مقالہ جات

نیشنل ایکشن پلان، داعش کی حقیقت اور افواج کا عزم

سپہ سالار افواج پاکستان جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کا آخری مرحلہ شروع کر دیا جائے، شمالی وزیرستان کے وہ علاقے جہاں افواج پاکستان کی رسائی نہیں تھی، وہ گھنے جنگل اور تنگ گھاٹیاں جہاں سے دہشت گرد افغانستان آتے جاتے ہیں، ان کو تباہ کر دیا جائے، دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی کوئی بڑا سانحہ رونما ہوتا ہے تو ملکی میڈیا کا گرم موضوع دہشت گردی، آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان پر حکومتی عمل درآمد ہو جاتا ہے، ہر ایک اپنی بساط اور معلومات کے مطابق رائے زنی کر رہا ہوتا ہے، بہت کم لوگ ان گہرائیوں کو سامنے لاتے ہیں، جو اس موضوع کا اصل خاصہ کہی جاسکتی ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف اعلان کردہ حکومتی نیشنل ایکشن پلان اور حکومت کی سنجیدگی، افواج پاکستان کے عزم اور اس کے تحت پیدا ہونے والے حالات نیز دہشت گردوں کی روز بروز بڑھتی کھلی سرگرمیاں ان دنوں ہر ایک ٹاک شو، مضامین، اداریوں اور اجلاسوں کا موضوع بنے ہوتے ہیں مگر جب راوی چین لکھ رہا ہو تو ہم سب بھول گئے ہوتے ہیں کہ ملک میں نیشنل ایکشن پلان لاگو ہے اور آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔

قارئین بخوبی آگاہ ہیں کہ جب دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تو یہ نیشنل ایکشن پلان جو بیس نکاتی تھا، بڑی شد و مد کیساتھ پارلیمنٹ سے منظور کروایا گیا۔ یہ بیس نکاتی پلان دہشت گردی کے خاتمے کی نوید اور امید بنا کر پیش کیا گیا، کوئی شک نہیں کہ افواج پاکستان نے اس حوالے سے گراں قدر خدمات سرانجام دیں اور اپنی قربانیوں کے ذریعے دہشت گردوں کو شدید نقصان پہنچایا، دہشت گردوں پر فضائی و اسٹرٹیجیک حملے کئے گئے اور ان کی قیادت، ان کے مراکز تربیتی اور ان کے گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں میں بڑے بڑے آپریشن کئے اور بہت سے علاقے دہشت گردوں سے آذاد بھی کروائے، جہاں پہلے ہماری افواج جا نہیں سکتی تھیں وہاں سے دہشت گردوں کو نکال باہر کیا، مگر اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان میں جو اعلان کئے گئے تھے، ان پر عمل درآمد کے حوالے سے بہت سے چیلنجز کو ابھی تک چھیڑا بھی نہیں گیا اور اگر کچھ عمل درآمد ہوا ہے تو وہ افواج پاکستان کی کارکردگی یا دلچسپی کے پہلو دکھائی دیتے ہیں، حکومت کی طرف سے ابھی تک اس سنجیدگی کا مظاہرہ سامنے نہیں آیا، جس کا تقاضا تھا، شائد یہی وجہ ہے کہ جن دہشت گردوں کی کمر توڑنے کی بات کی جا رہی تھی، وہ اکچھ ہی عرصہ کے بعد نمودار ہوتے ہیں اور پھر اپنی پوری قوت کا اظہار کرتے ہیں، اپنی موجودگی سے مطلع کرتے ہیں اور خوف و دہشت کی فضا ایک بار پھر تن جاتی ہے۔

