پاکستان

۱۰ رمضان یوم وفات ’ ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ‘ علیہ سلام

حضرت خدیجہ کا شمار تاریخ  انسانیت کی ان عظیم خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے انسانیت کی بقاء اور انسانوں کی فلاح  و بہبود کے لئے اپنی زندگی قربان کر دی ـ تاریخ بشریت گواہ ہے کہ جب سے اس زمین پر آثار حیات مرتب ہونا شروع  ہوئے اور وجود  اپنی حیات کے مراحل سے گزر تا ہوا انسان کی صورت میں ظہور  پذیر ہوا اور ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام اولین نمونہ انسانیت اور خلافت الہیہ کے عہدہ دار بن کر  روئے زمین پر  وارد ہوئے اور پھر آپ کے بعد سے ہر مصلح بشریت جس نے انسانیت کے عروج اور انسانوں کی فلاح و  بہبود کے لئے اس کو اس کے خالق حقیقی سے متعارف کرانے کی کوشش کی، کسی  نہ کسی صورت میں اپنے دور کے خود پرست افراد کی سر کشی اور انانیت کا سامنا کرتے ھوئے مصائب و آلام سے دوچار ھوتا رہا دوسری طرف تاریخ کے صفحات پر ان مصلحین بشریت کے کچھ ہمدردوں اور جانثاروں کے  نام  بھی نظر آتے ھیں جو  ھر  قدم  پر انسانیت کے سینہ سپر ھوگئے اور در حقیقت ان سرکش افراد کے مقابلے میں ان ہمدرد اور مخلص افراد کی جانفشانیوں ھی کے نتیجے میں آج  بشریت کا  وجود  برقرار  ھے  ورنہ  ایک  مصلح  قوم  یا  ایک  نبی  یا ایک رسول کس طرح اتنی بڑی جمعیت کا مقابلہ کر سکتا تھا جو ھر آن اس کے در پئے آزارھو یہی مٹھی بھر دوست اور فداکار  تھے جن کے وجود سے مصلحین کے حوصلے پست نھیں ھونے پاتے تھےـ مرور ایام کے ساتھ  پرچم اسلام آدم (ع) و نوح (ع) و عیسیٰ و ابراھیم علیھم السلام کے ہاتھوں سربلندی وعروج حاصل کرتا ھوا ھمارے  رسول ص کے  دست مبارک  تک  پہونچا اور عرب کے ریگزار  میں آفتاب رسالت نے طلوع ھو کر ھر ذرہ کو رشک قمر بنا دیا،ھر طرف توحید کے شادیانے  بجنے لگے از زمین تا آسمان لا الہ الا الله کی صدائیں  باطل کے قلوب کو  مرتعش  کرنے  لگیں، محمد رسول الله کا شور دونوں عالم  پر  محیط  ھوگیا اور تبلیغ الٰھی کا آخری ذریعہ اور ھدایت بشری کے لئے آخری رسول رحمت بن کر عرب کے خشک  صحرا  پر  چھاتا  ھوا  سارے  عالم  پر  محیط  ھو گیا دوسری طرف باطل کا پرچم شیطان ونمرود، فرعون و شداد کے ہاتھوں سے گذرتا ھوا  ابولھب ، ابو جھل اور ابوسفیان کے ناپاک ہاتھوں  بلند  ھونے کی ناپاک کاوشوں میں مصروف ھوگیا ـ رسول اللہ ص کے کلمہ توحید کے جواب میں ایذا رسانی شروع ھوگئی اور حق و باطل برسر پیکار ھوگئے ایسے عالم میں کہ ایک طرف مکہ کے خاص و عام تھے اور دوسری طرف بظاھر ایک تنگ دست اور کم سن جوان جس کے اپنے اس کے مخالف ھو چکے تھے ـ لیکن پیغام الٰھی کی عظمت، مصائب کی کثرت پر غالب تھی اور ھر اذیت کے جواب میں رسول الله  کا جوش تبلیغ اور زیادہ ھوتا جاتا تھا ـ ایسے کسمپر سی کے عالم میں جھاں ایک طرف آپ کے چچا حضرت ابوطالب ع نے آپ کی ھر ممکنہ مدد کی وہیں دوسری طرف آپ کی پاک دامن زوجہ حضرت خدیجہ الکبری س نے آپ کی دلجوئی اور مدارات کے ذریعہ آپ کو کفار مکہ سے  پہچنے  والی تمام تکالیف کو  یکسرہ  فراموش کرنے پر مجبور کر دیا ـ حضرت خدیجہ س نے آپ کی زبان سے خبر بعثت سنتے ھی اٰمنا وصدقنا کہ کر آپ کی رسالت کی پہلے ھی مرحلے میں تائید کردی ـ جناب خدیجہ س کا یہ اقدام رسول اکرم ص کے لئے  بہت حوصلہ افزاء ثابت ھوا ـ آپ کی اسی تائید و تعاون کو رسول اکرم ص آپ کی وفات کے بعد بھی یاد فرماتے رتے تھے اور اکثر و بیشتر  آپ کی زبان اقدس پر حضرت خدیجہ س کا تذکرہ رہتا تھا (۱) حضرت عائشہ نے ایک دن رسول اکرم