مقالہ جات

میں طیب اردگان ہوں!!!

میں رجب طیب اردوگان ترکیہ کا موجودہ صدر ہوں اس سے پہلے تین مرتبہ وزارت عظمی کی کرسی کے لئے منتخب ہو چکا ہوں۔

میں وہ بد قسمت شخص ہوں جس کی حسرتیں ایک ایک کر کے خاک میں ملتی گئیں اور میں افسوس کے ساتھ ہاتھ ملتا رہا۔

سب سے پہلے میں اپنے ملک کو یورپی یونین کا حصہ بنانے کے لئے سر توڑ کوشش کرتا رہا اور اپنی پالیسیز کو اسی حساب سے ترتیب دیتا رہا جس کا نتیجہ ذلت و خواری کے علاوہ مجھے اور میری قوم کو کچھ نہیں ملا اس کے

بعد جب میں نے اپنے ملک کی تاریخ پہ نظر دوڑائی تو مجھے عثمانی خلافت کا درخشان دور نظر آیا تو میرے دل میں خلافت کا نشہ چڑھ گیا اور خود خلیفہ بن کر نشاة ثانیہ کا خواب دیکھنے لگا جس کے لئے مسلمانوں کے دلوں میں جگہ بنانا نہایت ضروری تھا تو میں نے غزہ کی ناگفتہ حالت سے فائدہ اٹھانا چاہا اور غزہ کے اجتماعی زندان میں محصور مسلمانوں کے لئے امدادی کشتی (فریڈم فوٹیلا) کو بھیجا مگر ظالم اسرائیل نے اس پر حملہ کیا اور اسے غزہ پہنچنے نہیں دیا جس کے نتیجے میں چند ہموطن شہید ہوئے اس کےکچھ عرصہ بعد میں اسرائیل کے ساتھ ایسی ذلت آمیز معاہدے پر مجبور ہوا کہ جس کے تحت مجھے پابند ہونا پڑا کہ اپنی سر زمین کو اسرائیل کے خلاف استعمال ہونے نہیں دوں گا

جب خلافت عثمانی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا تو سوچا کہ اپنے ہمسایہ ملکوں میں اپنی مرضی کی حکومتیں بناوں جس کے لئے میں نے سلفی، تکفیری چند گروہوں کو مضبوط کیا اور انکا نام معتدل یا میانہ رو رکھا (چاہے یہ گروہ کسی معصوم بچے کو ذبح کر کے اس کے ویڈیو منتشر ہی کیوں نہ کریں) اس پالیسی میں ابتدائی طور پر مجھے کچھ کامیابیاں ملیں میں بہت خوش ہوا لیکن ایک اور حسرت مجھے بے چین کرنے لگی کہ جامع مسجد اموی دمشق میں جا کر نماز پڑھوں مگر افسوس میری باقی حسرتوں کی طرح یہ بھی حلب میں شکست کے بعد مکمل طور پر خاک میں مل گئی اب میں دمشق جامع مسجد اموی میں تو نماز نہیں پڑھ سکوں گا مگر مفتی اعظم شام شیخ حسون جلد ہی جامع مسجد اموی حلب میں نماز کی امامت کریں گے یوں میری یہ حسرت بی نقش بر آب ہو گئی۔

بشکریہ کریم عباس کریمی

متعلقہ مضامین

Back to top button