مقالہ جات

ایران، پاکستان تعلقات کا مسلکی رنگ!

سب سے پہلے یہ وضاحت کر دوں کہ یہ تحریر چند نکات تک محدود رہے گی۔ درحقیقت پاکستان کے ریاستی عہدوں پر فائز رہنے کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے ذوالفقار احمد چیمہ صاحب نے روزنامہ ایکسپریس میں ایران سے متعلق کچھ غلط بیانیاں کرکے پاکستانیوں کو انقلاب اسلامی اور ایرانی حکومت کے بارے میں گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ کوشش انہوں نے کم علمی یا لا علمی کی بنیاد پر نادانستہ طور پر کی ہے یا دانستہ طور پر سعودی اہداف کی تکمیل کی ہے۔ انہوں نے پاکستان سعودی عرب کے تعلقات کے قائم و دائم رہنے کی بھی بات کی ہے جبکہ ایران پر بے بنیاد الزامات کے تحت اسے مسلک پرست ملک ظاہر کیا ہے۔ ویب سائٹ پر ان کے مقالے پر 13 جولائی 2016ء کی تاریخ ہے اور عنوان ہے ’’ایران کے رہبر علی خامنہ ای صاحب کی خدمت میں‘‘ اس میں انہوں نے ایک جھوٹا دعویٰ کیا کہ ایران عراق جنگ کی وجہ سے انقلاب اسلامی ایران کا اسلامی رنگ دھندلا گیا اور اس پر مسلکی رنگ غالب آگیا۔

جواباً عرض ہے کہ بعض پاکستانی دانشوروں نے ایران سے متعلق کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سے ایک جناب ارشاد احمد حقانی صاحب بھی تھے اور وہ ایرانی ریاست پر تنقید بھی کیا کرتے تھے۔ اس کے باوجود ان کی کتاب ’’انقلاب ایران، ایک مطالعہ‘‘ کی یہ سطور ایران عراق جنگ کے بارے میں بعض حقائق کو سمجھنے کے لئے کافی ہوں گی، لیکن سب سے پہلے حقانی صاحب کے یہ جملے ضرور پڑھیں، تاکہ معلوم ہو کہ بنیادی طور پر پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بہت زیادہ قربت یا گرمجوشی کیوں نہیں ہونے پاتی۔ اس کتاب کے ایک باب بعنوان ’’پاکستان اور ایران میں نفاذ اسلام کا مختصر تقابلی جائزہ‘‘ میں انہوں نے لکھا کہ: ’’ایران میں استعماریت کی ہر شکل کی غیر مصالحانہ مخالفت ان کے تصور اسلام کا بنیادی پتھر ہے۔ وہ استعمار کو طاغوت اور اپنی رائے کے مطابق سب سے بڑی استعماریت کو طاغوت اعظم کہتے ہیں اور ان کی جملہ خارجی و داخلی حکمت عملیوں پر ان کے اس عقیدہ کا پرتو صاف نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس ہم صرف روایتی معنوں میں ایک غیر وابستہ اور غیر جانبدار ملک ہیں، جو مشرق و مغرب سے اسی قدر اور اسی مفہوم میں غیر وابستہ ہیں، جس مفہوم میں غیر وابستہ ممالک کی تنظیم NAM کے اکثر ارکان ہیں۔‘‘