ص کو کہا  کہ خدیجہ ایک ضعیفہ کے سوا  کچھ  نھیں  تھی اور خدا نے  آپ  کو  اس  سے  بھتر  عطا  کر دی  ھے (عائشہ کا اشارہ اپنی طرف تھا ) تو حضور ص ناراض ھو گئے  (۲ )ـ اور غضب کے عالم  میں فرمایا کہ خدا کی قسم خدا نے مجھ کو  اس سے  بھتر  عطا  نھیں کی  وللٰہ لقد اٰمنت  بی اذکفر الناس واٰوتینی اذرفضنی الناس و صدقتنی اذکذبنی الناس (۳) خدا کی قسم وہ (خدیجہ ) اس وقت مجھ پر ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار  کئے ھو ئے  تھے اس نے مجھے اس وقت پنا ہ دی جب لوگوں نے مجھے ترک کردیا تھا اور اس نے میری اس وقت تصدیق و تائید کی جب لوگ مجھے جھٹلا رھے تھےـ
خاندان و نام ونسب

شجر اسلام کی ابتدائی مراحل میں آبیاری کرنے  والی اور  وسطی مراحل میں اس کی شاخوں کو  نمو  بخشنے  والی یہ خاتون قریش کے اصیل و شریف گھرانے میں پید ا ھوئی ـ روایات میں آپ کی ولادت عام الفیل سے پندرہ سال قبل ذکر ھوئی اور بعض لوگوں نے اس سے کم  بیان کیا ھے ـ آپ کے والد خویلد ابن اسد بن عبد العزی بن قصی کا شمار عرب کے دانشمندوں میں ھوتا تھا ـ اور آپ کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن رواحہ ھیں (۴) آپ کا خاندان ایسے روحانی اور فداکار افراد پر مشتمل تھا جو خانہ کعبہ کی محفاظت کے عہد یدار تھے ـ جس وقت بادشاہ یمن ”تبع “نے حجر اسود کو مسجد الحرام سے یمن منتقل کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت خدیجہ س کے والد نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جس کے نتیجہ میں مجبور ھوکر ”تبع “کو اپنے ارادہ سے منصرف ھو نا پڑاـ(۵) حضرت خدیجہ کے جد اسد بن عبد العزی پیمان حلف الفضول کے ایک سرگرم رکن تھے  یہ پیمان عرب کے بعض با صفا وعدالت خواہ افراد  کے  درمیان ھو ا تھا جس میں متفقہ طور  پر  یہ عھد کیا گیا تھا  کہ مظلومین کی طرف سے دفاع کیا جائے گا اور  خود  رسول اکرم  بھی اس پیمان میں شریک تھے (۶) ”ورقہ بن نوفل “ (حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی )عرب کے دانشمند ترین افراد میں سے تھے اور ان کا شمار ایسے افراد میں ھوتا تھا جو بت پرستی کو  نا پسند کرتے تھے  (۷) اور حضرت خدیجہ کو چندین بار اپنے مطالعہ کتب عھدین کی بنا پر خبر دار کرچکے تھے کہ محمد  اس امت کے نبی ھیں ـ(۸) خلاصہ یہ کہ اس عظیم المرتبت خاتون کے خاندان کے افراد، متفکر ، دانشمند اور دین ابراھیم  کے  پیرو تھے ـ
تجارت

ایسے با عظمت افراد کی آغوش عاطفت کی پروردہ خاتون کی طبیعت میں اپنے  آبا و اجداد کی طرح رفق ودانشمندی کی آمیزش تھی جس کے سبب آپ نے اپنے  والد  کے  قتل  کے  بعد ان کی تجارت کو  بطریقہ احسن  سنبھال لیا اور اپنے متفکر  اور  زیرک  ذھن کی بنا پر اپنے سرمایہ کو روز افزوں کرنا شروع کردیا ـ آپ کی تجارت با تجربہ اور با کردار افراد کے توسط سے عرب کے گوشہ وکنار تک پھیلی ھوئی تھی روایت کی گئی ھے  کہ  ”ھزاروں اونٹ آپ کے کار کنان تجارت کے قبضہ مین تھے جو مصر ،شام اور حبشہ جیسے ممالک کے اطراف میں مصروف تجارت تھے“ (۹) جن کے ذریعہ آپ نے ثروت سرشار حاصل کر لی تھی ـ آپ کی تجارت ایسے افراد پر موقوف تھی جو بیرون مکہ جاکر اجرت پر تجارت کے فرائض انجام دے سکیں چنانچہ حضرت ختمی مرتبت  کی ایمانداری ، شرافت ، او ردیانت کے زیر اثر حضرت خدیجہ نے آپ کو اپنی تجارت میں شریک کر لیا اور باھم قرار داد ھوئی اس تجارت میں ھو نے والے نفع اور ضرر میں  دونوں برابر شریک ھوں گے ـ(۱۰) اور بعض مورخین کے مطابق حضرت خدیجہ نے آپ کو اجرت پر کاروان تجارت کا سربراہ مقرر کیا تھا