مقالہ جات

ایران سعودی تنازعہ۔۔۔ فائدہ کس کا؟

تحریر : سید محمد احسن

رواں سال موسم حج کچھ اسطرح سے آرہا ہے کہ جب عالمِ اسلام میں انتشار اور نااتفاقی گذشتہ سالوں کی نسبت کسی حد تک بڑھ چکی ہے، جس کا فائدہ نا عرب کو ہورہا ہے نا عجم کو نا مشرق اور ناہی مغرب کو بلکہ اس نااتفاقی سے عالم اسلام کے قلب میں بیٹھا ناسور اسرائیل فائدہ اُٹھارہا ہے۔ قارئین جانتے ہیں سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز نے ایرانیوں کے بارے میں ایک فتویٰ صادر کیا جس میں انہوں نے ایرانیوں کو کافر قرار دیتے ہوئے انہیں دشمن گردانا۔ دراصل سعودی مفتی نے یہ فتویٰ انقلاب اسلامی کے سربراہ آیت اللہ خامنہ ای کے پیغام حج کے ردعمل میں دیا جو وہ ہر سال موسم حج کے دوران تمام مسلمانوں کیلئے جاری کرتے ہیں۔ چونکہ اس سال ماحول کچھ اسطرح کا تھا کہ سعودی عرب نے ایرانی حاجیوں پر پابندی عائد کردی جس کی وجہ سے انقلاب اسلامی کے سربراہ نے شدید الفاظ میں آل سعود کی اس حرکت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے گذشتہ سال ہونے والے سانحہ منیٰ کی شفاف تحقیقات نا کرانے اور اسکا الزام ایران پر لگانے کی بھی مذمت کی ۔

آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ آل سعود مسلمانوں کے اس عظیم اجتماع کو منظم انداز میں منعقد کروانے کے قابل نہیں رہے حج کے انتظامات عالمِ اسلام کے ہاتھ میں دیئے جائیں۔ آیت اللہ خامنہ ای کی بات کو اگر دلیل و برہان سے دیکھا جائے تو یہ یقیناًدرست مطالبہ ہے کیونکہ مکہ و مدینہ مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے نا کہ ایک نجدی خاندان کی جو حجاز مقدس پر قابض ہوگئے اور انہوں نے اس کا نام تک اپنے خاندان کے نام پر رکھ لیااسی لیئے مکہ و مدینہ کے انتظامات کو عالم اسلام کی مشترکہ کمیٹی سنبھالے۔

اس بنیادی مطالبہ پر سیخ پا سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے ایرانی قیادت اور ایرانی لوگوں کے بارے میں ایسے کلمات ادا کئے ہیں، جنہیں دہرانا بھی ہم اپنے لیے بہت مشکل محسوس کر رہے ہیں۔ ہم ’’نقل کفر، کفر نباشد‘‘ کے مصداق شیخ کے یہ الفاظ نقل کرتے ہیں: یجب أن نفھم أن ھؤ لا لیسوا مسلمین، فھم أبنا المجوس، وعداؤ ھم مع المسلمین امر قدیم

واجب ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں، پس یہ مجوس کی اولاد ہیں اور مسلمانوں سے ان کی دشمنی ایک امر قدیم ہے۔

ایران و سعودی عرب کے درمیان اس حالیہ تنازعہ کی بنیاد روان سال حج کے موقع پر سعودی عرب کی جانب سے ایران کے حاجیوں پر پابندی عائد کرنا ہے، مشرق وسطیٰ میں ایران و سعودی عرب کی سیاسی چپقلش اور ایران کے مختلف محاذ پر برتری کو آل سعود نے ایرانی حاجیوں پر پابندی لگا کراپنی جیت قرار دیا لیکن سعودی عرب کے اس اقدام پر عالم اسلام میں شدید مذمت کی کیونکہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی بھی شخص کو حج جیسی عبادت سے روکے۔ کیا یہ قرآن اور احکام خداوندی کی کھلم کھلا خلاف ورزی نہیں؟ جبکہ خدواند تعالیٰ سورۃ الحج کی آیت 25 میں ارشاد فرماتا ہے کہ

