مقالہ جات

ملا منصور ہلاکت سے وصیت تک: تحریر: عرفان علی

امریکی صدر باراک اوبامہ نے دنیا کو بتایا کہ افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کو پاکستان کی حدود کے اندر امریکی محکمہ دفاع کے ڈرون طیارے نے میزائل حملہ کرکے ہلاک کر دیا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم کو اس حملے کے سات گھنٹے بعد امریکی حکام نے فون کرکے آگاہ کیا۔ بقول نواز شریف صاحب کے پاکستانی وقت کے مطابق رات ساڑھے دس بجے جون کیری نے انہیں فون کیا تھا۔ پاک ایران سرحدی شہر تفتان سے کوئٹہ جانے والی مرکزی سڑک پر ایک کار کو نشانہ بنایا گیا جو جل کر تباہ ہوگئی۔ اس میں سے دو لاشیں ملیں، ایک ڈرائیور اعظم کے نام سے شناخت کرلی گئی۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے مطابق دوسری لاش کی شناخت نہیں ہوسکی ہے اور سائنسی و قانونی طور پر وہ یہ تصدیق کرنے سے قاصر ہیں کہ دوسری لاش ملا منصور کی تھی۔ دلچسپ اور حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ حکام کو جائے وقوعہ سے ایک پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی ملا ہے، جو کسی محمد ولی ولد شام محمد کا ہے اور جس کا موجودہ پتہ سہراب گوٹھ کراچی میں بسم اللہ ٹیرس کا فلیٹ ہے اور مستقل پتہ صوبہ بلوچستان کا علاقہ قلعہ عبداللہ ہے، جو افغانستان کی سرحد پر واقع ہے اور چمن اس ضلع کا صدر مقام ہے۔ وہاں کے قدیم رہائشی کا کہنا ہے کہ اس نام کا کوئی شخص اس نے نہیں دیکھا۔ سوشل میڈیا پر منچلوں نے یہ شوخ تبصرہ کیا کہ پس ثابت ہوا کہ پاکستان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بم پروف ہے، میزائل پروف ہے۔ یعنی کار جل کر تباہ ہوگئی، لاشیں جل گئیں، لیکن پاسپورٹ اور شناختی کارڈ محفوظ رہے!

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز اور وال اسٹریٹ جرنل نے اس ڈرون حملے کی تفصیلات اور اندرونی کہانی پر مبنی رپورٹس دی ہیں۔ 24 مئی کو صفحہ اول پر شایع ہونے والی نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ پر یقین کر لیا جائے تو حقیقت یہ ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستانی حکام کی جانب سے ایک حد تک اس حملے میں امریکا کے ساتھ تعاون کیا گیا تھا۔ امریکی صدر نے کئی ہفتوں قبل ملا منصور کو ہدف بنانے کی اجازت دی تھی۔ اس اتھارٹی کے تحت جوائنٹ اسپیشل آپریشنز کمانڈ نے تیزی سے کام شروع کیا۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے پاکستانی حکام کو کئی ہفتوں قبل آگاہ کر دیا تھا کہ ملا منصور کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔ پاکستان کی جانب سے ملا منصور کی لوکیشن اور سرگرمیوں کے بارے میں عمومی معلومات دی گئیں اور یہ کم معلومات بھی امریکا کی نظر میں پاکستان کی جانب سے غیر متوقع پلٹاؤ تھا، اپنی اس پالیسی سے جو اس نے ملا منصور کے سلسلے میں کئی برسوں سے روا رکھی ہوئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق امریکا کا دباؤ تھا کہ پاکستان طالبان پر کریک ڈاؤن کرے اور پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں یہ احساس بڑھ رہا تھا کہ ملا منصور بہت زیادہ آزاد اور کم اہم ثابت ہو رہا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس کی نسبت سراج الدین حقانی شاید زیادہ تابعدار تھا، اسی نکتے کے پیش نظر پاکستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے شاید امریکا کا ساتھ دیا۔

اگر یہ مان لیا جائے کہ ملا منصور محمد ولی کے پاسپورٹ پر سفر کیا کرتا تھا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور ایران کیوں جاتا رہا؟ وہاں اس کی کیا سرگرمیاں رہیں؟ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق اس کی فیملی ایران میں رہتی تھی، جس سے ملاقات کے لئے گیا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق وہ علاج معالجے کے لئے ایران گیا تھا کیونکہ وہ اپنی بیماری کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن دبئی اور بحرین کے سفر کے بارے میں مغربی ذرایع ابلاغ بھی پاکستانی میڈیا کی طرح خاموش ہیں۔ بعض مفروضہ سازوں کی نظر میں ایران کو اس قضیے میں بھی گھسیٹنے کی کوشش کی گئی۔ ایک بقراط سلیم صافی جیو نیوز پر ایران کے کردار پر انگشت نمائی کرتے نظر آئے تو میں نے ساتھ بیٹھے صحافی دوست سے کہا کہ اس کو بتاؤ کہ ایران نے ملا منصور کا ویزا نہیں جاری کیا تھا بلکہ ایک ایسے شخص کو جاری کیا تھا، جس کے پاسپورٹ پر اس کا نام محمد ولی لکھا ہوا تھا، اس لئے اگر ایران کہتا ہے کہ ملا منصور ایران نہیں آیا تو درست ہی کہتا ہے، اس پر سوال کی گنجائش نہیں بنتی۔ اگر پاسپورٹ پر نام منصور اختر ہوتا تو سوال کیا جاسکتا تھا۔ کیا سلیم صافی متحدہ عرب امارات اور بحرین کے شیوخ سے یہ سوال نہیں پوچھیں گے کہ انہوں نے ملا منصور کو ویزا کیوں دیا؟ خیر، ہم ان حکومتوں کے بارے میں بھی یہی کہیں گے کہ انہوں نے بھی محمد ولی کو ویزا جاری کیا۔

