اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ سعودی عرب کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ پورا کیا جاسکے۔
دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب کے لڑاکا طیاروں نے ایک بار پھر یمنی عوام کے خلاف کلسٹر بموں کا استعمال کیا ہے جن کا استعمال عالمی سطح پر ممنوع ہے۔
سعودی عرب کی بمباری میں صوبہ الحدید میں رہائشی مکانات کوزبردست نقصان پہنچا ہے۔
ایک اور اطلاع کے مطابق سعودی عرب کے لڑاکا طیاروں نے جنوبی یمن میں اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے سے وابستہ مراکز پر بھی بمباری کی ہے جس کے نتیجے میں کم سے کم چھے افراد کے مارے جانے کی خبر ہے۔
سعودی جارحیت کے جواب میں یمن کی فوج اور عوامی رضاکار فورس کے جوانوں نے المخا کی بندرگاہ کے علاقے میں، متحدہ عرب امارات، سوڈان اور سعودی عرب کے کرائے کے فوجیوں کے ٹھکانوں کو میزائل سے نشانہ بنایا ہے۔ اس کارروائی میں متحدہ عرب کا ایک فوجی کمانڈر ابو محمد شدید زخمی ہوگیا ہے۔
ادھر یمن کی قومی حکومت کے وزیر خارجہ ہشام شرف عبداللہ نے یمن کے بارے میں سعودی وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے بیانات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو گوترش نے ریاض میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران یمن کے بارے میں جو کچھ کہا وہ کذب محض اور حقائق سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے پیٹرو ڈالروں نے دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کے منہ بند کردیئے ہیں جس کی وجہ سے عالمی رائے عامہ کا ضمیر بھی پچھلے دو برس سے خواب غفلت میں پڑا ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button