ـ (۱۱)لیکن اس کے مقابل دوسری روایت ھے جس کے مطابق رسول الله اپنی حیات میں کسی کے اجیر نھیں ھوئے ـ (۱۲) بھر کیف حضرت کاروان تجارت کے ھمراہ روانہ شام ھوئے حضرت خدیجہ کا غلام میرہ  بھی آپ کے ساتھ تھا ـ(۱۳) بین راہ آپ سے کرامات سرزد ھوئیں اور راھب نے آپ میں علائم نبوت کا مشاھدہ کیا اور ”میسرہ“کوآپ کے نبی ھونے کی خبر دی ـ (۱۴)تمام تاجروں کو اس سفر میں ھر مرتبہ سے زیادہ نفع  ھوا جب یہ قافلہ مکہ واپس ھوا تو سب سے زیادہ نفع  حاصل کرنے  والی شخصیت خود پیام اکرم  کی تھی جس نے خدیجہ کو خوش حال کردیا اس کے علاوہ میسرہ (غلام خدیجہ ) نے راستے میں پیش آنے والے واقعات بیان کئے جس سے حضرت خدیجہ آن حضرت  کی عظمت و شرافت سے متاثر ھوگئیں ـ
ازدواج

حضرت خدیجہ کی زندگی میں  برجستہ و  درخشندہ ترین  پھلو  آپ  کی حضرت رسالت مآب  کے  ساتھ  ازدواج کی داستان ھے ـ جیسا کہ سابقہ ذکر ھوا  کہ ” حضرت خدیجہ کی تجارت عرب کے ا طراف و اکناف میں پھیلی ھوئی تھی اور آپ کی دولت کا شھرہ  تھا  چنانچہ اس بنا  پر  قریش  کے  دولت مند  طبقہ سے  تعلق  رکھنے  والے  افراد  چندین  بار پیغام  ازدواج  پیش  کر چکے  تھے ، لیکن جن کو زمانہ جاھلیت میں ”طاھره“  کھا جاتا تھا (۱۵) اپنی پاکدامنی اور عفت کی بنا پر سب کو جواب دے  چکی تھیں ـ حضرت جعفر مرتضیٰ عاملی تحریر فرماتے ھیں ”ولقد کانت خدیجہ علیھا السلام من خیرة النساء القریش شرفا واکثر ھن مالا واحسنھن جمالا ویقال لھا سیدةالقریش وکل قومھا کان حریصا ًعلی الاقتران بھا لو یقدر علیھا (۱۶)الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج۲/ص۱۰۷) ”حضرت خدیجہ قریش کی عورتوں میں شرف و فضیلت ، دولت و  ثروت اور حسن و جمال کے اعتبار سے  سب  سے  بلند و بالا تھیں اور آپ کو سیدہ قریش کھا جاتا تھا اور آپ کی قوم کا ھر افراد آپ سے رشتئہ ازدواج قائم کرنے  کا  خواھاں  تھا“ حضرت خدیجہ کو حبالئہ عقد میں لانے کے متمنی افراد میں ”عقبہ ابن ابی معیط “” صلت ابن ابی یعاب “”ابوجھل “اور ”ابو سفیان “جیسے افراد تھے جن کوعرب کے دولتمند اور با حیثیت لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا(۱۷) لیکن حضرت خدیجہ با وجود یکہ اپنی خاندانی اصالت ونجابت اور ذاتی مال و ثروت کی بن اپر  بے شمار  ایسے  افراد  سے  گھری ھوئی تھیں جو آپ سے ازدواج کے متمنی اور بڑے بڑے مھر دے کر اس رشتے کے قیام کو ممکن بنانے کے لئے ھمہ وقت آمادہ تھے ھمیشہ ازدواج سے کنارہ کشی کرتی رھتی تھیں ـ کسی شریف اورصاحب کردار شخص کی تلاش میں آپ کا وجود صحراء حیات میں حیران وسرگرداں تھاـ ایسے عالم میں جب عرب اقوام میں شرافت و دیانت کاخاتمہ ھو چکا تھا، خرافات و انحرافات لوگوں کے دلوں میں رسوخ کر کے عقیدہ و مذھب کی شکل اختیار کر چکے  تھے  خود  باعظمت زندگی گذارنا اور اپنے لئے کسی اپنے ھی جیسے صاحب عز و شرف شوھر کا انتخاب کرن اایک اھم اور مشکل مرحلہ تھا ، ایسے ماحول میں جب صدق و صفا کا فقدان تھا آپ کی نگاہ انتخاب رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر آکر ٹھھر گئی جن کی صداقت و دیانت کا شھرہ  تھا، حضرت خدیجہ نے کم ظرف صاحبان دولت و اقتتدار کے مقابلے میں اعلی ظرف ، مجسمہ شرافت و دیانت اورعظیم کردار کے حامل رسول کو جو بظاھر تنگ دست ، یتیم اور بے سھارا  تھے  ترجیح دے کر قیامت تک آنے والے جوانوں کو درس عمل دے دیا کہ دولت و شھرت اور اقتدار کی شرافت ، عزت اور کردار  کے سامنے کوئی حیثیت نھیں ھےـ  المختصر  برسر  اقتدار افراد کو مایوس کرنے والی ”خدیجہ “ نے باکمال شوق و علاقہ ازطرف خود پیغام پیش کر دیا (۱۸) اور مھر  بھی  اپنے  مال  میں  قرار دیا جس پر حضرت ابوطالب نے خطبئہ نکاح پڑھنے کے بعد فرمایا ”لوگوں گواہ رھنا“”خدیجہ “ نے خود کو محمدصلی الله علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کیا اور مھر  بھی اپنے مال میں قرار دیا ھے اس پر بعض لوگوں نے ابوطالب علیہ السلام پر طنز  کرتے  ھوئے  کھا  یاعجباھ!