ہمارے حکمران چاہے ان کا تعلق مرکزی حکومت سے ہو یا صوبائی حکومتوں سے، سرے سے ہی اس بات کے انکاری ہیں کہ پاکستان میں سفاک گروہ داعش وجود رکھتا ہے، یہ بہت ہی عجیب اور ناقابل یقین بات ہے، اس لئے کہ یہاں مسلسل ایسے شواہد اور خبریں سامنے آرہی ہیں کہ یہ سفاک گروہ اپنی تمام تر سفاکیت کیساتھ وجود رکھتا ہے اور اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے پھر نجانے کیوں حکمرانوں کی طرف سے اس سے انکار کیا جاتا ہے۔؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ سب کے سب یہ چیلنج قبول کریں، جو اس وقت اس خطے کو درپیش ہے۔ داعش جو افغانستان اور پاکستان سمیت علاقے کے دیگر ممالک اور ریاستوں کیلئے چیلنج بن کے سامنے آ رہی ہے، ہماری وفاقی حکومت ہو یا پنجاب و سندھ کی حکومتیں ہمیشہ سے اس سفاک تنظیم کے وجود سے انکار کرتی آئی ہیں، جبکہ گذشتہ دو برس سے مسلسل اس حوالے سے خبریں میڈیا کی زینت بنتی آ رہی ہیں۔ داعش کے بارے قارئین کو بتاتے چلیں کہ اس کے وجود کا اظہار بنوں، میانوالی اور کراچی و کوئٹہ میں وال چاکنگ کے بعد سامنے آیا تھا، بنوں جو وزیرستان سے منسلک اور جڑا ہوا ہے، یہاں ابوبکر بغدادی کی بیعت کے اعلان پر مشتمل وال چاکنگ کی گئی۔

اگرچہ داعش تمام تر سفاکیت، اسلام دشمنی اور اسرائیلی مفادات کی نگران ہونے کی واضح حکمت عملیوں اور کارروائیوں کے باوجود سپاہ صحابہ اور طالبانی فکر سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے مسلسل اس تنظیم کو خوش آمدید کہا جا رہا تھا، مگر مجال ہے اس بات کا کسی نے نوٹس لیا ہو، کوئی ایجنسی حرکت میں آئی ہو، کسی پر ایف آئی آر کاٹی گئی ہو، جبکہ اس کے مقابل ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر کوئی ناپسندیدہ کام کرنے کی پاداش میں ملک بھر میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص سینکڑوں پرچے شیعہ نوجوانوں پر کاٹے گئے، سخت دفعات لگا کر انہیں جیلوں میں پھینکا گیا۔ کل تک پنجابی طالبان کے وجود کا انکار کرنے والی نون لیگ کی پنجاب حکومت داعش کے وجود کی بھی انکاری رہی اور ادھر ملک بھر میں اس تنظیم کی چاکنگ سامنے آتی رہی اور مقامی انتظامیہ اپنی جان چھڑوانے کیلئے لوکل میڈیا کو اس حوالے سے خبریں بلیک آؤٹ کرنے کی منت سماجت کرتی، دیواروں پر چونا پھروا دیا جاتا اور یہ تاثر دیا جاتا کہ داعش کا وجود نہیں ہے، یہ بھی کہا جاتا کہ یہ کسی کے ذاتی جذبات ہوسکتے ہیں مگر دانا کہتے ہیں کہ ریت میں سر چھپانے سے حقیقت کہاں چھپ سکتی ہے۔ حکمران جتنا بھی بات کرنے سے گریزاں رہیں، یہ سفاک تنظیم ہوا میں تحلیل نہیں ہوسکتی تھی۔ سیانے کہتے ہیں کہ قالین کے نیچے گرد چھپانے سے حقیقت کو چھپایا نہیں جا سکتا، مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے، جو بہرحال سامنے آجاتا ہے۔

یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ دہشت گرد تنظیموں اور ان حساس ایریاز کی خبریں عالمی میڈیا نشر کرتا ہے، جہاں پاکستان صحافیوں کی پہنچ نہیں ہوتی اور عالمی میڈیا نے ہی سب سے پہلے یہ خبر دی کہ داعش کرم ایجنسی اور ہنگو کے ایریاز میں بھرتی کر رہی ہے اور اس نے بڑی تعداد میں تربیت یافتہ لوگ بھرتی کر لئے ہیں۔ اس دوران تحریک طالبان سے وابستہ اہم ترین کمانڈرز نے بھی ملا عمر سے الگ ہونے اور ابوبکر بغدادی کی بیعت کرنے کا اعلان کیا۔ ایک ویڈیو پیغام میں ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان شاہد اللہ شاہد، خالد خراسانی اور حافظ سعید سابق کمانڈر و ترجمان نے طالبان سے الگ اپنا نیا دھڑا داعش کے نام سے بنانے کا اعلان کیا۔ ادھر گوانتا نامو بے میں امریکیوں کے پاس کئی سال تک قید رہنے والے ملا عبدالرؤف نے افغانستان میں داعش کا پرچم لہرایا اور ہلمند میں افغان طالبان سے جھڑپیں بھی کیں، کئی اہم علاقوں پر داعش نے افغانستان میں قبضہ بھی کیا۔ ادھر پاکستان میں حافظ سعید جس کا تعلق اورکزئی سے بتایا جاتا ہے، کو پاکستان و افغانستان کیلئے ترجمان کے طور پر سامنے لایا گیا۔ ویڈیو میں کئی اہم افغان کمانڈرز کو بھی دکھایا گیا کہ وہ بیعت کر رہے ہیں۔ شائد اس طرح اپنی طاقت و قوت کا اظہار کرنا تھا۔

داعش نے افغانستان کے شمالی صوبے ننگرہار اور ہلمند میں اپنی قوت کو مضبوط کیا۔ اس کے بعد یہ خبر آئی کہ افغانستان و پاکستان کیلئے داعش نے ابو محمد العدنی کو کمانڈر مقرر کیا ہے، اس سے بھی قبل پاکستان میں داعش کے سربراہ کے حوالے سے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے خبر دی تھی کہ یوسف السلفی پاکستان میں اس کا سربراہ ہے، جو یہاں بھرتیاں کر رہا ہے۔ بعد ازاں لاہور کے نواحی ایریا سے یوسف السلفی کو دو دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار بھی کر لیا گیا تھا، معلوم نہیں اس کا کیا بنا۔ سانحہ صفورا میں پکڑے جانے والے دہشت گرد عبداللہ منصوری کا تفتیشی افسران کو یہ کہنا ہے کہ عبداللہ یوسف عرف ثاقب داعش کا سربراہ ہے، جو شام سے پاکستان نیٹ ورک چلانے کیلئے آیا، وہ لوگ ان کے ساتھ رابطے میں تھے جبکہ کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کے مطابق زبیر الکویتی نامی بندہ اپنے سات دیگر ساتھیوں سمیت افغانستان کے راستے پاکستان آئے ہیں، ان میں ایک انڈین سعید الاسلام بھی ہے، جو داعش کے مالیات کو دیکھتا ہے۔ ان لوگوں نے کالعدم لشکر جھنگوی، اہل سنت والجماعت، طالبان، جماعت الاحرار اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے روابط کرکے تنظیم کو مضبوط کرنے اور سفاکانہ کارروائیاں کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

