شام کی بحرانی صورتحال تازہ اپ ڈیٹ
تحریر : ڈاکٹر عابد بہشتی
الف:دمشق کے ایک پولیس اسٹیشن پر سات سالہ بچی کا خود کش حملہ
فرانس پریس سمیت دیگر عالمی و عربی میڈیا کی جانب سے نشر ہونے والی تفصیلات کے مطابق دمشق کے ایک پولیس اسٹیشن پر ایک ایسی معصوم سات سالہ بچی کے ساتھ بم باندھ کے بھیجا گیا جو جوہی اسٹیشن پر پہنچی ریمونٹ کنٹرول سےاس معصوم کے چھتڑے اڑائے گئے ۔
شام میں موجود دہشتگرد ماضی میں دو ماہ ،آٹھ ماہ اور دو سال تک کے بچوں کواللہ کے مقدس نام’’ اللہ اکبر‘‘کے نعروں کے ساتھ زبح کرتے تھوڑی دیر کے لئے بھی جھجکے نہیں تھے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ ایک معصوم بچی کے ساتھ بم باندھ کر ریمونٹ کنٹرول سے دھماکہ گیا ہے ۔
شام میں دہشتگردوں نے ظلم وحشت اور بربریت کی بالکل بھی ایک الگ نمونے دیکھائے ہیں جو فرضی کہانیوں اور فلموں تک میں بھی تصور نہیں کیا جاسکتا ہے
ماہرین کہتے ہیں کہ آخر زمانے میں جس سفیانی لشکر کی بربریت کے بارے میں احادیث شریفہ میں تذکرہ ملتا ہے یہ اس سے بھی چند قدم آگے دیکھائی دیتے ہیں ۔
ب:دوسرا واقعہ سعودی دہشتگرد مولوی الشيخ عبد الله المحيسني کی فریاد پر مشتمل آڈیو فائل ہے جس میں اس نے دہشتگردوں کے ساتھ غداری کا اعتراف کرتے ہوئے دیگر گروہوں پر الزامات لگائے ہیں جن کہ جن کے سبب حلب میں انہیں ناکامی دیکھنے کو ملی ۔
کہا جاتا ہے کہ یہ سعودی دہشتگرد مولوی لاکھوں ڈالر لیکرخودکش بمباروں کی ترکی اور اردن سے خردیداری کے بہانے بھاگ کھڑا ہوا تھا ،اس کے فرار کے پچھے ترکی میں بیٹھ کر ڈوریاں ہلانے والوں کا ہاتھ ہے جبکہ شدت پسندوں کے سوشل میڈیا میں اس فرار کے پچھے یورپ سے آئے ہوئی ان کی اپنی ساتھی ایک شدت پسندعورت کا ہاتھ بھی بتایا جاتا ہے ۔
ج:تیسری اہم خبر روس کے صدر پیوٹن کی جانب سے یہ اعلان ہے کہ روس اور ترکی شام میں مکمل فائر بندی کے لئے مشترکہ لائحہ عمل پر غور کررہے ہیں
قابل توجہ نکات:
۱۔روس اور ترکی کا مشترکہ اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ شام کے مسائل میں اب قطر ،سعودی عرب کے بعد امریکہ کی بھی اہمیت ختم ہوتی جارہی ہے دوسرے الفاظ میں جنیوا، ویاناکی سپرمیسی اب نہیں رہے گی جس میں یورپی یونین سمیت بہت سے اور کھلاڑی شامل تھے ۔
اس بات کوبھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ امریکی وزیر خارجہ جون کیری کی سربراہی میں پیریس میں ہونے والے ’’شامی عوام کے دوست ملک ‘‘friends of the Syrian peopleنامی اجتماع میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شریک نہیں تھے ۔
۲بظاہر لگتا ہے کہ فرانس اور برطانیہ شام کے مذاکراتی عمل میں کھل کر فرنٹ لائن میں آنے چاہتے ہیں لیکن ترکی کی موجودگی انہیں شائد یہ موقع فراہم نہ کرے
۳۔شامی اپوزیشن کی جانب سے معین شدہ مذاکرات کے لئے سپریم کمیشن کا سربراہ ریاض حجاب نے بھی اسے ویلکم کیا لیکن دلچسب بات یہ ہے کہ اس بار ویلکم کرتے ہوئے انہوں نے صدر بشار الاسد کے اقتدار سے الگ ہوجانے کی شرط کا ذکر نہیں کیا
۴۔چنددنوں قبل استبول میں روسی فوجی اہم جرنیلوں اور شامی اپوزیشن کے درمیان بھی ایک مذاکراتی دور خفیہ طور پر ہوچکا ہے ،انہی مذاکرات میں حلب سے مسلح افراد کا انخلا،قیدیوں کا تبادلہ سمیت فائر بند ی پر اتفاق ہوا تھا ۔
شام کے بحران میں عسکری اور سیاسی میدانوں میں شام مخالف بلاک کی فرنٹ لائن بدلتی رہی ہے ملک سے باہر بیٹھی اپوزیشن کی صورتحال ایسی ہے کہ عالمی و علاقائی کھلاڑی انہیں مسلسل استعمال کرتے رہے ہیں لیکن اس کے نتائج ہمیشہ ان کے لئے منفی ہی نکلے ہیں جبکہ صدر بشار لاسد اور حکومت کے ساتھ تعاون کرنے والا بلاک ایک مستقل پالیسی رکھتا ہے جو کسی بھی طور اپنے بنیادی اصولوں سے پچھے نہیں ہٹا اور نہ ہی اس نے کسی کو ریڈ لائنز کراس کرنے کی اجازت دی ہے اور یہی ان کی کامیابی کے رازوں میں سے ایک راز ہے ، اہم یہ ہے کہ اس قدر تباہی کے باجود اب بھی شام کی عوام کی واضح اکثریت صدر بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے ۔