ا لمھر علی النساء للرجل (تعجب ھے مرد عورت کے مال سے مھر کی ادائیگی کرے )جس پرحضرت ابوطالب نے ناراضگی کا اظھار کرتے ھوئے غضب کے عالم میں فرمایا، ”اذاکانوا مثل ابن اخی ھذاطلبت الرجل باغلی الاثمان وان کانوا امثالکم لم یزوجوا الابالمھر الفالی“ (۱۹)(اگرکوئی مردمیرے اس بھتیجے کے مانند ھوگا توعورت اس کوبڑے بھاری مھر دے کرحاصل کرینگی لیکن اگر وہ تمھاری طرح ھوا تواسکو خود گراںو بھاری مھر دیکر شادی کرناھوگی )ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت نے اپنامھر (جو بیس بکرہ نقل ھواھے) خود ادا کیا تھا (۲۰) اور ایک روایت کے مطابق آپ کے مھر کی ذمہ داری حضرت علی نے قبول کر لی تھی ، حضرت کی عمر کے سلسلے میں تمام مورخین کا اس پر اتفاق ھے کہ حضرت خدیجہ سے آپ نے پھلی شادی ۲۵/سال کی عمر میں کی لیکن خود حضرت خدیجہ کی عمر کے بارے میں کثیر اختلاف وارد ھوا ھے چنانچہ ۲۵،۲۸،۳۰اور ۴۰ سال تک بھت کثرت سے  روایات  وارد ھوئی  ھیں (۲۱) لیکن معروف ترین قول یہ ھے کہ آپ کی عمر شادی کے وقت ۴۰ سال تھیـں (۲۲)
آیاحضرت خدیجہ (ع) رسول سے قبل شادی شدہ تھیں ؟

اس مسئلہ میں کہ آیا رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے حبالہ عقد میں آنے سے قبل حضرت خدیجہ دوسرے افراد کے ساتھ بھی رشتہ مناکحت سے منسلک رھ چکی تھیں یا نھیں تاریخ کے مختلف اوراق پر متعدد  راویوں  کے  اقوال میں کثیر اختلاف  واقع  ھوا ھے  چنانچہ بعض راویوں کے نزدیک رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے شادی کرنے سے قبل حضرت خدیجہ شادی شدہ  تھیں اور سابقہ شوھروں  سے  آپ  کی  اولاد یں بھی ھوئیں تھیں ـ تاریخ کے مطابق آپ کے سابق شوھروں کے نام بالترتیب ”عتیق بن عایذبن عبد اللهفخروی “ اور ”ابوھالہ تمیمی“ ھیں   (۲۳) اس کے علاوہ خود آنحضرت کے  بارے  میں روایت وارد ھوئی ھے  کہ  ”عائشه“ کے علاوہ آپ نے کسی کنواری خاتون سے شادی نھیں کی تھی (۲۴) لیکن یہ تمام روایات جو یہ ثابت کرتی ھیں کہ حضرت خدیجہ شادی شدہ تھیں اور رسول سے قبل بھی دوسرے کی شریک حیات رہ چکی تھیں ،دلائل اور دوسری روایات معتبرہ  کی روشنی میں صحیح نظر نھیں  آتیں ، بلکہ  تمام  تاریخ کو سیاست کے ھاتھوں مسخ کئے جانے کی ناکام کوششوں میں سے ایک کانتیجہ ھیں ـ
تجزیہ وتحلیل

۱)ـ ابن شھر آشوب کا بیان ھے کہ ”مرتضیٰ شامی میں اور ابوجعفر تلخیص میں رقم طراز ھیں کھ ”ان النبی تزوج وکانت عذراء“ (۲۵) نبی نے آپ سے شادی کی درحالیکہ آپ کنواری تھیں“ـ اس کے علاوہ اسی مطلب کی تائید اس روایت سے بھی ھوئی ھے جو ثابت کرتی ھے”ان رقیہ و زینب کانتا ابتی ھالة اخت خدیجہ (۲۶)رقیہ اور زینب خدیجہ کی بھن ھالہ کی بیٹیاں تھیں (نہ کہ خدیجہ کی)ـ ۲)ابوالقاسم کوفی ک ابیان ھے کہ ”خاص و عام اس بات پر متفق ھیں کہ تمام اشراف سر بر آوردہ  افراد  حضرت خدیجہ سے ازدواج  کے  آرزومند  تھے  لیکن خدیجہ کے  بلند  معیار  کے  سامنے  ان  کی  دولت  کی  فراوانی  اور شان  و شوکت ھیچ نظر آتی تھی یھی وجہ تھی کہ حضرت خدیجہ نے سب  کے  رشتوں  کو ٹھکرا دیا تھا لیکن  زمانے  کی حیرت کی اس وقت کوئی انتھا نہ رھی جب اسی خدیجہ نے عرب کے صاحبان