یاد رہے کہ ہندوستان کے کرناٹک ایریا سے بنگلور سے تعلق رکھنے والا ایک آدمی 2014ء میں گرفتار کیا گیا تھا، یہ شخص داعش کا ٹویٹر اکاؤنٹ چلاتا تھا اور اہم خبریں انگریزی میں نشر کرتا تھا، اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس خطے میں اس منحوس، سفاک و دہشت پسند گروہ کا وجود بہت پہلے سے ہی تھا، یہ الگ بات کہ ہمارے حکمران اب بھی اس کا انکار ہی کرتے نظر آرہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے، اس کا جواب شائد ہی مل سکے۔ یہ بات ہر پاکستانی جانتا ہے کہ یہاں جتنی بھی دہشت گرد تنظیمیں داعش سے قبل کام کر رہی تھیں، وہ سب کی سب یا تو دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتی تھیں یا ایک جماعت جسے اقوام متحدہ، امریکہ اور پھر پاکستان حکومت نے بھی کالعدم قرار دیا، وہ لشکر طیبہ ہے، جس کا تعلق سلفی تحریک سے ہے۔ افغانستان کی روس سے جنگ اور بعد ازاں مقبوضہ کشمیر میں جہادی سرگرمیوں کے آغاز تک تو اس شعبے میں صرف دیوبندی مکتب فکر کا راج تھا، مگر کشمیر کا جہاد شروع کیا گیا تو لشکر طیبہ بھی اس فہرست میں سامنے آگئی اور یہ بات ہر ایک جانتا ہے کہ لشکر طیبہ بہت جلد اپنے نظریات و عقائد کیساتھ اس افق پر دیگر تنظیموں سے نمایاں نظر آنے لگی۔ یہی وہ دور تھا جب پس پردہ قوتوں کی طرف سے جہادی ماحول میں سلفیت کو پروان چڑھانے اور اس پر دست شفقت رکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس سے قبل افغانستان کے صرف ایک محدود خطے کنڑ میں ایک سلفی جہادی مولانا جمیل الرحمن کا نام محدود طور پہ لیا جاتا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ یہی وہ شخص تھا، جس نے سب سے پہلے اپنے مخالفین کے سر کاٹنے کا آغاز کیا اور اس کا بانی کہلایا۔ اسی فکر کو کشمیر میں لشکر طیبہ نے رواج دیا اور ایک دن یہ خبر آئی کہ لشکر طیبہ کا فلاں مجاھد ایک انڈین فوجی کا سر کاٹ کے پاکستان لے آیا۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جہادی ماحول میں دیوبندیت اور سلفیت کا راج تھا اور انہیں ہی اپنے ٹریننگ کیمپس چلانے کی آزادی تھی۔ یہ کیمپس جنرل مشرف کے آنے پر محدود ہوگئے، اب خود سوچیں کہ گیارہ برس تک روس کے خلاف برسر پیکار رہنے اور جہادی تربیت گاہوں سے گذر کے آنے اور پھر دس برس (1989ء تا 1999ء) تک مسلسل کشمیر کی وادیوں میں تربیت لینے والے ان گنت نوجوانوں اور تنظیموں کی کھیپ کو، جب جنرل مشرف آئے تو انہیں محدود کرنے کا خیال آیا، مگر سب جانتے ہیں کہ مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے سے قبل ہی کارگل کا معرکہ سامنے آیا تھا اور ہم نے انہی تربیت یافتہ جہادیوں کا سہارا لیا، انہی کا نام استعمال ہوا اور دنیا کو یہی بتایا گیا کہ یہ مجاہدین کشمیر ہیں، جو کارگل میں داخل ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ اس دور میں طالبان کا کوئی نیٹ ورک نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کا کام یہی وہ نام نہاد مجاہدین کرتے تھے، ان نام نہاد مجاہدین نے ملک کے گوش و کنار میں فرقہ وارانہ قتل عام اور اقلیتوں کو تہہ تیغ کیا، ان کے شر سے اہل سنت محفوظ رہے نہ اہل تشیع، مسیحی بچ سکے اور نہ ہی قادیانی، مسجدیں نمازیوں کے خون سے رنگین ہوئیں، عبادت گاہیں بارود کے دھماکوں سے لرز اٹھیں، مزارات اولیاء کو ویران کیا گیا۔

