مقالہ جات

ڈیرہ اسماعیل خان میں کیا ہوا؟ آنکھوں دیکھا حال

ڈیرہ اسماعیل خان میں میں کل شہداء کے جنازے پر جو کچھ ہوا اس پرالزامات کا ایک نہ تھمنے والا طوفان شروع ہے اور اس تمام واقع کوایک خاص ٹولے کی جانب سے آئی ایس او اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے عہدیداروں اور جوانوں کی مولانا رمضان توقیر کے خلاف سازش قرار دیکر اصل حقائق سے رخ موڑنے کی کوشش کی گئی۔اس تحریر کے زریعے اس ساری صورتحال کی اصل حقیقت اور اندر کے حالات و واقعات بیان کیے جائیں گے تاکہ اس غلط پروپیگنڈے کوختم کیا جاسکے اور قوم کے ساتھ خیانت کرنے والوں کے رخ سے پردہ اٹھا یا جاسکے۔اور ہر علاقے میں موجود ایسے کرداروں کی بیخ کنی کی جاسکے تاکہ عوام اپنے حقیق لیڈران کو پہچان سکیں اور جعلی لیڈران کی ضمیر فروشی کا سلسلہ بند کرسکیں ۔ ڈیرہ سماعیل خان ملت جعفریہ کا ایک اہم ترین محاز ہے جہاں ملت تشیع کی قیمتی افراد نے اس وطن کی سالمیت و استحکام کے لیے اپنابے پناہ لہوپیش کیاجس کی گواہی ڈیرہ میں موجود شہداءکے بھرے ہوئے قبرستان ہیں ۔ ڈیرہ کے ہر گھر میں اس وقت کسی کا بھائی شہید ہے تو کسی کا بیٹا اور کسی کا شوہر تو کسی کا باپ شہید ہے غرض یہ کہ اکثریت خانواداہ شہداءسے تعلق رکھتی ہے۔ ڈیرہ کے لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں کو اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں۔ جس کے نتیجے میں عوام کے اندر ایک لاوہ پک رہا ہے جس کا مشاہدہ کل کے احتجاج میں بالخصوص خواتین کو سڑکوںکو بند کرکے دھرنا دیتے ہوکیاگیا۔ ڈیرہ کے تمام شہداءبالعموم اور گزشتہ تین ماہ کے شہداءبالخصوص اس معاشرے کے نیک متدین ، موثر اور پڑھے لکھے افراد تھے جن کی شرافت اور متانت کی گواہی اپنے پرائے سب دیتے ہیں۔جب ہم شہید شاہد شیرازی کے شہادت پر ان کے گھر پہنچے تو ان کے والد کو نہایت حوصلہ مند پایہ اور اپنے اباءو اجداد کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس راستے پر قربانی دینے سے کو اپنے لیے شرف و عزت قرار دیتے ہوئے سنا۔ اپنے بیٹے کے بارے میں کہتے تھے کہ میرا بیٹا اس قوم پر قربان ہوا یہ اسی ملت کی امانت تھا ۔ ٹارگٹ گلنگ کی موجودہ لہر سے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک بار پھر خوف اور بے حسی کے بادل چھاتے نظر آرہے تھے جس میں شہداءکے جنازے خاموشی سے دفن کرنے کی روایت دوبارہ سے زندہ ہوتی نظر آرہی تھی لیکن شہید شاہد شیرازی کی شہادت سے علاقے کے لوگوںمیں بے خوفی اور غم و غصے کی ایک واضح لہر دوڑتی نظر آئی۔ جنازہ جب کوٹلی امام حسین ؑ کے قبرستان کی جانب روانہ ہوا تو لوگوں کا ایک قافلہ بن گیا جو موٹر سائیکلوں ، گاڑیوں اور پیدل جنازہ کے ساتھ چلے اور یوں ایک جم غفیر قبرستان کے سامنے بنوں روڈ پر اکٹھا ہوگیا۔ جب شہید کا جسد خاکی قبرستان کے سامنے پہنچا تو لوگوں نے وہیں اجتجا جی دھرنے کا فیصلہ کیا۔آئی ایس اور اور ایم ڈبلیو ایم کی مرکزی قیادت جن میں علامہ اعجاز بہشتی ،برادر ناصر عباس شیرازی ، برادر نثار علی فیضی، برادر اقرار ملک اور برادر علی مہدی مرکزی صدر آئی ایس او وہاں موجود نظر آئی۔ابتدائی تقریروں میں مقریرین نے میت کو سڑک پر رکھ کر بھر پور احتجاج شروع کیا اور چند لمحوں کے بعد پورا شہر بلاک ہو گیا جس میں سات سے ذیادہ مقامات پر احتجاج اور دھرنا شروع کیا گیا۔ اس موقع پر شیعہ علماءکونسل کے علامہ رمضان توقیر نے بھی خطاب کیا لیکن احتجاج و دھرنا کی طوالت کے حوالے سے کہا کہ علاقے کے بزرگان اس کا فیصلہ کریں گے ۔ اس کے بعدوہ اس کوشش میں مصروف ہوگئے کے لوگوں کو بالخصوص شہداءکی فیملی کو راضی کریں کہ چونکہ اہل سنت کی بھی ایک تعداد جنازہ کے لیے آئی ہوئی ہے اسلیے جلد جنازہ کرکے تدفین کی جائے۔ جسکو وہاں موجود شہداءکی فیملی اور تنظیمی مسﺅلین نے مسترد کیا۔ اس دوران موصوف ضلعی انتظامیہ سے رابطوں میں مشغول نظر آئے۔ پھر کچھ دیر بعد خبر آئی کہ ضلعی ڈی پی اواور پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر، علی امین گنڈاپور مزاکرات کے لیے آنا چاہ رہے ہیں اس لیے مطالبات پر فوری کمیٹی تشکیل دی جائے۔ کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں علامہ رمضان توقیر، سید مستان زیدی ، تحسین علمدار، برادر نثار علی فیضی ایم ڈبلیو ایم ، برادر اقرار ملک ایم ڈبلیو ایم، برادر تنویر ایم ڈبلیو ایم، برادر علی مہدی آئی ایس او شامل تھے۔ کمیٹی کا اجلا س شروع ہوا اور مطالبات پر گفتگو کا آغاز ہوا۔ مطالبات میں سب سے پہلے اس بات پر اتفاق ہو ا کہ یہ احتجاجی دھرنامیت کے ساتھ کم سے کم 48گھنٹوں کے لیے جاری رہے گا اس کے علاوہ دیگر نقاط جس میں دہشتگردوں کے خلاف فوج کی طرف سے فوری آپریشن ، عمران خان کا فوری کے پی کے کا دورہ اور وہاں شہداءکے لواحقین سے اظہار ہمدردی اورحکومتی زمہ داران کی سستی اور غفلت کے خلاف ایکشن ،ڈی آئی خان پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کی سکرونٹی اور گرفتاری،شہید وکلاءکے فیملیز کے لیے کمپنسیشن شامل تھے۔ ابھی ان مطالبات پر گفتگو جاری تھی کہ علامہ رمضان توقیر نے اطلاع دی کے ڈی پی او اور علاقے کے ایم پی اے مدرسے پہنچ رہے ہیں ۔ انکی آمد کے بعد ان سے کمیٹی کے ملاقات ہوئے جس میں طویل گفتگو کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ ڈی پی اوصاحب فوج کے فوری آپریشن کے حوالے سے مطالبہ کو آگے پہنچائیں گے جبکہ علی امین صاحب عمران خان اور صوبائی حکومت کو دیگر مطالبات کے حوالے سے آگاہ کریں گے۔ اس میٹینگ کے کچھ دیر بعد آئی ایس آئی کے کمانڈنڈٹ اور فوج کے سٹیشن کمانڈنٹ بھی مدرسے پہنچ گئے اور اپنی کارکردگی اور فوجی آپریشن کے حوالے سے مذاکراتی کمیٹی کو آگاہ کیا اور واضح کیا کے فوج پہلے ہی بہت کچھ کر رہی ہے مزید کسی اقدام کی ضرورت نہیں۔ مولانا رمضان توقیر ، مستان زیدی اور تحسین علمدار نے اس میٹنگ کے بعد یوں خوشی کا اظہار کیا جیسے تمام مسائل حل ہوگئے ہیں اور اب مزید کسی مطالبے کی گنجائش نہیں۔ جبکہ یہ میٹنگ صرف بریفنگ تھی نا کہ کسی قسم کا کوئی معاہدہ اس پر کمیٹی کے دیگرا راکین نے ان حضرات کو کہا کہ فوجی آپریشن اور دیگر مطالبات کے لیے ہمیں زیادہ بڑے سطح کے لوگوں سے مذاکرات کرنے چاہیے کیونکہ مسائل فقط علاقے کی حد تک تعلق نہیں رکھتے بلکہ دیگر علاقوں سے بھی مربوط ہیں۔ اس پر رمضان توقیر نے کہا کہ آپ لوگ باہر کے ہیں ہمارے معاملات کو خراب نہ کریں ہم علاقے کی صورتحال کو زیادہ بہتر جانتے ہیں۔اور ایک بار پھر میت کی تدفین کے حوالے سے بات شروع کردی کہ اب چونکہ ضلعی ڈی پی او، ایم پی اے، کرنل آئی ایس آئی اور سٹیشن کمانڈنٹ سب ہمیں مطمئن کرچکے ہیں اس لیے مزید کسی احتجا ج کی ضرورت نہیں اور شام 6.30پر جنازے کا اعلان کی جائے ۔ اس بات سے خائف ہوکر کمیٹی کے دیگر اراکین اس مفاد پرستی اور ضمیر فروشی کی کیفیت کو دیکھ کر بہت دلبرادشتہ ہوئے اور اجلاس سے اٹھ کر باہر چلے گئے ۔ جس دوران کمیٹی کے بعض دیگرعلاقائی اراکین علی امین ایم پی اے کو بلوا لائے اور اسکے جھوٹے وعدوں پر اعتماد کرکے قومی کی شیرازہ بندی کا ایک بار پھر اسباب پیدا کرنے کی تیاری کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد پھرمستان زیدی صاحب نے پیغام بھجوا کرمزاکراتی کمیٹی کے اراکین کو بلوایااور اعلان سے پہلے میٹنگ کی ۔ اس بار میٹنگ میں ایم ڈبلیو ایم کے نثار علی فیضی نے واضح طور پر کہا کہ مزاکراتی کمیٹی نے سب سے پہلے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ یہ احتجاج اپنے مطالبات کو آبرومندانہ اور حقیقی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے کم سے کم 48گھنٹے دھرنا دے گا۔ اور جنازے کا عجلت میں فیصلہ کسی بھی طور پر عقلی و منطقی نہیں مزید یہ کہ اس وقت ایک بھر پور پریشر صوبائی حکومت اور تحریک انصاف پر آچکا ہے اس استقامت کے نتیجے میں ایپکس کمیٹی کا اجلاس بھی فوری طلب ہوچکا ہے ہم اپنے شہداءکے لہو کو ضائع ہونے سے بچائیں پوری قوم اس دھرنے کے ساتھ یکجہتی کے لیے تیار ہوچکی ہے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری پریس کانفرنس کر کے پورے ملک میں احتجاجی دھرنے کا اعلان کرنے والے ہیں ، ڈیرہ کے مسائل حقیقی بنیادوں پر حل ہونے کے قریب ہیں آپ لوگ خدارا اپنی زاتی مصلحتوں اور تعلقات پر قومی مصلحت اور شہداءکے خانوادوں کی مصلحت کو ترجیح دیں۔ اس وقت عوام جس جوش و جذبے کے ساتھ میت کے ساتھ احتجا ج کر رہے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کا یہ بت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سرزمین پر پاش پاش ہو۔ مگر اس پر آگ بگولا ہو کر مولانا رمضان توقیر نے کہا کے آپ اپنی سیاست سے ہمیں دور رکھیں ان شہادتوں پر کوئی کچھ نہیں کر سکتا ہم آپ سے زیادہ ان معاملات کو سمجھتے ہیں آپ لوگ حالات خراب کرنے کا ایجنڈ الے کر آئے ہیں ہمیں معاف کریں ۔ اس بات پر مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل برادر ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ آپ کا یہ انداز کسی بھی طور اخلاقی و میزبانی کے اصولوں کے مطابق نہیں آپ لوگ پوری قوم سے کٹ کر ان مسائل کو حل نہیں کرسکتے ، کوئٹہ کے دھرنوں کی کامیابی بھی اسی وقت ممکن ہوئی تھی جب پورے ملک میں دھرنے دیے گئے تھے لیکن پھر بھی ہم اس بات کے پابند ہیں کہ شہداءکے خانوادوں کی مرضی سے ایک انچ آگے نہ بڑھیں اگر وہ آمادہ ہیں کہ جنازے کو دفن کیا جائے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔ اس کے بعد تمام لوگ اٹھے اور اعلان کی خاطر جلسہ گاہ کی طرف چلے۔ جلسہ میں پہنچ کرکچھ اراکین کمیٹی سٹیج پر گئے اور کچھ نہیں گئے اور ایک سائڈ پر کھڑے ہو گئے۔سٹیج پرسب سے پہلے مستان زیدی نے گفتگو کی اور پھرمزاکرات کا کامیاب ہونے کے جھوٹے اعلان کے لیے مولانا رمضان توقیر کو دعوت دی۔ مولانا رمضان توقیر نے اپنی گفتگو کے آخر میں جیسے ہی اعلان کیا کہ ہمارے سارے مطالبات منظور ہوگئے ہیں اور علاقے کے ایم پی اے علی امین گنڈاپور نے ان مطالبات پر عمل درآمد کے لیے دس دن کی مہلت مانگی ہے اور اگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوا تو ہم پھر احتجاج کریں گے۔ اس اعلان کا ہونا تھا کہ نیچے سے لوگوں نے نعرے لگانے شروع کیے اور پھر سٹیج پر جوتے پھینکنے اس کے فورا بعد تقریبا جلسے کے 70فی صد شرکاءمقررین کی جانب بڑھے اور نہایت غصے کے ساتھ مولانا رمضان توقیر ، مستان زیدی اور دیگر افراد جن کے حوالے سے علاقے کے لوگ آگاہ تھے کہ یہ قوم کی غیرت کا سودہ کرتے رہتے ہیں مکوں، لاتوں، نعروں کے ساتھ ان پر حملہ آوور ہوئے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button