مال و زر اور فرزندان دولت و اقتدار کو ٹھکرا کر حضرت رسالت مآب سے رشتہ ازدواج قائم کر لیا جن کے پاس مال دنیا میں سے  کچہ نہ تھا اسی لئے  قریش کی عورتیں خدیجہ سے تحیر آمیز  ناراضگی کا اظھار کرتے ھوئے سوال کر بیٹھیں کہ اے خدیجہ ! تو نے شرفا و امراء قریش کو جواب دے دیا اور کسی کو بھی خاطر میں نہ لائی لیکن یتیم ابوطالب کو جو  تنگ دست و بے روزگار ھے انتخاب کرلیا اس روایت سے  یہ بات واضح ھو جاتی ھے کہ حضرت خدیجہ نے مکہ کے صاحبان دولت و ثروت کو  رد کر دی اتھا اور کسی سے بھی شادی کرنے  پر  آمادہ نھیں تھیں ، دوسری طرف اس روایت کی رد سے جو سابقا ذکر ھوئی آپ کے ایک شوھر ک انام ”ابوھالہ تمیمی “ ھے جو بنی تمیم کا ایک اعرابی تھا، عقل انسانی اس بات پر متحیر  ھوجاتی  ھے  کہ کس طرح  ممکن  ھے  کہ  کوئی اشراف کے پیغام کو ٹھکرا دے اور ایک اعرابی کو اپنے شریک حیات کے طور پر انتخاب کرلے ،علاوہ بر ایں اس سے بھی زیادہ تعجب کا مقام  یہ ھے کہ خدیجہ کے اشراف کو نظر انداز کرکے رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو (جو خاندانی اعتبار سے  بلند  مقام کے حامل تھے ) انتخاب کرنے پر تو قریش کی عورتیں انگشت نمائی کرتی نظر آئیں لیکن ایک اعرابی سے شادی کے خلاف عقل فعل پر، سخن زمانہ ساکت رہ جائے (الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/۲ص/۱۲۳)اس دلیل کی روشنی میں یہ واضح ھو جاتا ھے کہ حضرت خدیجہ نے  رسول  سے  قبل کوئی شادی  نھیں کی تھی اور اگر کی ھوتی تو زمانے کے اعتراضات تاریخ میں محفوظ ھوتے ـ ۳)بعض لوگوں نے حضرت خدیجہ کے شادی شدہ ھونے پر ا س روایت سے استدلال کیاھے کھ”راہ اسلام کا اولین شھید حارث بن ابی ھالہ فرزند حضرت خدیجہ ھے (۲۷) مذکورہ بالا روایت کے مقابلے میں دوسری روایات جن کی سند یں معتبر ھیں ”ابو عمار اور ام عمار“کو اسلام کے پھلے شھید کی صورت میں پیش کرتے ھیں ”ان اول شھید فی الاسلام سمیہ والدہ عمار “ (۲۸) (اسلام کی راہ میں پھلی شھید ھونے والی سمیہ والدہ عمار ھیں )اورابن عباس اورمجاھد کی روایت کے مطابق ”قتل ابوعماروام عماراول قتیلین قتلا من المسلمین“ (۲۹) اسلام کی راہ میں شھید ھونے والے پھلے افراد ابوعمار اور ام عمار ھیں ـ ان روایات سے کاملاً رد ھوتی ھے کہ یہ شخص جس کو حضرت خدیجہ کے بیٹے کی حیثیت سے تاریخ  کے صفحات پر مرقوم کر دیا گیا ھے  اسلام  کی  راہ  میں  قربان ھونے والا پھلا شھید  تھا، لھذا معلوم  نھیں ھے کہ اس شخص کا وجود خارجی تھا  بھی یا نھیں چہ جائیکہ حضرت خدیجہ کا فرزند ھونا پائے ثبوت کو پھنچےـ ۴)،روایات سے معلوم ھوتا ھے کہ حضرت خدیجہ کی ایک بھن تھیں جن ک انام ’ھالۂ تھا اس ھالہ کی شادی ایک فخروی شخص کے ساتھ ھوئی  جس سے ایک بیٹی پیدا ھوئی جس کانام ”ھالھ“ تھا ، پھر اس ھالہ اولی (خواھرخدیجہ  (ع))سے ایک بنی تمیم سے  تعلق رکھنے والے شخص نے شادی کرلی جو ابوھند  کے  نام سے معروف ھےـ اس تمیمی سے ھالہ کے ایک بیٹ اپیدا ھوا جس ک انام ھند تھا اوراس شخص ابوھند تمیمی(شوھر خواھرخدیجہ ) کی ایک اور بیوی تھی جس کی دو بیٹیاں تھیں ’رقیہ ٔ اور ”زینب“ کچہ عرصے کے بعد ابو ھند کی پھلی بیوی جو رقیہ اورزینب کی ماں تھی فوت ھو گئی اور پھر کچہ ھی مدت کے بعد ”ابوھند “بھی دنیا سے رخصت ھوگیا اور اس کابیٹ ا”ھند “ جوھالہ سے تھا اور دو بیٹیاں جو اس کی پھلی بیوی سے تھیں جن کا نام تاریخ ،رقیہ اور زینب ذکر کرتی ھے ”خدیجہ “کی بھن کے پاس باقی رہ گئے جن میں سے ھند اپنے باپ کی موت کے بعد اپنی قوم بنی تمیم سے ملحق ھوگیا اور”ھالہ “(حضرت خدیجہ کی بھن )اور اس کے شوھر کی دونوں بیٹیاں حضرت خدیجہ کے زیر کفالت آگئے ،اور آنحضرت سے آپ کی شادی کے بعد بھی آپ ھی کے ساتھ  رھیں اورآپ ھی کے  گھر میں دیکھا گیا تھا اس لئے عرب خیال کرنے لگے کہ یہ خدیجہ ھی کی بیٹیاں ھیں اور پھر ان کو حضرت سے منسوب کر دیا گیا  لیکن حقیقت امر یہ تھی کہ رقیہ اورزینب حضرت خدیجہ کی بھن ”ھالہ “کے شوھر کی بیٹیاں تھیں ـ (الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/۲ص/۱۲۶) مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ بات پائے ثبوت کو پھنچی ھے کہ حضرت خدیجہ رسول کے حبالئہ عقد میں آنے سے قبل غیر شادی شدہ  تھیں اور آپ کے شوھروں اورفرزندوں کے نام جو تاریخ میں نظر آتے ھیں یا تو کسی غلط فھمی کا نتیجہ ھیں یا سیاست کے ھاتھوں عظمت رسول کو  کم  کرنے کی ایک ناکام کوشش ، مذکورہ دلائل کے علاوہ بھی حلّی اور نقضی جوابات دئے گئے ھیں جو تاریخ کی اس حقیقت سے پردہ اٹھانے والے ھیں لیکن یہ مختصر مضمون ان تمام دلائل اور روایات کا متحمل نھیں ھو سکتا ھے، آپ کی اولاد میں حضرت فاطمہ زھرا کے علاوہ کوئی فرزند زندہ نھیں رھاـ
رسول کی بعثت اورحضرت خدیجہ کاایمان لانا

حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث بہ رسالت ھونے کے بعد  عورتوں میں جس شخصیت  نے  سب سے پھلے آپ کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لائی وہ حضرت خدیجہ کی ذات گرامی ھے (۳۰) طبری نے واقدی سے روایت کی ھے کہ  ”اجتمع اصحابنا علی  ان اول اھل القبلة استجاب لرسول الله خدیجہ بنت خویلد (۳۱) علماء کا اس بات پر اتفاق ھے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی آواز  پر  سب  سے  پھلے  لبیک  کھنے  والی  حضرت خدیجہ کی ذات گرامی ھے ) خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ھے ”و الله لقد امنت بی اذ کفر الناس و اویتنی اذ  رفضنی الناس و صدقتنی اذ کذبنی الناس (۳۲)خداکی قسم وہ (خدیجہ )مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ھوئے تھے اس نے مجھے اس وقت پناہ دی جب لوگوں نے مجھے  ترک کر دیا تھا اور اس نے ایسے موقع پر میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رھے  تھے) حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں ـ لم یجمع بیت واحد یومئیذ فی الاسلام غیر رسول الله وخدیجہ وا نا ثالثھا (۳۳)وہ ایسا وقت تھاجب روئے زمین پر کوئی مسلمان نہ تھابجز اس خاندان کے جو رسول اور خدیجہ پر مشتمل تھا اور میں ان میںکی تیسری فرد تھا )ابن اثیر کابیان ھے :ـاول امراء ةتزوجھا واول خلق اللہ اسلم بالاجماع المسلمین لم یتقد مھاوجل ولاامراء ة“ (۳۴)حضرت خدیجہ پھلی خاتون ھیں جن سے آنحضرت نے رشتئہ ازدواج قائم کیااوراس امر پر بھی مسلمانوں کا اجماع ھے کہ آپ سے پھلے نہ کوئی مرد ایمان لایا اورنہ کسی عورت نے اسلام قبول کیا)ـ
آنحضرت کی حضرت خدیجہ(ع) سے محبت وعقیدت

حضرت خدیجہ کی آنحضرت کی نگاہ میں محبت و عقیدت اورقدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ھے  کہ آپ کی زندگی میں آنحضرت نے کسی بھی خاتون کو اپنی شریک حیات بنانا گوارہ  نھیں کیا (۳۵) آپ کے بارے میں حضرت کاارشاد ھے کہ  ”خدیجہ اس امت کی بھترین عورتوں میں سے ایک ھے (۳۶)آپ کی وفات کے بعد بھی ھمیشہ آپ کو  یاد فرماتے رھے (۳۷) عائشہ کا بیان ھے کہ مجھے رسول صلی اللہ علیہ وآل و سلم کی کسی زوجہ سے اتنا حسد  نھیں ھوا جتنا خدیجہ سے ھوا حالانکہ خدیجہ کی وفات مجھ سے قبل ھو چکی تھی اور اس حسد کا سبب  یہ  تھا کہ آنحضرت آپ کا تذکرہ بھت زیادہ فرماتے تھے (۳۸) چنانچہ یھی سبب ھے کہ دوسر ی جگہ عائشہ سے روایت نقل ھوئی ھے کہ ”ایک روز رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ و سلم خدیجہ کی تعریف فرما رھے تھے مجھے حسد  پیدا ھوا اور میں  نے  عرض کی  یا  رسول اللہ خدیجہ ایک ضعیفہ کے علاوہ کچہ بھی نھیں تھی جو  مرگئی اور خدا نے آپ کو اس سے بھتر عطا کردی ھے (عائشہ کااشارہ اپنی طرف تھا) رسول صلی الله علیہ وآلہ و سلم یہ سن کر ناراض ھو گئے(۳۹) اورغضب کے عالم میں فرمایا ”لاوالله ماابد لنی اللھ خیر امنھااٰمنت بی اذکفر الناس وصدقتنی اذکذبنی الناس وواستنی بھالھااذحرمنی الناس ورزقنی منھاالله ولدادون غیرھامن النساء“(۴۰)خدا کی قسم خدانے مجھکو اس سے بھتر عطانھیں کی وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ھوئے تھے اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھکو جھٹلارھے تھے اوراس نے اپنے مال کے ذریعہ میری اس وقت مدد کی جب لوگوں نے مجھے ھر چیز سے محروم کردیاتھا اورخدانے صرف اسی کے ذریعہ مجھے اولاد عطافرمائی اورمیری کسی دوسری بیوی کے ذریعہ مجھے صاحب اولاد نھیں کیارسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اس جواب سے آنحضرت کی حضرت خدیجہ کیلئے محبت اورعقیدت واحترام کااندازہ ھوتاھے ـخدیجہ کااسلام کیلئے اپنااورسب کچہ قربان کرکے بھی اسلام کی نشرواشاعت کاجذبہ ھی تھاجس نے اسلام کودنیاکے گوشہ وکنار تک پھنچنے کے مواقع فراھم کئے اوریھی سبب تھاکہ ”حضرت نے آپ کوخداکے حکم سے جنت کی بشارت دیدی تھی “عائشہ سے مسلم نے روایت نقل کی ھے کہ ”بشر رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم بنت خویلد ببیت فی الجنة “(حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے خدیجہ سلام الله علیھاکو جنت کی بشارت دی تھی ) (۴۱) حضرت خدیجہ اور ابوطالب رسول کے دو ایسے مدافع  تھے جن کی زندگی میں کفار قریش کی طرف سے آپ کو  کوئی  گزند  نھیں  پھنچا لیکن رسول کے  یہ دونوں جانثار ایک ھی سال بھت مختصر  وقفہ سے  یکے  بعد  دیگرے  دنیا سے رخصت ھو گئے  اور روایات کے مطابق رسول پر دونوں مصیبتیں ھجرت سے تین سال قبل اور شعب ابی طالب سے باھر آنے کے کچہ روز بعد واقع ھوئیں (۴۲)رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا(۴۳) اور یہ  مصیبت  رسول  کے لئے اتنی سخت تھی کہ رسول خانہ نشین ھو گئے اور آپ نے حضرت خدیجہ اور ابوطالب کی وفات کے بعد باھر نکلنا بھت کم کردیا تھا(۴۴)ایک روز کسی کافر  نے آپ کے سر  پر خاک ڈال دی رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں گھر میں داخل ھوئے آپ کی زبان پر یہ کلمات تھے ”مانالت منی قریش شیا اکرھہ حتی مات ابوطالب“(۴۵) قریش ابوطالب کی زندگی میں مجھکوکوئی گزند نھیں پھنچا سکے) آپ حضرت ابوطالب اورخدیجہ کی زندگی میں اطمینان سے تبلیغ میں مصروف رھتے تھے ـ خدیجہ گھر کی چھار دیواری میں اور ابوطالب مکہ کی گلیوں میں آپ کے مدافع تھے ۔ حضرت خدیجہ جب تک زندہ رھیں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اطمینان و سکون کا سبب بنی رھیں دن بھر کی تبلیغ کے بعد تھک کر چور اور کفار  کی  ایذا رسانیوں سے شکستہ دل ھوجانے والا رسول جب بجھے ھوئے دل اور پژمردہ چھرے کے ساتھ  گھر میں قدم رکھتا تو  خدیجہ کی ایک محبت آمیز مسکراھٹ رسول کے مرجھائے ھوئے چھرے کو پھر سے ماہ تمام بنا دیا کرتی  تھی ، خدیجہ کی محبتوں کے زیر سایہ کشتی اسلام کا ناخدا عالمین کے لئے رحمت بن کر دنیا کی ایذا رسانیوں کو  بھلاکر  ایک  نئے جوش و جذبے اور ولولے کے ساتھ  ڈوبتے ھوئے ستاروں