ملک کا قیمتی اثاثہ پروفیسرز، علماء، اساتذہ، ڈاکٹرز، دانشور، سیاستدان، بیوروکریٹ الغرض ہر طبقہ فکر کے لوگ ان کے نشانے پر رہے، یہ لوگ کہیں باہر سے نہیں آتے تھے بلکہ ہماری ہی سوسائٹی کا حصہ ہوتے تھے، ہمارے ہی شہروں، دیہاتوں اور محلوں کے رہنے والے ہوتے تھے، ان لوگوں نے تو ہمارے محلوں میں ہی دفاتر اور کیمپس قائم کئے ہوئے تھے، جہاں کھلے عام اسلحہ کی تربیت کیلئے بھرتیوں کے اشتہارات لگائے جاتے تھے۔ جس طرح داعش و النصرہ فرنٹ نے القاعدہ کی کوکھ سے جنم لیا ہے، ایسے ہی پاکستان بھر میں کام کرنے والی دہشت گرد تنظیموں نے بھی اسی کوکھ سے جنم لیا ہے، ہمارا تو ہمیشہ ہی سے یہی موقف رہا ہے کہ القاعدہ، طالبان، لشکر جھنگوی، جیش محمد، حرکت الانصار، حرکت المجاھدین، الفرقان، خدام الاسلام، جنداللہ، الگ تنظیمیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی ہیں، ایک ہی نظریہ، ایک ہی سوچ، ایک ہی ہدف، ایک ہی طریقہ کار، نام بھلے الگ بھی ہو جائیں تو فرق نہیں پڑتا۔ ہم پہلے دن سے یہی کہتے تھے، بہت سے لوگ نہیں مانتے تھے، اب مان گئے ہیں۔ اسی طرح ہم آج یہ کہتے ہیں کہ داعش اور طالبان اور دیگر تمام گروہ ایک ہی ہیں، ان میں فرق نہیں، اگر کوئی فرق ہے تو وہ نام کا ہے، بس داعش عراق و شام میں ذرا زیادہ سفاک واقع ہوئی ہے، جبکہ اس کا سفاکانہ کردار یہاں طالبان کے نام سے ادا ہوتا آ رہا ہے، ہم تو کم از کم اس سے ناواقف نہیں۔

کیا کرم ایجنسی میں گلے نہیں کاٹے گئے؟ کیا لوگوں کو زندہ جلایا نہیں گیا؟ کیا لوگوں کو مار کے ان کی لاشوں کیساتھ فٹ بال نہیں کھیلے گئے؟ کیا یہ سارے سفاکانہ کام کم عمر بچوں سے نہیں کروائے جاتے رہے؟ داعش کے آنے کا خطرہ اپنی جگہ اہم ہے، حکمرانوں کو اس حوالے سے یقیناً اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے، مگر ہمارے لئے یہ کچھ بھی نیا نہیں، نہ تو یہ لوگ نئے ہیں اور نہ ہی یہ کردار و عمل، ہمیں کسی سے ڈرنا نہیں، اپنا کام کرنا ہے، حکومت اپنا کام کرے۔ نیشنل ایکشن پلان کے نام پر ہمیں دھوکہ نہ دے، قوم کو لوریاں دینا چھوڑ دے، حقائق کا سامنا کرے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ داعش اس ملک اور یہاں کے عوام اور اداروں کیلئے خطرہ ہے تو اس سے ایسے ہی نمٹے جیسے عراق والے نمٹ رہے ہیں، جیسے شام والے ان کا صفایا کر رہے ہیں۔ حکومت جس قومی ایکشن پلان پر عمل کرنے کی پابند ہے، اس کے مطابق پاکستان میں کالعدم قرار دی گئی تنظیموں اور ان کے سربراہان کو نام بدل کر کام کرنے کی اجازت نہیں ہے، مگر کونسی تنظیم ہے جس کو کام کرنے سے روکا گیا ہے؟ کون سا رہنما ہے جسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا ہے؟ لشکر طیبہ آج فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اور جماعت الدعوہ بنی ہوئی ہے، اس کے نام سے بینرز قومی شاہراہوں پر لگتے ہیں، ایسی شاہراہوں پر جہاں جمہوری، سیاسی جماعتوں کو بینر آویزاں کرنے کی اجازت نہیں، اگر کوئی لگا دے تو دن چڑھنے سے پہلے اتار دیئے جاتے ہیں۔

