اوریا صاحب کے خواب
تحریر: تحریر: قسور عباس
فوڈ پوائزننگ بڑا موذی مرض ہے، اچانک سے لگتا ہے اور انسان کو نڈھال و بے حال کر دیتا ہے۔ اچانک کا لفظ میں نے مرض کے اظہار کے وقت کے اعتبار سے لکھا, حالانکہ اس مرض کا سبب وہ وقت ہے جب انسان بے ہنگم الا بلا کھاتا ہے اور بڑے سکون سے کھاتا چلا جاتا ہے۔ یہ بات مجھ پر گذشتہ دنوں منکشف ہوئی کہ فوڈ پوائزننگ کی مانند انسان کو معلومات پوائزننگ بھی ہوسکتی ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو ہمارے محترم کالم نویس جناب اوریا مقبول جان کا گذشتہ دنوں کا کالم بعنوان ’’بھارت، امریکہ، ایران ہدف بلوچستان‘‘ مطالعہ فرما لیں۔ حضرت نے اس کالم میں معلومات کو یوں اگلنا شروع کیا جیسے فوڈ پوائزننگ کا مریض زہریلی خوراک کو اگلتا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ فوڈ پوائزننگ اور معلومات پوائزننگ میں ایک فرق بھی ہے، وہ یہ کہ فوڈ پوائزننگ کا مریض ہر کھائی ہوئی چیز اگل دیتا ہے، تاہم معلومات پوائزننگ کا مریض وہی اگلتا ہے، جو وہ اگلنا چاہتا ہے۔ کالم کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اوریا مقبول جان صاحب ایک لمحہ بھی صبر نہ کر پائے، جیسے ہی انہیں معلوم ہوا کہ بھارتی ایجنسی کا جاسوس ایران کی سرحد سے پاکستان داخل ہوتے ہوئے پکڑا گیا اور یہ بھی کہ وہ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں کاروبار کر رہا تھا تو ان کی بلوچستان سرحد اور ایران کے حوالے سے تمام تر معلومات یک لخت امڈ آئیں اور انہوں نے اپنے نہایت علمی مضمون میں ایرانی حکومت کی اس داستان میں مداخلت کے محل بنانے شروع کر دیئے۔
وہاں سے پیٹرول سمگل ہوتا ہے، اونٹ پالے ہوئے ہیں، انہیں افیم کھلائی جاتی ہے، وہ سرحد پار کرکے کسی گودام میں گھس جاتے ہیں، ان پر کوئی سوار نہیں ہوتا، اسی لئے سرحد پر مرے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ آگے چلیں ایرانی بلوچوں کی یہ حیثیت ہے کہ وہ سمگلر سے آگے نہیں بڑھ سکتے، انہیں کوئی بڑا عہدہ نہیں دیا جاتا۔ پاکستان سے مفرور اور قاتل بھی ایران انہی سرحدوں سے جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان سے لے کر ملک کے چپے چپے کے لوگ وہاں کیسے جاتے ہیں۔ زائر کون ہیں اور دوسرے لوگ کون۔ اوریا مقبول جان صاحب تھوڑا سا صبر کرتے تو انہیں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا یہ بیان سننے کا موقع مل جاتا کہ میرے اس مشن میں ایرانی حکومت اور ادارے ملوث نہیں ہیں تو حضرت کو اتنی زحمت سے نہ گزرنا پڑتا۔ اسی بے صبری اور پھٹ پڑنے کا نام معلومات پوائزننگ ہے۔ موقع ملا نہیں اور مرضی کی باتیں اگلنا شروع کر دیں۔ اس طرح کی تحریر اور لکھاری کی کیا وقعت اور حیثیت رہ جاتی ہے، جو حالات کے حتمی شکل اختیار کرنے سے قبل ہی پھٹ پڑے اور اپنے ذہن میں کئے ہوئے فیصلوں اور نظریات کو اگلنے لگے۔
محترم اوریا مقبول جان نے بالکل بھی نہ سوچا کہ ایران پاکستان تعلقات کس نہج پر ہیں، خطے کے حالات کیا ہیں۔ ہمارے تعلقات میں کچھ رکاوٹیں ہیں تو انہیں کیسے دور کیا جاسکتا ہے۔ میری یہ تحریر ان تعلقات پر مثبت اثر ڈالے گی یا منفی بس جو اندر تھا وہ اگلنا شروع کر دیا۔ انھوں نے یہ تو مانا کہ ایران نے ہمیں سب سے پہلے ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے قبول کیا، یہ بھی مانا کہ بھارت کے ایران سے سفارتی تعلقات 1950ء میں شروع ہوئے، یہ بھی تذکرہ فرمایا کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات طالبان حکومت کے قیام کے بعد خراب ہوئے، تاہم مضمون میں مجموعی طور پر یہ تاثر دیا گیا کہ ایران، امریکہ اور بھارت مل کر بلوچستان پر نظریں جمائے ہوئے ہیں اور تینوں ممالک کسی خفیہ معاشقے کے تحت پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارت اور امریکہ سے ہمیں اس رویہ کی توقع ہے، تاہم ایران کو اس معاشقے کا حصہ بنانا تاریخی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اوریا مقبول جان صاحب 65ء کی جنگ میں پانچ ہزار ٹن تیل پاکستان کو آگ لگانے کے لئے نہیں بلکہ بھارت کے خلاف جنگ کے لئے دیا گیا تھا، اسی طرح نرسیں، میڈیکل سٹاف نہ صرف یہ، بھارت پر جنگ کے دوران تیل کی ترسیل پر پابندی پاکستان کی دشمنی میں نہیں لگائی گئی تھی۔ اسی طرح 71ء کی جنگ میں ایران کی جانب سے فوجی و سفارتی مدد تاریخ میں رقم ہے۔ اب ذکر بلوچستان کے معاشقے کا، نہ جانے کب اوریا صاحب نے یہ خواب بنا، جو انہوں نے اپنے کالم میں تحریر فرمایا۔ حالانکہ تاریخ کہتی ہے کہ جب بھی بلوچستان میں عسکری تحریکیں چلیں، خواہ جس کی ایما پر بھی چلیں، ایران وہ واحد ملک ہے، جس نے ان تحریکوں کو کچلنے میں پاکستان کا عملاً ساتھ دیا۔
73ء کے بلوچستان آپریشن میں حکومت ایران نے پاکستان کو عسکری مدد مہیا کی، جس میں 30 کوبرا ہیلی کاپٹڑ بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ایران نے پاکستان کو انٹیلیجنس شئیرنگ کے علاوہ 200 ملین ڈالر کی امداد بھی مہیا۔ شاہ ایران نے پاکستانی حکومت کو بحالی کے کاموں میں مدد کے علاوہ سستے نرخوں پر تیل کی فراہمی کی بھی پیشکش کی۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک لاکھ پاکستانی اور ایرانی فوجیوں نے مل کر 74ء سے 78ء تک کی بلوچ عسکری تحریک کو کچلنے کے لئے کام کیا۔اوریا مقبول جان صاحب کے بقول اب یہی ایران پاکستان کے صوبہ بلوچستان پر نظریں جمائے ہوئے ہے اور بھارت و امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ ہمارے دانشوروں کو آج تک یہی واضح نہیں کہ کون ہمارا دوست ہے اور کون ہمارا دشمن۔ بھارت تو چلو کھلا دشمن ہے، تاہم امریکا بہادر کو کبھی ہم دوست کہتے ہیں اور کبھی دشمن۔ اسی طرح امریکا بہادر کے دوستوں اور دشمنوں کے بارے میں ہم اسی طرح کے مخمصے کا شکار ہیں۔
تاریخ دان جانتے ہیں کہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد ایران سے ہماری سفارتی دوری کا سبب یہی مخمصہ رہا ہے۔ ایران امریکا کو اپنا کھلا دشمن تصور کرتا ہے اور ہماری امریکا نیز اس کے حواریوں سے دوستی ایران کو نہیں بھاتی۔ یہی سبب ہے کہ وہ ہمارے بجائے بھارت سے قریب تر ہوتا چلا گیا۔ 9/11 کے حملوں کے بعد بش ایران کو Axis of Evil قرار دیتا ہے اور تصور یہ کیا جا رہا تھا کہ اگلا نشانہ ایران ہوگا۔ اس وقت پاکستان امریکی اتحاد کا حصہ بنا، یوں دوریاں مزید بڑھیں۔ اس کے باوجود وقت کے ساتھ ساتھ تعلقات میں پھر سے بہتری آئی اور ایران و پاکستان خطے کے مختلف مسائل کے حوالے سے قریب آنے لگے۔ اتنے اختلافات کے باوجود یہ امر ایک حقیقت ہے کہ ایران سے ہمیں ویسا خوف نہیں جیسا ہمیں بھارت سے رہتا ہے۔ تاہم ہم جان بوجھ کر اپنے جنوبی بارڈر پر بھی ایسا ہی خوف پیدا کرنے کے درپے ہیں۔
جہاں تک ایران کی سرحد پر ہونے والی سمگلنگ اور افراد کے آنے جانے کا سوال ہے تو یہ معاملہ تو یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ہزاروں افراد یورپ، امریکا اور آسٹریلیا انہی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے آتے جاتے ہیں۔ کئی لوگوں کا کاروبار انہی سرگرمیوں سے وابستہ ہے۔ یورپ اور امریکا اگر اس مسئلہ کو اب تک کنڑول نہیں کرسکے تو ایران، پاکستان سے کیا شکوہ کرنا، جہاں سرحد کے دونوں جانب ایک ہی نسل کے لوگ آباد ہیں۔ اگر ایران کی سرحدیں اتنی ہی محفوظ ہوتیں تو وہ جنداللہ کے جنگجوؤں کو اپنے علاقوں میں داخل ہونے سے روکتا۔ عبدالمالک ریگی اور اس کے گروہ کے کئی افراد متعدد بار انہی سرحدوں سے گذر کر ایران و پاکستان آتے جاتے رہے۔ اب کوئی شخص یہ کہے کہ عبدالمالک ریگی اور اس کے گروہ کے افراد پاکستانی اور ایرانی مرزبانوں کی ملی بھگت سے سرحدیں پار کرتے تھے تو یہ حقائق سے لاعلمی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