پاکستان

تکفیری دہشت گرد تنظیموں پر پابندی

کالعدم تنظیموں پر حالیہ پابندی کے بعد ملک میں کالعدم تنظیموں کی کل تعداد 63 تک پہنچ گئی ہے۔ جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی آخری دو جماعت میں ہیں جن کو کالعدم قرار دیا گیا اور ان پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں ان دونوں تنظیموں نے پاکستان کے اندر مختلف مقامات پر ہونے والے بہت سے دہشت گرد اور خوفناک حملوں کی ذمہ داری قبول تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سکیورٹی اداروں کی بہت سی تحقیقاتی ٹیموں نے ان دو تنظیموں کے ذمہ داری قبول کرنے کی تصدیق کی ہے، اور ان حملوں کی ذمہ داری کی تصدیق کے بعد ہی سکیورٹی کے قومی اداروں نے ان تنظیموں کے خلاف سخت کاروائی کا فیصلہ کیا گیا۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سکیورٹی کے ان اداروں کو ایسے کون سے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکیں اور ایسے کون کون سے اقدامات ہیں جو پہلے 61 کالعدم تنظیموں کے خلاف اُٹھائے گئے لیکن ان کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہو سکے، اور ان تنظیموں پر پابندی کے باوجود ان کو عملی طور پر اور مکمل ختم نہیں کیا جا سکا۔
اس سلسلے میں ہمارے سامنے چند واضح مثالیں موجود ہیں اور ہم یہ کہنے سے قاصر ہیں کہ ہم کسی ایک جماعت کی بھی مثال دے سکیں جس کو عملی طور پر اور مکمل ختم کر دیا گیا ہو اور کام کرنے سے مکمل طور پر روک دیا گیا ہو۔
تاریخ گواہ ہے کہ زیادہ تر کالعدم تنظیموں نے اپنا نام بدل کر پہلے سے بھی شدید انداز میں اپنے کام کو جاری رکھا ہوا ہے اور وہ
مزید کئی گروپوں میں تقسیم ہو گئی ہیں اور اپنے انتہاء پسندانہ نظریات کو پہلے سے کئی گنا زیادہ مقدار میں فروغ دے رہی ہیں۔ اس بات کا واضح ثبوت جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی ہے جو کہ بذات خود سابقہ کالعدم جماعتوں کا ہی ایک تسلسل ہیں۔
کچھ خاص مواقع پر ریاست کی طرف سے سخت اقدامات اٹھائے گئے جبکہ حقیقی معنوں میں صرف چند دہشت گرد افراد کے خلاف ہی کاروائی کی گئی اور ان دہشت گرد تنظیموں کے کسی بھی بڑے لیڈر کو نہ ہی گرفتار کیا گیا ،نہ اس کے خلاف عدالتی کاروائی کی گئی اور نہ قید کیا گیا یا سزا دی گئی۔
اس کے برعکس یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اعلیٰ سطح کے دہشت گرد رہنما مکمل آزادی کے ساتھ گھوم رہے ہیں اور کئی مواقع پر ان کو سرکاری سطح پر تحفظ بھی فراہم کیا گیا اور ان کی معاشرتی سرگرمیوں کو حکومتی تحفظ فراہم کیا گیا۔
مثال کے طور پر اہل سنت و الجماعت جو کہ کالعدم سپاہ صحابہ کا تبدیل شدہ نام ہے کی قیادت باقاعدگی کے ساتھ عوامی اجتماعات کا انعقاد کرتی ہے اور کھلم کھلا اپنے انتہاء پسندانہ نظریات کی تبلیغ کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ وہ جماعتیں جن پر عالمی پابندیاں عائد ہیں اور جو قومی سطح پر حکومت کی واچ لسٹ میں ہیں کس طرح ان کے رہنما بے خوف ہو کر میڈیا پر بیانات جاری کرتے ہیں اور اپنے انتہاء پسندانہ نظریات کو فروغ دیتے ہیں؟
سوالات بہت زیادہ ہیں لیکن ان کےجوابات بہت محدود ہیں۔ اس مسئلے کا ایک اور سنجیدہ اور خطرناک پہلو نیکٹا(NACTA) کا موثر اقدامات نہ کرنا بھی ہے۔ درحقیقت آج تک کوئی بھی حکومت اس پہیلی کو نہیں بوجھ سکی اور انسداد دہشت گردی کی گتھی
کو سلجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی، اور نیکٹا کا کردار ایک خوبصورت افسانے سے زیادہ کچھ نہیں۔
اس کی واضح ترین مثال فورتھ شیڈول کی لسٹ ہے جس میں ایسے ایسے افراد کا نام شامل ہے جن کا دہشت گردی سے دور دور کا واسطہ نہیں یا جو وفات پا چکے ہیں، انتہائی بیمار ہیں یا گھر اور ملک سے غائب ہیں۔ فورتھ شیڈول لسٹ میں باضابطگیاں اور کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کا آزادانہ گھومنا پھرنا اور اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنا، نیکٹا (NACTA) ،سکیورٹی کے اداروں، حکومت اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرانے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button