مقالہ جات

ملت کے عقلمند افراد

تحریر: سید عارف رضا زیدی۔

ملت تشیع پاکستان عرصہ دراز سے شیعہ دشمن قوتوں سے نبردآزما ہے جسکے نتیجےمیں آئے روز ملک کے طول و عرض میں شیعہ علماء، پروفیشنلز، بزنس مینز، ڈاکٹرز، وکلاء، پروفیسرز،  اور عام مومنین حکومتی و اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں کبھی کالعدم تنظیمیوں تو کبھی پولیس قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں قتل کیے جاتے ہیں۔

بات صرف شیعوں کے قتل عام تک ہی محدود نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے میں ملت تشیع سے تعلق رکھنے والے اور زندہ بچ جانے والے افراد کو مختلف معاشی، سماجی و تعلیمی استحصال کا بھی مسلسل سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلا ایک شیعہ اگر نوکری کے لیے انٹرویو دینے جائے تو وہ اپنی سی وی پر اس خوف سے اپنا پورا نام (سید، زیدی، نقوی، رضوی، کاظمی وغیرہ) اس خوف سے نہیں لکھتا کہ کہیں اسے اسکے شیعہ ہونے کی بنیاد پر اس نوکری سے محروم نہ کر دیا جاۓ۔۔۔ اسی طرح اگر کوئی شیعہ فیملی کرائے پر گھر حاصل کرنا چاہے تو اسے یہ کہہ کر انکار کر دیا جاتا ہے کہ ہم شیعوں کو گھر کرائے پر نہیں دیں گے۔۔۔ دیگر مثالیں اسکے علاوہ ہیں۔۔۔
 
تاریخ ملت تشیع پاکستان میں اس ظلم و زیادتی، معاشی و معاشرتی استحصال اور قتل عام کے خلاف مفتی جعفر اور علامہ عارف حسین الحسینی جیسے باعمل علماء اٹھے جنہوں نے ملت تشیع کو اپنی قیادت کے زریعے ان تمام مسائل اور ظلم و زیادتی کے خلاف قیام کرنے کا حوصلہ دیا اور وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔  لیکن علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت کے بعد سے ملت تشیع ایک بار پھر پر عزم اور با ہمت قیادت سے محروم ہو گئی اور شہید قائد کے بعد آنے والے قائدین نے مصلحت پسندی کی پالیسی اپنائی جسکے نتیجے میں ملت تشیع پاکستان ایک بار پھر نا امیدی اور بے اعتمادی سے دوچار ہوئی جبکہ پاکستان میں شیعہ نسل کشی پہلے سے کئی زیادہ شدت و منصوبہ بندی کے ساتھ پھر شروع ہو گئی لیکن ملت کے عقلمند افراد مصلحت پسندانہ پالیسیوں کو ہی آگے بڑھاتے رہے لیکن ان مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور صدائے حق بلند کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔

اسی دوران ملت اور اسکے قائدین کی لاچاری کو دیکھتے ہوئے کچھ باعمل علماء ہمت و حوصلے کے ساتھ دوبارہ اٹھے اور شہید قائد کے عظم کو دہراتے ہوئے انکے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس ملک میں موجود ملت تشیع کے تمام دشمنوں کو ایک بار پھر للکارا اور ان دشمنوں کے خلاف اپنی ملت کو قیام کرنے کی ہمت و حوصلہ دوبارہ عطا کیا اور وہ قائدین اس عمل میں خود سب سے آگے آگے رہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب ان دشمنوں نے کوئٹہ کے مومنین کو اپنے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا تو وہی باعمل علماء آگے آئے اور ملت کی توانائیوں کو ایک سمت دیتے ہوئے ایک ملک گیر احتجاجی تحریک میں بدل ڈالہ جس کے نتیجے میں اس وقت کی موجودہ حکومت کو ملت تشیع پاکستان کے سامنے جھکنے پر مجبور ہونا پڑا اور اس وقت کے یزیدی وزیراعلی کو اپنی صوبائی حکومت سمیت گھر جانا پڑا۔۔۔۔ یوں ملت تشیع پاکستان نے متحد ہو کر عرصہ دراز کے بعد شہداء کی عظمت کے توسل سے عصر کی یزیدی قوتوں کے خلاف ایک بار پھر کامیابی حاصل کی اور اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔

لیکن اس طاقت و قوت کو دیکھ کر دشمن تو دشمن مگر اپنی ملت کے بھی کچھ عقلمند افراد گھبرا گئے اور اپنی ساکھ کمزور ہوتا دیکھ کر اس عوامی وحدت و طاقت کو کمزور کرنے کے لئے ایک بار پھر میدان میں وارد ہو گئے جیسے شہید قائد کے زمانے میں کچھ عقلمند افراد وارد ہوئے تھے۔ اسکے بعد ملت کے مختلف حلقوں میں کنفیوژن کی ایک عجیب لہر پیدا کی گئی جسکے نتیجے میں ملت کے افراد آپسی اختلاف رائے کا شکار ہوئے اور یوں ہمارا دشمن ہمارے عقلمند دوستوں کے زریعے ہمارے درمیان اختلاف ایجاد کرنے میں کامیاب رہا۔