کا الوداعی سلام اورمشرق سے سر ابھارتے ھوئے سورج سے خراج لیتا ھوا ایک بار پھر خانہ عصمت وطھارت سے  باھر آتا اور باطل کو لرزہ بر اندام کرنے والی لاالہ الاالله کی بلند بانگ صداؤں سے مکہ کے در و دیوار ھل کر رہ جاتے کفارجمع ھوتے رسول پر اذیتوں کی یلغار کر دیتے لیکن انسانیت کی نجات اور انسانوں کی اصلاح کا خواب دل میں سجائے رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم خوشاآیند مستقبل کے تصور میں ھر مصیبت کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے رھے اورآپ کے اسی صبر  و  تحمل اورآپ کی پاکدامن زوجہ کے تعاون اور جانثاری سے آج ھم مسلمانان جھان پرچم توحید کے علمبردار رسول کے اس خواب اصلاح کو شرمندہ  تعبیر کرنے کے لئے آپ کے اس آخری جانشین کے انتظار میں سرگرداں ھیں جو زمین کو عدل و انصاف سے پر کردے گا ـ

 

۱ـ صحیح مسلم /۴۴/۷۶/۲۴۳۵، ترمذی کتاب مناقب حدیث /۳۹۰۱، کنز العمال ح/ ۱۳/ص/۶۹۳ ۲ـ اسد الغابہ ج/۵ ص / ۴۳۸ ، مسلم فضائل صحابہ / ۳۴۳۷ ، البدایہ و النھایہ ج/ ۳ ص / ۱۵۸ ۳ـ بحار ج/ ۱۶ ص/ ۱۲ ، اسد الغابہ ج/ ۵ ص / ۴۳۹ ۴ـ طبقات ابن سعد ج/ ۱ ص /۸۸ ۵ـسیرة ھشام ج/ ۴ ص / ۲۸۱ ،  الاصابہ ج / ۴ ص / ۲۸۱،طبری ج / ۳ ص / ۳۳ ۶ـالبدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۲۶۲ ۷ـ سیرة حلیہ ج / ۱ ص / ۱۳۱ ، طبقات ابن سعد ج/ ۱ ص / ۸۶ ، حیات النبی و سیرتہ ج / ۱ ص / ۶۰ ۸ـ سیرة ھشام ج/ ۱ ص / ۲۵۹ ۹ـ البدایہ و النھایہ ج/ ۲ ص / ۳۶۲ ، سیرة ھشام ج / ۱ ص / ۳۳۸ ۱۰ـ بحار ج / ۱۶ ص / ۲۲ ۱۱ـ البدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۲۵۸ ۱۲ـ البدء و التاریخ ج / ۲ ص / ۴۷ ۱۳ـ تاریخ یعقوبی ج / ۱ ص / ۳۷۶ ۱۴ـ بدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۳۵۸ ، طبری ج / ۲ ص / ۲۰۴ ۱۵ـ الکامل فی التاریخ ج/ ۱ ص / ۴۷۲ ، دلائل النبوة ج / ۲ ص / ۶۶ ۱۶ـ سیرة حلبیہ ج / ۱ ص / ۱۳۵ ، البدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۳۵۸ ، الکامل فی التاریخ ج / ۱ ص / ۴۷۲ ۱۷ـ السیرة النبویہ (دحلان ) ج / ۱ ص/ ۹۲ ۱۸ـبدایہ والنھایہ ج/ ۲ ص / ۳۵۸، بحار الانوار ج/ ۱۶ ص / ۲۲ ۱۹ـبحار الانوار ج/ ۱۶ ص / ۲۲ ۲۰ـ سیرة حلبیہ ج / ۱ ص /۱۴۰ ، طبری ج/ ۲ ص / ۲۰۵ ۲۱ـ  الصحیح من سیرة النبی ج / ۲ ص / ۱۱۲ ـ۱۱۳ ، بحار الانوار ج / ۱۶ ص / ۱۴ ۲۲ـسیرہ ھشام ج / ۱ ص ۲۲۷ ۲۳ـالبدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۳۶۰ ، البدء و التاریخ ج/ ۲ ص / ۴۸ ۲۴ـسیرہ حلبیہ ج / ۱ ص /۱۴۰، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/ ۲ ص / ۱۱۵ ۲۵ـفروغ ابدیت ج/ ۱ ص / ۱۹۸ ۲۶ـ  سیرہ حلبیہ ج / ۱ ص/ ۱۴۰ ۲۷ـ طبری ج / ۳ ص / ۳۶ ۲۸ـمناقب آل ابیطالب ج / ۱ ص / ۲۰۶ ، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج / ۲ ص / ۱۲۲ ۲۹ـمناقب آل ابیطالب ج / ۱ ص / ۲۶ ۳۰ـ  الاصابہ ج / ۱ ص / ۲۹۳ ۳۱ـ الاصابہ ج / ۴ص /۳۳۵ ، اسد الغابہ ج / ۵ ص / ۴۸۱ ، حیاة النبی ج /۱ ص / ۱۲۱ ۳۲ـ  الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/ ۲ ص ۱۲۵ ۳۳ـ الانساب الاشراف ج / ۲ ص / ۲۳ ، الاصابہ ج / ۸ ص /۹۹ ، سیرة ھشام ج / ۱ ص / ۲۷۷، طبری ج/ ۲ ص / ۲۳۲ ـ ۲۲۱ ۳۴ـ تاریخ طبری ج / ۲ ص / ۲۳۲ ۳۵ـبحار الانوار ج / ۱۶ ص / ۱۲ ، اسد الگابہ ج / ۲ ص / ۴۳۹ ۳۶ـ نھج البلاغہ ( خطبہ قاصعہ ) ۳۷ـ اسد الغابہ ج / ۵ ص / ۴۳۴ ۳۸ـ البدء و التاریخ ج / ۲ ص / ۴۸ ، اسد الغابہ ج/ ۵ ص / ۳۶۰ ۳۹ـ الاصابہ ج / ۸ ص /۱۰۱ ، اسد الغابہ ج/ ۵ ص / ۴۳۱ ، سنن ترمذی کتاب مناقب / ۳۸۸۶ـ

متعلقہ مضامین

Back to top button