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٢٥) ۔

ترجمہ: بے شک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور لوگوں کو اللہ کے راستے اور مسجد الحرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے تمام انسانوں کیلئے برابر سے قرار دیا ہے چاہے وہ مقامی ہوں یا باہر والے اور جو بھی اس مسجد میں ظلم کے ساتھ الحاد کا ارادہ کرے گا ہم اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے ۔

کیا یہ آیتِ قرآن کھلم کھلا اعلان نہیں کررہی ہے کہ مسجد الحرام سے روکنے والے ظالم اور انکے لیئے دردناک عذا ب ہے، کیا آل سعود نے ایرانی حجاج کو حج سے روک کر احکام خدا کی خلاف ورزی نہیں کی؟ مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز جو کہ ایک مخصوص فرقہ کے سب سے بڑے مفتی ہیں اور انکی کہی ہوئی بات قانوں سمجھی جاتی ہےاسی لیئے اگر آل سعود کے پیروکار کہیں کہ ایرانی کافرہیں اور مسجد الحرام میں کافروں کے داخلہ پر پابندی ہے اسی لئے وہ گناہ گار نہیں ہوئے تو بھیا ہمیں بتائیں کہ وہ کیا وجہ ہے کہ گذشتہ سال تک جوایرانی مسلمان تھے، حج پر بھی آتے عمرہ اور زیارت بھی کرتے تھے لیکں ابھی کیوں کافر ہوگئے ؟ چلیں ایرانی کافر تھے تو 2011 میں شامی مسلمانوں پر کس لئے پابندی عائد کی تھی، 2015 میں یمن کے مسلمان کیوں حج کی سعادت سے محروم رہے کیا یہ سب بھی کافر تھے؟ یہ سب کافر ہیں تو مسلمان ہیں کہاں ؟ کیا مسلمان صرف سعودی عرب میں ہیں؟یا وہ مسلمان ہیں جو تکفیری فکر و سوچ رکھتے ہیں؟

اصل مسئلہ کیا ہے؟

ایران سعودی عرب کے تنازعات کا ایک رخ نہیں بلکہ کئی ہیں، جن میں سے ایک کو ہم یہاں بیان کرتے ہیں جو حج سے متعلق ہی ہے، ساتھ ہی اس خبر کو بھی اپنے ذہن نشین رکھیے گا کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیاتھا کہ سانحہ منیٰ کے بعد مکہ و مدینہ کی سیکورٹی کو اسرائیلی سیکورٹی ایجنسی کے حوالے کیا گیا ہے، جبکہ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب نے سفارتی تعلقات بھی بحال کرلیے ہیں ۔

حج کیا ہے؟

حج کی اگر صیح معنیٰ میں تفسیر کی جائے تو دراصل یہ اسلام کی سیاسی قوت کا مظہر ہے جہاں پر دنیا بھرسے سارے مسلمان اپنے مرکز پر جمع ہوتے ہیں ، حج کا فلسفہ سیکولرازم کے نظریہ کی نفی کرتا ہے کہ دین سیاست سے جدا نہیں ، پیغمبر اسلام (ص) کے پہلے اور آخر ی حج کی اگر تاریخ پڑھیں تو معلوم ہوجائے گا کہ اس حج نے کفار مکہ کی جڑیں ہلادیں ، حج وہ فریضہ ہے اگر مسلمان اسے اسکی روح کے مطابق ادا کریں تو دشمن خدا اور کفار خوف ذدہ ہوجائیں۔ 1971 میں جب انقلاب اسلامی آیا تو بانی انقلاب اسلامی آیت اللہ روح اللہ خمینی ؒ نے حج کو اسکی بنیادی روح کے مطابق منانے کا اعلان کیا اور 9 ذی الحجہ کو یوم برائت از مشرکین (دور حاضر کے امریکا و اسرائیل) سے برائت کرنے کا دن قرار دیا، جب سے آج تک ایرانی حاجیوں سمیت دنیا بھر سے مسلمان خاص طور پر اسرائیلی جارحیت کا شکار مسلمان فلسطینی، لبنانی اور شامی برائت از مشرکین مناتے ہیں اور وقت کے ظالمین سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں، یہ وہ موقع تھا جب اسلام کا دشمن بیدار ہوا اور اس نے آل سعود کے ذریعہ اس اسلامی بیداری کی مہم کو دبانے کی کوشیش کی اور ہم دیکھتے ہیں سعودی فوج نے برائت از مشرکین کے سلسلے میں کیے جانے والے مظاہرے پر فائرنگ کی جس سے کئی حاجی سن 80 کی دہائی میں شہید ہوئے، اس وقت بھی سعودی حکام نے ایرانیوں پر انتشار پھیلا نے کا اعلان کیا جبکہ وہ ایک مظاہرہ تھا جبکہ گذشتہ سالوں تک یہ سلسلہ سعودی عرب کی اجازت سے ہوتا رہا ہے۔