’’تقابلی مطالعہ مقصود ہی ہے تو اس پہلو کا تذکرہ ناگزیر ہے کہ ایرانی تصور اسلام میں استعماریت کی فکری و عملی مخالفت ایک جزو لاینفک ہے جبکہ اس مسئلہ پر پاکستانی رویہ مختلف انداز کا ہے۔‘‘ ’’بنا بریں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ استعماریت کے حوالے سے ہمارے اور ان کے تصور اسلام میں نمایاں فرق ہے اور دونوں کا رویہ یکسر مختلف ہے۔‘‘ ایران عراق جنگ کے بارے میں ارشاد حقانی صاحب کی کتاب کے اسی باب میں لکھا ہے کہ جب عراق نے حملے کا آغاز کیا تو ’’اسے طاقت ور علاقائی اور عالمی حلقوں کی تائید حاصل تھی۔’’ وہ صریحاً جارحیت کا مرتکب ہوا تھا تو ایک آدھ آواز کے سوا دنیا سے کسی نے بھی یہ جنگ بند کرنے کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ ایران نے شروع سے ہی یہ موقف اختیار کیا تھا کہ جارح کو جارح کہا جائے۔‘‘ ’’عین اسی زمانہ میں سوویت یونین نے بھی اپنی ظاہری جانبداری کا رویہ ترک کرکے اپنا سارا وزن کھلم کھلا ایران مخالف کیمپ کی حمایت میں ڈال دیا۔’’ دنیا نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ مئی 1984ء میں اور اس کے بعد کے ہفتوں میں امریکا اور روس ایران کی مخالفت میں متحد ہوگئے اور دونوں کے درمیان ایران کی مخالفت کے خطوط پر اتفاق رائے ہوگیا۔‘‘ اور اسی پر حقانی صاحب نے لکھا تھا کہ ایران کے برسر حق ہونے کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے! مزید لکھا کہ اس واقعہ کے بعد عراق اور امریکا کے درمیان سترہ سال سے ٹوٹے ہوئے سفارتی تعلقات بھی بحال ہوچکے ہیں اور روابط میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ایران چونکہ استعماریت اور اسرائیل کا بدترین دشمن ہے، وہ ملوکیت کی ہر شکل کا بھی مخالف ہے، اس لئے وہ تمام حلقے جو خود استعماری مفادات رکھتے ہیں یا ان کے تابع ہیں یا ملوکیت سے ان کا مفاد وابستہ ہے، وہ ایران کو زک پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں۔‘‘

مذکورہ بالا اقتباسات کے لئے حقانی صاحب کا انتخاب میں نے دانستہ طور پر کیا ہے، ورنہ سعودی شہزادہ بندر بن سلطان کی بائیوگرافی ’’دی پرنس‘‘ میں ایران عراق جنگ میں سعودی کردار پر میں ماضی میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ اب انصاف پسند قارئین فیصلہ کر لیں کہ ایران پر مسلکی رنگ غالب آیا یا حقیقی اسلامی و قرآنی رنگ غالب رہا؟ اور اس جنگ میں کس نے ایران جیسے مومن ملک کو چھوڑ کر کافروں کو رفیق بنایا؟ اہل کتاب کی نقاب میں امریکا یا یورپی ممالک کو چھپانے والے یہ بتائیں کہ صلیبی کون تھے، کیا وہ اہل کتاب نہیں تھے؟ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ کا مسئلہ یہی ہے کہ جب امریکی سعودی اتحاد کو سوویت کمیونزم کے خلاف پاکستان کی ضرورت پڑی تو پاکستان نے سوویت کمیونسٹ کو کافر بنا کر پیش کیا اور چین کے کمیونسٹوں سے اپنی دوستی کو شہد سے زیادہ میٹھا، ہمالیہ سے زیادہ بلند اور سمندر سے زیادہ گہر قراردیا۔ کیا علامہ اقبال کی رائے معلوم ہے کہ انہوں نے کاشغر کے مسلمان تورانیوں کے بارے میں کیا لکھا تھا۔ بہت واضح لکھا کہ وہ چین سے آزادی حاصل کرلیں گے! پاکستان میں شیعوں کی آزادی کی بات کرنے والے یہ بتائیں کہ شیعہ کافر کا نعرہ کس ملک میں ایجاد ہوا؟ ڈاکٹر شریعتی کا تذکرہ کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ انہوں نے سعودی عرب کی شیعت دشمنی کا تذکرہ شاہ ایران کے دور حکومت میں کیا تھا۔