اسکے بعد اد ملک میں کوئی بھی سانحہ ہوا ملت پھر سے اس طرح متحد نظر نہیں آئی جیسے ماضی قریب میں سانحہ کوئٹہ کے بعد متحد نظر آئی تھی۔ اب ہر سانحہ کے بعد ہماری ملت کے کچھ عقلمند افراد اختلافات کا نیا پنڈورہ باکس لے کر ملت کے درمیان اتر جاتے ہیں جسکے نتیجے میں ملت پھر کنفیوز ہو کر میدان عمل میں اترنے کی بجائے گھروں میں بیٹھا زیادہ مناسب سمجھتی ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ملت تشیع کے خلاف سانحات کا تسلسل جاری ہے مگر ملت ہے کہ اپنے اوپر کیے جانے والےان مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے سے بھی قاصر ہے۔

ملت کی یہ غیر یقینی صورتحال دیکھتے ہوئے ملت کے دردمند عالم مبارز اور شہید قائد کے روحانی فرزند علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب نے اعلان کیا کہ اب ہم ملت کو تکلیف دینے کی بجائے ملت کے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف خود پر مصیبت و تکلیف برداشت کریں گے اور احتجاجاً بھوک ہڑتال میں بیٹھیں گے۔

آج ناصر ملت کی اس بھوک ہڑتال کا چوتھا دن ہے۔۔۔۔ حالانکہ اس دردمند اور شفیق قائد کو شوگر اور دل کا عارضہ درپیش ہے لیکن پھر بھی اس عالم با عمل نے چار روز سے ایک لقمہ بھی اپنے حلق سے نییچے نہیں اتارا اور اپنی ملت سے وفا کرتے ہوئے اپنے وعدے پر قائم ہے۔

اس پر بھی ملت کے کچھ عقلمند افراد کہتے ہیں کہ ان بھوک ہڑتالی کیمپ سے کچھ حاصل نہیں اب یا تو دھرنا دو یا پھر دشمن کے خلاف ہتھیار اٹھا لو۔۔۔۔۔!!! ویسے بھی بھوک ہڑتال کا یہ عمل اپنے جسم کو تکلیف دینے کے سوا کچھ نہیں اور یہ عمل غیر شرعی ہے۔۔۔۔!!

 عحیب بات ہے۔۔۔!! جب یہ علماء دھرنا دیتے تھے تب ملت کے یہی عقلمند افراد فرماتے تھے کے روز روز دھرنے دینا ملت کو تکلیف دینا ہے۔۔۔ اور آج جب ناصر ملت نے ملت کو کہا کے آپ لوگ گھر جائیں میں مصیبت و سختی اپنے اوپر برداشت کروں گا۔۔۔ تو اب ملت کے وہی عقلمند افراد فرماتے ہیں کے بھوک ہڑتال سے کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔۔!!

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جو عقلمند افراد ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اسلحہ اٹھانے کی بات کر رہے ہیں انہیں اتنی توفیق تو ہے نہیں کہ کچھ روز اپنے بدن پر بھوک ہڑتال کی سختی برداشت کرتے ہوئے احتجاج ہی کر لیں۔۔۔۔ وہ عقلمند افراد جو ملت تشیع پاکستان پر ہونے والے مظالم کے خلاف پُر امن احتجاج کے لیے تو میدان میں آ نہیں سکتے وہ خون کیا خاک بہائیں گے ؟؟؟

رہی بات بھوک ہڑتال کی شرعی حیثیت کی تو جس جہاد کا حکم اللہ نے قرآن میں دیا ہے کیا وہ خود کو تکلیف میں ڈالنا نہیں ؟؟؟ یا ہم جو عزاداری کرتے ہیں وہ خود کو تکلیف دینا نہیں ؟؟؟ تو ایسے جہاد و عزاداری کی کیا شرعی حیثیت باقی رہ گئی ؟؟؟

لہذا ملت ایسے عقلمند افراد سے ہوشیار رہیں جو کوفی عورتوں کی طرح مَردوں کو میدان عمل اترنے سے روکنے کے لیے مختلف ہیلے بہانے کرتے ہیں۔ لہذا میری اپیل ہے کہ خدارا ملت تشیع پاکستان وقت کی اس کربلا میں حق کے سفیر کا بھرپور ساتھ دیں۔۔۔ تاکہ کوفہ کی تاریخ کو دوبارہ دہرایا نہ جا سکے۔

میری ملت کے ان تمام عقلمندوں سے معدبانہ گزارش ہے کہ برائے مہربانی اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اپنے کردار کو عمل کے ترازو میں تولیں پھر کوئی مشورہ دیں۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ قول و فعل کا تضاد ختم کرنے کے بعد انکی بات میں کچھ تاثیر اور وزن پیدا ہو جائے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button