مقالہ جات

25محرم الحرام امام سجادؑ کی شہادت کادن (1436ھ)

امام زین العابدین علیہ السلام

امام ؑ کا نام مبارک علي اور القاب "زين العابدين” اور "سجاد” ہيں- آپ ؑ کے والد کا نام حسين بن علي (عليہما السلام) ہےاور آپ کي والدہ شہربانو ہيں-

امام سجاد ؑ 15 جمادي الاول يا 5 شعبان المعظم سنہ 38 ہجري کو مدينہ منورہ ميں پيدا ہوئے-

امام سجاد (ع) کي ولادت کے سال کے بارے ميں اختلاف پايا جاتا ہے اور مورخين نے آپ ؑ کي ولادت کا سال 36 يا 37 يا 38 ہجري بتايا ہے ۔
امام سجاد (ع) کي شہادت کے مہينے اور دن کے بارے ميں بھي مختلف روايات وارد ہوئي ہيں- زيادہ تر مورخين نے کہا کہ آپ ؑ کي شہادت کا دن بارہ محرم الحرام ہے-

امام زین العابدینؑ اور صحیفہ کاملہ

کتاب صحیفہ کاملہ آپ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے اس میں بے شمارعلوم وفنون کے جوہرموجود ہیں یہ پہلی صدی کی تصنیف ہے (معالم العلماء ص ۱ طبع ایران)۔
اسے علماء اسلام نے زبورآل محمد اور انجیل اہلبیت کہا ہے (ینابیع المودة ص ۴۹۹،فہرست کتب خانہ طہران ص ۳۶) ۔ اوراس کی فصاحت وبلاغت معانی کو دیکھ کراسے کتب سماویہ اورصحف لوحیہ وعرشیہ کا درجہ دیا گیا ہے (ریاض السالکین ص ۱) اس کی چالیس شرحیں ہیں ۔

امام زین العابدین ؑعمربن عبدالعزیز کی نگاہ میں

۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا ولید بن عبدالملک خلیفہ بنایا گیا ۔ یہ حجاج بن یوسف کی طرح نہایت ظالم وجابرتھا اسی کے عہد ظلمت میں عمربن عبدالعزیزجوکہ ولید کاچچا زاد بھائی تھا حجازکا گورنر ہوا ۔ یہ بڑا منصف مزاج اورفیاض تھا،اسی کے عہد گورنری کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ۸۷ ھ ء میں سرورکائنات کے روضہ کی ایک دیوارگرگئی تھی جب اس کی مرمت کاسوال پیدا ہوا، اوراس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی مقدس ہستی کے ہاتھ سے اس کی ابتداء کی جائے توعمربن عبدالعزیزنے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ہی کوسب پرترجیح دی (وفاء الوفاء جلد ۱ ص ۳۸۶) ۔

اسی نے فدک واپس کیا تھا اورامیرالمومنین پرسے تبراء کی وہ بدعت جومعاویہ نے جاری کی تھی، بند کرائی تھی۔

امام زین العابدین اوربنیادکعبہ محترمہ ونصب حجراسود

۷۱ ھ میں عبدالملک بن مروان نے عراق پرلشکرکشی کرکے مصعب بن زبیرکوقتل کیا پھر ۷۲ ھء میں حجاج بن یوسف کوایک عظیم لشکرکے ساتھ عبداللہ بن زبیرکو قتل کرنے کے لیے مکہ معظمہ روانہ کیا۔(ابوالفداء)۔
وہاں پہنچ کرحجاج نے ابن زبیرسے جنگ کی ابن زبیرنے زبردست مقابلہ کیا اوربہت سی لڑائیاں ہوئیں ،آخرمیں ابن زبیرمحصورہوگئے اورحجاج نے ابن زبیرکوکعبہ سے نکالنے کے لیے کعبہ پرسنگ باری شروع کردی، یہی نہیں بلکہ اسے کھدواڈالا، ابن زبیرجمادی الآخر ۷۳ ھء میں قتل ہوا(تاریخ ابن الوردی)۔ اورحجاج جوخانہ کعبہ کی بنیادتک خراب کرچکاتھا اس کی تعمیرکی طرف متوجہ ہوا۔