سپاہ صحابہ و لشکر جھنگوی اہل سنت والجماعت کے نام سے کھلے عام کام کر رہے ہیں، ان کی نشر و اشاعت ہوتی ہے، ان کے سوشل میڈیا پر تعصبات بھرے اکاؤنٹ چل رہے ہیں، ان کے قائدین ٹی وی شوز میں جا رہے ہیں، ان کو دارالحکومت میں نیشنل ایکشن پلان کی دھجیاں اڑانے کی اجازت ہے، کس کو علم نہیں کہ جس بھی دہشت گرد گروہ چاہے وہ القاعدہ ہو یا طالبان، داعش ہو یا النصرہ فرنٹ ہر ایک کو پنیری فراہم کرنے والا یہی گروہ ہے۔ افرادی قوت کیلئے سب سے بڑا یہی پلیٹ فارم ہے، جسے سب ہی استعمال کرتے ہیں، جس طرح ایک زمانہ میں جہادی گروہ جماعت اسلامی سے پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنے اندر جذب کرتے تھے، اگرچہ اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے، مگر اب تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیز میں حزب التحریر کے نیٹ ورک نے بڑے بڑے پروفیسرز اور اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان عالمی دہشت گرد گروہوں کو فراہم کئے ہیں۔ حزب التحریر پر بھی پابندی ہے، مگر حیران کن بات یہ ہے کہ ان کے لٹریچر کی تقسیم، تشہیر اور بھرتی جاری ہے۔ یہ کالعدم گروہ بھی عالمی سطح پر خلافت کا داعی ہے اور عملی طور پر القاعدہ کا ہی ہم فکر ہے۔ افواج پاکستان سمیت اہم سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں اس نے اپنے ہم فکر پیدا کئے اور تبلیغاتی نظام وضع کیا ہوا ہے، شام میں بھی اس کی سرگرمیاں اور مسلحانہ کارروائیاں بہت عرصہ سے جاری تھیں، پاکستان میں اس تنظیم کا ترجمان نوید بٹ نامی شخص سامنے آیا تھا۔ بعد میں بریگیڈیئر علی خان نامی شخص کو بھی گرفتار کیا گیا تھا، جس کی سرگرمیاں افواج پاکستان میں ملکی مفاد کے خلاف جاری تھیں۔

داعش جس سے سب خطرہ محسوس کر رہے ہیں، حکومت جس کے وجود سے انکاری ہے اور ہمارے ہمسائے جس کی سرحد سے لاکھوں لوگ بلا روک و ٹوک ہمارے ملک میں داخل ہوتے ہیں اور ادھر سے ادھر جاتے ہیں، وہاں اس تنظیم نے باقاعدہ اپنے وجود کا اظہار کیا ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کے افغان طالبان کیساتھ لڑائی لڑی ہے اور کئی طالبان کو اپنے سفاکانہ انداز میں قتل کرکے باقاعدہ ویڈیو جاری کی۔ اس کے باوجود ہمارے حکمران اس کے وجود سے انکاری ہی ہیں، مگر اب جب سارا میڈیا چیخ چیخ کے کہہ رہا ہے اور ان ثبوتوں کو بھی پیش کر رہا ہے، جو اس گروہ کے وجود کو ثابت کرتے ہیں تو شائد حکمران بالخصوص وزیر داخلہ اور پنجاب میں وزیر قانون تسلیم کر لیں، اب یہ حکومتی آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ ہاں چند سو لوگ اس میں شامل ہوئے ہیں۔ ذرا دیکھیں کہ ابوبکر بغدادی کی بیعت کرنے والی خواتین پاکستان سے اپنے بچوں کو لیکر گھر بار چھوڑ کر شام پہنچ جاتی ہیں۔ ان میں سے گذشتہ ماہ، کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ کے چھاپے اور اس عورت کے خاوند سے ملنے والی معلومات کو اگر سچ سمجھا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ تنظیم جس کے وجود سے ہی انکار کیا جا رہا تھا، کس قدر سرایت کرچکی ہے۔ خواتین کا ایک گروہ جس میں فرحانہ، بشریٰ چیمہ اور ریحانہ شامل ہیں، اپنے بچوں کیساتھ شام منتقل ہوئی ہیں۔

