سعودی عرب

سعودی عرب میں جاری بحران کے اسباب؟

سعودی عرب میں غیر ملکی مزدوروں کا غذائی بحران جس نے ہندوستان کی وزارت خارجہ کو اعتراض پر مجبور کر دیا، گزشتہ ہفتے نئے مرحلے میں داخل ہو گیا۔
عینی شاہدین کے حوالے سے الوقت نے رپورٹ دی ہے کہ سعودی عرب میں کام کرنے والے دسیوں ہزار مزدور جن میں ہندوستانی، فلپائن اور پاکستانی شہری شامل ہیں، غذاؤں کی کمی کی وجہ سے بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کا اہم سبب یہ ہے کہ ان افراد کو سات یا اس سے زیادہ مہینے کی تنخواہیں نہیں دی گئی ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو سعودی کمپنی سعودی اوجر میں کام کرتے ہیں۔ یہ کمپنی تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے مالی بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ ان مزدوروں کی حالت عملی طور پر انسانی بحران میں تبدیل ہو چکی ہے کیونکہ یہ کمپنی اپنے یہاں کام کرنے والے مزدوروں اور ملازمین کے کھانے اور غذائی سہولیات دینے سے بھی قاصر ہے۔ اس کمپنی نے ان مزدوروں کے رہنے کی جگہ پر جمع کوڑے کو جمع کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ سعودی عرب کی اوجر کمپنی لبنانی ارپ پتی اور لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق حریری کی ہے اور اس وقت یہ کمپنی شدید مالی بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ البتہ سعودی عرب میں بحران زدہ یہی ایک کمپنی نہیں ہے بلکہ اس ملک کی دوسری تعمیراتی کمپنی بن لادن گروپ جس کو مشہور دہشت گرد سرغنہ اسامہ بن لادن نے بنایا تھا، بھی مالی بحران کا شکار ہے اور یہ کمپنی اب تک اپنے 50 ہزار سے زائد ملازمین اور مزدوروں کو نوکری سے نکال چکی ہے۔ اس کمپنی کا ایک بڑا مزدوروں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ بھی اپنی کمپنی سے سات مہینے سے زیادہ کی تنخواہ کے طلبگار ہیں۔
اس بات کے مد نظر کے سعودی عرب میں سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کرنے کا رواج بہت ہی کم ہے تاہم اس ملک میں غیر ملکی ملازمین اور مزدوروں کا بحران ایسے مرحلے میں داخل ہو گیا کہ ان کمپنیوں کے ملازمین نے اپنی تنخواہوں کے نہ ملنے پر سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کئے اور اپنے اپنی تنخواہوں کا مطالبہ کیا۔ اوجر کمپنی کے ملازمین نے کئی بار کمپنی کے ہیڈکواٹر کے سامنے جمع ہو کر مظاہرے کئے اور اس کمپنی کی کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔
سعودی عرب میں غیر ملکی مزدوروں کی حالت ایسی ابتر ہے کہ ہندوستان جیسے ممالک نے اپنے اعتراضات اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور سعودی عرب میں اپنے شہریوں کی حالت کو بحران زدہ ہے۔ ہندوستان کی وزارت خارجہ نے اپنے سفارتخانے اور کونسل خانے کو ریاض اورجدہ میں اپنے شہریوں کے درمیان غذا تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے اور ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ سعودی عرب میں دسیوں ہزار ہندوستانی مزدور غذائی بحران کا شکار ہیں۔
ہندوستانی حکام نے سعودی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنے یہاں کام کرنے والے مزدوروں کو تبدیل کرنے کی اجازت دیں تاکہ ان کی مدد کی جا سکے۔ سعودی عرب میں کام کرنے والے ملازمین اور مزدوروں کی حالت بہت ہی خراب ہے اور سعودی عرب کے آئین کے مطابق غیر ملکی مزدور کفیل کی اجازت کے کوئی دوسرا کام نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجود حکومت ہندوستان نے ہندوستانی مزدوروں کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ سعودی عرب میں کام کرنے والے مزدوروں کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے لیکن ہندوستانی ملازمین کا سب سے پہلا مطالبہ تنخواہ دینے کا ہے۔
سعودی عرب کی اوجر کمپنی میں گزشتہ دس برس سے کام کرنے والے ایک ہندوستانی مزدور کا کہنا ہے کہ گزشتہ نو مہینے سے ان کو تنخواہ نہیں ملی ہے۔ اس عینی شاہد نے فرانس پریس سے بتایا کہ جب میں سعودی عرب آیا تو کمپنی نے یہ کمپ بنایا، کچھ عرصے تک سب کچھ صحیح تھا لیکن اچانک ہی سب کچھ بدل گیا، ہم سے زیادہ تر کو تنخواہ بھی نہیں ملی۔ نو مہینے ہو رہے ہیں آدھے سے زیادہ لوگوں کو کچھ بھی نہیں ملا، ان افراد کو بھی کئی مہینوں سے تنخواہیں نہیں ملی جو شاہی محلوں میں کام کرتے ہیں۔
بہرحال سعودی عرب نے شام، عراق، یمن، بحرین اور ديگر ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کرکے اور شام اور عراق میں سرگرم دہشت گردوں کی اسلحہ جاتی مدد کرکے ملک کے اقتصاد کو تباہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے اس ملک کے عوام اور کام کرنے والے بری طرح پریشان ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button