علامہ صدوق کتاب علل الشرائع میں لکھتے ہیں کہ حجاج کے ہدم کعبہ کے موقع پرلوگ اس کی مٹی تک اٹھاکرلے گئے اورکعبہ کواس طرح لوٹ لیاکہ اس کی کوئی پرانی چیزباقی نہ رہی، پھرحجاج کوخیال پیداہواکہ اس کی تعمیرکرانی چاہئے چنانچہ اس نےتعمیرکا پروگرام مرتب کرلیااورکام شروع کرادیا،کام کی ابھی بالکل ابتدائی منزل تھی کہ ایک اژدھابرآمدہوکرایسی جگہ بیٹھ گیاجس کے ہٹے بغیرکام آگے نہیں بڑھ سکتاتھا لوگوں نے اس واقعہ کی اطلاع حجاج کودی، حجاج گھبرااٹھا اورلوگوں کوجمع کرکے ان سے مشورہ کیاکہ اب کیاکرناچاہئے جب لوگ اس کاحل نکالنے سے قاصررہے توایک شخص نے کھڑے ہوکرکہاکہ فرزندرسول حضرت امام زین العابدین علیہ السلام یہاں آئے ہوئے ہیں، بہترہوگا کہ ان سے دریافت کرایاجائے یہ مسئلہ ان کے علاوہ کوئی حل نہیں کرسکتا، چنانچہ حجاج نے آپ کوزحمت تشریف آوری دی، آپ نے فرمایاکہ اے حجاج تونے خانہ کعبہ کواپنی میراث سمجھ لیاہے تونے توبنائے ابراہیم علیہ السلام کواکھڑوا کر راستہ میں ڈلوادیاہے ”سن“ تجھے خدااس وقت تک کعبہ کی تعمیرمیں کامیاب نہ ہونے دے گا جب تک توکعبہ کالٹاہواسامان واپس نہ منگائے گا، یہ سن کراس نے اعلان کیاکہ کعبہ سے متعلق جوشے بھی کسی کے پاس ہووہ جلدسے جلد واپس کرے، چنانچہ لوگوں نے پتھرمٹی وغیرہ جمع کردی جب آپ اس کی بنیاداستوارکی اورحجاج سے فرمایا کہ اس کے اوپرتعمیرکراؤ ”فلذالک صار البیت مرتفعا“ پھراسی بنیادپرخانہ کعبہ کی تعمیرہوئی (کتاب الخرائج والجرائح میں علامہ قطب راوندی لکھتے ہیں کہ جب تعمیرکعبہ اس مقام تک پہنچی جس جگہ حجراسودنصب کرناتھا تویہ دشواری پیش ہوئی کہ جب کوئی عالم،زاہد، قاضی اسے نصب کرتاتھا تو”یتزلزل ویضطرب ولایستقر“ حجراسودمتزلزل اورمضطرب رہتا اوراپنے مقام پرٹہرتانہ تھا بالآخرامام زین العابدین علیہ السلام کوبلائے گئے اورآپ نے بسم اللہ کہہ کراسے نصب کردیا، یہ دیکھ کر لوگوں نے اللہ اکبرکانعرہ لگایا(دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۳۷) ۔

آپ (ع) کي شہادت

آپ اگرچہ گوشہ نشینی کی زندگی بسرفرما رہے تھے لیکن آپ کے روحانی اقتدارکی وجہ سے بادشاہ وقت ولید بن عبدالملک نے آپ کو زہر دیدیا،آپ کي کيفيت کے سلسلے ميں کہا گيا ہے کہ وليد بن عبدالملک نے آپ (ع) کو مسموم کيا تھا جس کے نتيجے ميں آپ نے جام شہادت نوش کيا- بعض مورخين نے کہا ہے کہ وليد بن عبدالملک کي بادشاہت کے ايام ميں اس کے بھائي ہشام بن عبدالملک بن مروان نے آپ ؑ کو مسموم کيا تھا جس کے نتيجے ميں آپ کي شہادت واقع ہوئي-

شہادت کے وقت امام سجاد (عليہ السلام) کي عمر 57 برس تھي اور وہ مدينہ منورہ کے قبرستان جنت البقيع ميں مدفون ہيں-

متعلقہ مضامین

Back to top button