یہ لوگ الہدیٰ نامی تنظیم چلا رہے تھے، جس کے بارے رانا ثناءاللہ بڑے ہی خوش کن خیالات کا اظہار فرما رہے تھے، ادھر پنجاب کے ہی شہر ڈسکہ سے بھی گذشتہ ماہ آٹھ لوگوں کا ایک گروہ پکڑا گیا ہے، جو شام جانے کی تیاریوں میں تھا اور دھر لیا گیا، اس گروہ کا رابطہ معاویہ نامی شخص سے تھا، جبکہ اس خاندان کا تعلق ماضی میں جماعت الدعوہ سے بھی رہا ہے، بعض خبروں کے مطابق اسلام آباد کے امیر امیر منصور اور عبداللہ ناصر جو سندھ کے امیر ہیں، کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ کاؤنٹر ٹیرر ازم کراچی کے افسران نے کچھ ہی عرصہ پہلے یہ کہا تھا کہ انہوں نے داعش کیلئے کام کرنے والی ایسی خواتین کا گروہ پکڑا ہے، جو تنظیم کیلئے چندہ جمع کرتی تھیں، کچھ ہی دنوں قبل پاراچنار جو ہنگو سے آگے کرم ایجنسی کا صدر مقام ہے، کے علاقے جالندھر میں داعش کے پمفلٹ تقسیم کئے گئے اور اہل تشیع کو دھمکایا گیا۔ ادھر گلگت کے کچھ ایریاز میں بھی داعش کی وال چاکنگ کی گئی۔ یاد رہے کہ پاکستان کے کئی قبائلی علاقوں جو افغانستان کے ساتھ ملتے ہیں، میں داعش کے ریڈیو خلافت کی نشریات سنی جا رہی ہیں، جس کے ذریعے لوگوں کو داعش میں شمولیت کے علاوہ ان میں خوف و ہراس بھی پیدا کیا جاتا ہے۔

افغانستان سے نشر ہونے والے ریڈیو خلافت کو پشتو اور دری زبان میں چلایا جا رہا ہے، داعش کا یہ پراپیگنڈہ حربہ عراق و شام میں کافی کارگر ثابت ہوا تھا، یہ سب کچھ یہاں بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے حکمران ایک طرف ایک تنظیم کے وجود سے ہی انکاری ہیں اور دوسری طرف اس تنظیم سے وابستہ دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو پورے ملک سے گرفتار کیا جا رہا ہے، انتظامیہ اور میڈیا کو مراسلے بھی جاری کئے جا رہے ہیں، یہ سب حکمرانوں کی غیر سنجیدگی اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنے کی نیت اور جذبہ کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمران جان بوجھ کے آنکھیں چراتے رہے، اسلام آباد کے لال مسجد کے مولوی عبدالعزیز اور ان کی بیوی کیساتھ طالبات نے برملا ویڈیو پیغامات اور اپنے بیانات میں داعش سے اپنے تعلق کو واضح کیا اور برملا اعتراف کیا، اس کے بعد کوئی گنجائش نہیں رہتی تھی، مگر وزیر داخلہ نے اسمبلی کے فلور پر جھوٹ بولا اور یہ کہا کہ اس کے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں ہے، کیسے گرفتار کیا جائے؟ وزیر داخلہ کایہ جھوٹ بھی پکڑا گیا، اس لئے کہ ایف آئی آر سامنے آگئی، جسے سینیٹ کے اراکین نے ریکارڈ میں جمع کروایا اور جواب بھی طلب کیا ہے، عجیب بات تو یہ ہے کہ حکمران مولوی برقعہ پوش کی منت سماجت کر رہے تھے کہ ہماری عزت رکھ لو اور عدالت سے ضمانت کروا لو، تاکہ اسمبلی کے فلور پر جا کر جواب دیا جاسکے، اس کو کہتے ہیں نیشنل ایکشن پلان۔