یوم برائت از مشرکین اور استکباری طاقتوں کا خوف

یوم برائت از مشرکین منانے کے حکم پر استکباری طاقتوں کو خو ف ہوچلا تھا کہ عالم اسلام جس کو انہوں نے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد افیون پلا کر سلادیا ہے، انکی کوئی سیاسی اور مرکزی طاقت نہیں رہی ہے لیکن اگر ہر سال حج کے موقع پر یہ سلسلہ جاری رہا تو مسلمان ایک بار پھر بیدار ہوسکتے ہیں اور مرکزیت کی جانب ایک بار توجہ حاصل کرسکتے ہیں لہذا انہوں نے پہلے مرحلہ میں اس دن کو جو مشرکین سے برائت کا دن قرار دیا گیا تھا فرقہ وارنہ اور نسلی رنگ دیدیا یعنی اسے تشیع اور ایرانیوں سے مخصوص دن قرار دیا ، لہذا اسکی وہ افادیت جو تمام مسلمانوں کے اتحاد کی صورت میں ملتی وہ حاصل نہیں ہوسکی۔

مسلمانوں کی اجتماعیت اور آل سعود کا خوف

مسلمانوں کی مرکزیت سے آل سعود ہمیشہ خوف ذدہ رہے ہیں،دوسری جانب خود بھی سعودی عرب کو مسلمانوں کی مرکزیت قرار دینے میں ناکام رہے اسکی وجہ مخصوص فکر کی بالادستی اور اسکی ترویج ، جبکہ انکا یعنی آل سعود کی بادشاہت بھی مسلمانوں کی مرکزیت (خلافت عثمانیہ) کو توڑ کر وجود میں آئی۔ اگر مسلمانوں کی کوئی مرکزی حکومت قائم ہوتی ہے تو آل سعود کی بادشاہت خطرہ میں پڑجائے گی، جبکہ انقلاب اسلامی ایران نے اس مرکزیت پر مسلمانوں کو واپس لانے کا نعرہ بلند کیا تھا جسکا ایک نظارہ حج کے موقع پر مشرکین کے خلاف مسلمانوں کو جمع کرکے انکوصراط مستقیم دیکھانا ہے۔

نتیجہ

نتیجہ یہ نکلا کہ رواں سال آل سعود نے اپنی بادشاہت کی خاطر جس طرح خلاف عثمانیہ کا خاتمہ کیا اسی طرح ایک طویل جدوجہد کے بعد ایرانی حاجیوں کو اس سال حج کرنے سے روکنے میں کامیاب ہوگئے جسکے سبب اس سال شاید مشرکین سے برائت یعنی امریکا و اسرائیل سے برائت کا دن اس طرح سے نا منایا جاسکے جیسے منایا جاتا تھا اور تو اور اب مکہ و مدینہ پر وہی مشرکین سیکورٹی کے نام پر مسلط ہوگئے ، نتیجہ واضح رہا ہے کامیاب مشرکین ہوئے۔

 

متعلقہ مضامین

Back to top button