کیا کسی کو معلوم ہے کہ ایران میں کتنی سنی مساجد ہیں؟ پندرہ ہزار سے بھی زائد مساجد ہیں اور یہی نہیں بلکہ فیصدی اعتبار سے یہ تعداد شیعہ مساجد سے زیادہ ہے۔ تہران شہر میں سنیوں کی ایسی مساجد کہ جہاں جماعت ہوتی ہو، نماز جمعہ، رمضان میں تراویح وغیرہ، ایسی کم از کم نو (9) مساجد ہیں۔ ایران میں سنی مساجد کے ناموں میں مسجد خلفائے راشدین بھی ہے اور خلیج فارس کے کنارے بوشہر صوبے کے کنگان شہر میں اس نام کی مسجد سے میں خود آگاہ ہوں۔ پاکستان میں عوام الناس کو ایران کے خلاف جھوٹ لکھ کر گمراہ کرنے سے نہ تو ایران کی صحت پر کوئی اثر پڑے گا اور نہ ہی انقلاب پر۔ کیونکہ انقلاب ایرانی لائے ہیں اور وہاں کے سنی ایرانی پاکستان یا سعودی عرب کے لوگوں سے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ ایران کیا ہے؟ پاکستان کی پارلیمنٹ میں ایک بھی شیعہ مذہبی یا مسلکی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ پارٹیوں کا محتاج ہے اور ایران کی نہ صرف پارلیمنٹ میں بلکہ مجلس خبرگان رہبری میں بھی سنی علمائے دین کی نمائندگی موجود ہے۔ وہاں کوئی سنیوں سے ان کے عقیدے کے خلاف ضابطہ اخلاق نہیں بنواتا، لیکن پاکستان میں شیعہ کافر کا نعرہ بعض اداروں کی متعصب شخصیات کی سعودی وہابیت کی غلامی کی سب سے بڑی دلیل ہے! جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ یہ تحریر چند نکات تک محدود رہے گی۔ یہاں ہم نے صرف دو نکات پر بات کی ہے۔ ایران عراق جنگ کا مسلکی رنگ اور ایران یا تہران میں سنی مساجد کی تعداد۔ ساتھ ہی علامہ اقبال بھی درمیان میں آگئے۔

چیمہ صاحب کے سارے سوالات کے جوابات موجود ہیں، لیکن ان سمیت کوئی بھی عالم اسلام کے اس سوال کا جواب بھی دے کہ مکہ کے جنت المعلٰی اور مدینہ کے جنت البقیع میں قائم اہلبیت علیہم السلام، ازواج مطہرات اور صحابہ کرام کے مزارات مقدسہ کو مسمار کرنے والی سعودی وہابی حکومت کے مسلکی رنگ پر آج تک کیوں خاموش چھائی ہوئی ہے؟ یہ مزارات کیوں مسمار کئے گئے۔ وہاں اونچی قبور کیوں زمین بوس کر دی گئیں؟ وہاں پاکستانیوں کی تذلیل کیوں کی جا رہی ہے؟ کیا عبداللہ شاہ غازی، بابا فرید گنج شکر، داتا دربار، بری سرکار سمیت درجنوں اولیائے کرام کے مزارات کو بموں یا خودکش حملہ آوروں کے ذریعے منہدم کرنے کی کوشش کرنے والے یہ تکفیری دہشت گرد کیا آل سعود کے ہم مسلک نہیں تھے؟ یہاں سعودی مسلکی رنگ مزارات مقدسہ کو مسمار کرنے والی آل سعود کی حکومت سے پاکستانی حکمرانوں کی دوستی کی کوئی ٹھوس وجہ بیان کیجیے؟ ماہ رمضان میں مسلمان ملازمین کو روزہ نہ رکھنے دینے والے چین سے دوستی کی وجہ بیان کیجیے اور اس چینی رنگ کے مسلک کو بیان کیجیے۔ عالم اسلام پر جنگ مسلط کرنے والے اور پاکستانی فوجیوں کو مارنے والے امریکا سے اتحاد و دوستی کی وجوہات بیان کیجیے؟ ارشاد احمد حقانی صاحب کے بیان کردہ فارمولے پر عمل کئے بغیر ایران سے دوستی کیسے ممکن ہے! مکرر ارشاد ہے حقانی صاحب کا یہ جملہ: ’’ایران چونکہ استعماریت اور اسرائیل کا بدترین دشمن ہے، وہ ملوکیت کی ہر شکل کا بھی مخالف ہے اس لئے وہ تمام حلقے جو خود استعماری مفادات رکھتے ہیں یا ان کے تابع ہیںیا ملوکیت سے ان کا مفاد وابستہ ہے، وہ ایران کو زک پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں۔‘‘ اب چیمہ صاحب اپنا فیصلہ خود کر لیں کہ وہ اس صف بندی میں کس طرف کھڑے ہونا پسند فرمائیں گے۔؟

متعلقہ مضامین

Back to top button