ایک طرف نیشنل ایکشن پلان، آپریشن ضرب عضب اور دوسری طرف ملک بھر میں کالعدم گروہوں بالخصوص داعش جیسی سفاک تنظیم کا پھیلتا نیٹ ورک اوپر سے حکمرانوں کی طوطا چشمی بلکہ بند آنکھیں ملک کے مستقبل اور نیشنل ایکشن پلان کی حقیقت اور حکومت کی سنجیدگی کو ظاہر کر رہے ہیں۔ اس سے اہل پاکستان کو نتیجہ نکال لینا چاہیئے کہ نیشنل ایکشن پلان کا انجام کیا نکلے گا اور وہ جو آئے روز یہ سنتے رہتے ہیں کہ دہشت گردوں کو آہنی ہاتھوں سے کچل دیا جائے گا، اس میں کون کچلا جائے گا۔ اگر حکومت کا یہی حال رہا اور وہ اسی چال کے ساتھ دہشت گردوں کا پیچھا کرتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب داعش ہر اس جگہ اپنا جھنڈا کھل کے لہرائے گی، جہاں جہاں کالعدم گروہ سپاہ صحابہ کے یونٹس ہیں، اگر کالعدم سپاہ صحابہ کے جھنڈے اب تک لگے ہوئے ہیں تو یہ کوئی مشکل بھی نہیں ہے۔ داعش کو عالمی سطح پر آل سعود نے ہی پالا پوسا اور مضبوط کیا، جو نواز حکومت کے نہ صرف بہت ہی قریب ہیں بلکہ ان کے بھرپور مالی مددگار بھی ہیں اور موجودہ حکمرانوں کے دوسرے بہت ہی قریبی اردوگان کی حکومت اسے سب سے زیادہ سپورٹ فراہم کی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نواز حکومت اپنے ان دوستوں جن سے مالی مفادات حاصل کئے جا رہے ہیں، کو راضی رکھنے کیلئے یہ کھیل کھیل رہی ہے اور پاکستان و اہل پاکستان کے ساتھ ظلم کر رہی ہے، ماضی میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے کہ ایک ووٹ کیلئے دہشت گردی کے ہزاروں مجرموں کو جیلوں سے باعزت بری کر دیا جاتا تھا، جو جیلوں سے رہا ہو کر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے تھے۔

ہمارے خیال میں یہ سب ہماری مسلح افواج کی نظروں کے سامنے ہو رہا ہے اور دہشت گردی کے خلاف ان کے اقدامات اور قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ہمارے فوجی جوان آج جن حالات سے گذر رہے ہیں، وہ سب کے سامنے ہے، اگر افواج پاکستان کی قربانیوں کی یہی لاج ہے کہ دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کیلئے چھوڑ دیا جائے اور ان کو پھیلنے سے روکنے کی بجائے انہیں پورے ملک میں مضبوط ہونے دیا جائے، تاکہ کسی اے پی ایس پر یلغار ہوتی رہے، کسی باچا خان یونیورسٹی میں مستقبل کے سرمائے کو چھین لیا جائے، کسی مسجد، کسی امام بارگاہ کو نمازیوں اور عبادت گذاروں کے خون سے رنگین کرسکیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے سینیٹ کی کمیٹی میں یہ بیان دیا ہے کہ پاکستانی افواج نے ضرب عضب کے ذریعے حقانی نیٹ ورک کو بہت پیچھت دھکیل دیا ہے، جو بہت حوصلہ افزا ہے۔ حقانی نیٹ ورک ہھی ہمارے لئے بہت بدنامی کا باعث بنتا آیا ہے، اب ایسا اب نہیں ہونا چاہیئے، آپریشن ضرب عضب کو گھنے جنگلوں، تنگ وادیوں، بلند چوٹیوں، غاروں اور پہاڑی دروں سے آگے اب شہروں میں دہشت گردوں کے اصل ہمدردوں، سہولت کاروں اور مددگاروں نیز سیاسی سرپرستوں تک بڑھایا جانا چاہیے، یہی نیشنل ایکشن پلان کی اصل روح ہے۔۔۔!

متعلقہ مضامین

Back to top button