اصل میں یہ سوال تو طالبان کے ہمنواؤں سے پوچھا جانا چاہیے کہ طالبان رہنماؤں کو علاج یا کسی بھی کام سے ایران جانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ کیوں پاکستانی میزبانوں پر اعتماد نہیں کر رہے؟ پورا پاکستان داؤ پر لگا کر افغان طالبان کی میزبانی کرنے والوں پر اعتماد نہ کرنے کی کوئی وجہ بھی تو بیان کریں اور ایران پر اعتماد کرنے کی بھی تو کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہئے؟ ان تکفیریوں کی نظر میں ایران کب سے مسلمان ہوگیا؟ کیا ان کی حکومت تسلیم کرنے والے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر بھی انہیں اعتماد نہیں کہ اپنی فیملی کو وہاں رکھیں یا وہاں سے اپنا علاج کروائیں؟ اور یہ اعتماد کب اور کیوں ختم ہوا؟ ترکی اور قطر جہاں انہیں دفاتر کھولنے کی اجازت دی گئی، وہاں کیوں اپنے خاندان سمیت مقیم نہیں ہوجاتے اور وہاں کیوں اپنا علاج نہیں کرواتے؟ امریکا کے دست نگر طفیلی حکمرانوں کی میزبانی سے آخر ملا منصور کو کیا شکایت تھی؟ یہ سوالات تو ملا منصور کے حامیوں سے اور ایران کے کردار پر اس حوالے سے شکوک و شبہات ظاہر کرنے والوں کو دینا چاہئے۔ ایران نے تو ماضی میں گلبدین حکمتیار کی بھی میزبانی کی اور اعلانیہ کی تھی۔

بہرحال طالبان اور القاعدہ کے سرکردہ افراد کی موت کا اعلان امریکا ہی کرتا ہے، خواہ وہ اسامہ بن لادن ہو یا ملا عمر یا ملا منصور۔ مطلب یہ کہ اب ملا منصور نام کے آدمی کا کردار ختم ہوا۔ اب اس ڈرامے میں مولوی ہیبت اللہ کا کردار سامنے آرہا ہے۔ طالبان پر مزید کیا لکھا جائے، ابھی اس طویل ڈرامے کی کتنی قسطیں چلیں گی، یہ ڈرامہ ساز ہی جانتے ہیں۔ لیکن یہاں قارئین کی دلچسپی کے لئے ملا منصور کی بعض فرضی وصیتیں نقل کر دوں جو بی بی سی اردو پر نامور مصنف محمد حنیف نے تحریر کی ہیں: ملا منصور کی وصیت: ’’جب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ آپ سے کہے کہ آپ ہمارے معزز مہمان ہیں، اس دن سے اپنی وصیت لکھنی شروع کر دینا۔ کوئٹہ سے کبھی گاڑی کرائے پر مت لینا۔ خلیفہ ملا عمر کی روایت پر عمل کرتے ہوئے موٹر سائیکل پر سفر کرنا، طبعی عمر پاؤ گے بلکہ شہادت کے کئی سال بعد بھی لوگ زندہ ہی سمجھیں گے۔ پاکستان کے دفاعی تجزیہ نگاروں سے بچ کر رہنا، اگر ڈرون سے بچ گئے تو یہ دانشور چوم چوم کر مار دیں گے۔ جب تک آپ زندہ ہیں، آپ کو تاریخ کا سب سے بڑا جنگجو کہیں گے، شہادت کے بعد کہیں گے کہ امن کی آخری امید دم توڑ گئی، اچھے خاصے مجاہد کو گاندھی بنا دیں گے یہ دفاعی تجزیہ نگار۔ یہ جو پاکستان کے علماء و مشائخ اور غائبانہ نماز جنازہ پڑھانے والی پارٹیاں ہیں، ان سے بھی ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ ساری عمر آپ کے کانوں میں شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن گنگناتے رہیں گے، جب وقت شہادت آئے گا تو ان کی گنگا جمنی تہذیب جاگ اٹھے گی اور کہیں گے نہیں حضور پہلے آپ!‘‘

متعلقہ مضامین

Back to top button