مقالہ جات

ترکی، روس تنازع پر وسعت اللہ خان کی اہم تحریر

فلم یشونت میں نانا پاٹیکر کا یہ ڈائیلاگ کس کس نے نہیں سنا؟
’’ سالا ایک مچھر آدمی کو ہیجڑہ بنا دیتا ہے‘‘ ۔۔۔
ترکی اور روس کے درمیان تازہ ترین دشنام طرازی کے میچ کے تناظر میں جملہ کچھ یوں ہو گا ’’سالا ایک طیارہ…‘‘ ۔

وہ روسی بمبار ایس یو ٹوینٹی فور جو بشار الاسد کے مخالف ترکمان باغیوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کے مشن کے دوران شام میں گھسی ہوئی دس کلو میٹر کی ترک چونچ پر سے صرف سات سیکنڈ میں گزر جاتا اسے ترکوں نے مار گرایا۔ طیارے کا ملبہ شامی علاقے میں گرا لیکن یہ ملبہ دراصل ترک روس رقابتی تعلقات پر گرا ہے اور اب یہ حال ہے کہ ترکی روس سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہا ہے اور روسی صدر ولادی میر پوتن کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردوں کے ساتھی (رجب طیب اردگان) نے دراصل روس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔

ترکی کہتا ہے کہ طیارے کو پانچ منٹ میں دس بار وارننگ دی گئی کہ اپنا رخ جنوب کی طرف کرو۔ جب ایسا نہیں ہوا تو ترک فضائیہ کے ایف سولہ کو مجبوراً روسی بمبار پر میزائل داغنا پڑا۔ روس نے فیصلہ کیا ہے کہ آیندہ بمباروں کو مشن پر تنہا نہیں بھیجا جائے گا بلکہ ان کے ساتھ سپر ایس یو بیالیس لڑاکا طیارے بھی بطور محافظ جائیں گے۔

ترکی ناٹو فوجی اتحاد کا حصہ ہے۔ ناٹو اور روس داعش کے دشمن ہیں۔ لیکن ناٹو داعش کے ساتھ ساتھ بشارالاسد کا بھی دشمن ہے جب کہ روس داعش سمیت بشارالاسد کے سب دشمنوں کا دشمن ہے۔ اس صورتحال نے شام کو وہ خونی دیگ بنا دیا ہے جس میں بیسیوں باورچیوں نے اپنے اپنے کفگیر پھنسائے ہوئے ہیں اور کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ کھچڑی کے کس چاول کو کچلنا اور کسے ثابت رکھنا ہے۔ اس آپا دھاپی میں روسی طیارہ گرنے جیسا واقعہ ہونا ہی تھا۔

اس وقت شامی آسمان پر درجن بھر ممالک کے بمبار اور لڑاکا طیارے اپنے اپنے دوستوں کی مدد کر رہے ہیں۔ فرض کریں ترک حدود میں روسی کے بجائے کوئی فرانسیسی، اسرائیلی یا اماراتی طیارہ گھس جاتا تو کیا اسے بھی مار گرایا جاتا؟ شائد نہیں۔ کیونکہ سوائے روس کے کسی بھی ملک کی فضائیہ بشار الاسد مخالف ان ترکمان باغیوں کو نشانہ نہیں بنا رہی جن کی مدد ترکی کر رہا ہے۔ مگر یہی ترکی بشار الاسد اور داعش کے مخالف کردوں پر بھی حملے کر رہا ہے کہ جنھیں ترکی کے دوست امریکا کی اسپیشل فورسز تربیت اور اسلحہ دے رہی ہیں۔ (اسے کہتے ہیں سفاک بین الاقوامی تعلقات کی نفیس درفنتنی)۔

روسی طیارہ ترکی میں گھس کے کارروائی نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ ترکی کی مختصر سی فضائی حدود میں گھسنے کے بعد باہر نکل رہا تھا۔ لہذا یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ترکی نے آتے ہوئے طیارے کو نہیں جاتے ہوئے کو نشانہ بنایا۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ ہر چھوٹا سا واقعہ اپنے اندر ایک بہت بڑا پس منظر رکھتا ہے۔

ترکی اور روس ہمسائے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے وقت میں عظیم سلطنتیں رہے ہیں۔ دونوں کی رقابت لگ بھگ پانچ سو برس سے چلی آ رہی ہے۔ آسانی کے لیے یوں سمجھ لیجیے جیسے بھارت اور پاکستان اب سے پانچ سو برس بعد ہوں گے ویسے ہی ترکی اور روس آج ہیں۔

پندرھویں صدی میں قسطنطنیہ کی بازنطینی سلطنت کے سیاسی و روحانی مرکز کے ترکوں کے ہاتھوں میں چلے جانے کے بعد روسی آرتھوڈکس چرچ مشرقی یورپ کی مسیحی میراث کے وارث کے طور پر روسی زار شاہی کے توسیعی بازو کے طور پر ابھرا۔ دوسری طرف روس کی پیٹھ سے ملا ہوا ترکی نہ صرف مشرقی افریقہ سے خلیج فارس تک پھیلی مسلمان دنیا کے مرکزِ خلافت کے طور پر ابھرا بلکہ جنوبی، مشرقی و وسطی یورپ تک مسلمان طاقت کا استعارہ بن کے عسکری، سیاسی و ثقافتی نشانات وی آنا کی دہلیز تک ثبت کیے۔ جنوبی روس میں بحیرہ اسود کے آس پاس کے خطے اور آزر بائیجان و آرمینیا عثمانی سلطنت میں شامل تھے۔ اٹھارہ سو پچاس میں چار سالہ جنگِ کرائمیا شروع ہوئی جس میں ترک اور یورپی طاقتیں ایک طرف اور زار دوسری طرف۔ پھر اٹھارہ سو ستتر تا اٹہتر عثمانیوں اور زار شاہی کی براہ راست جنگیں ہوئیں اور جنوبی روس کے عثمانی زیرِ قبضہ علاقے زار کے تصرف میں آ گئے۔ سرکا اور کاکیشیا کے علاقوں سے ترکوں کی نسلی صفائی ہو گئی۔ لگ بھگ دس لاکھ مارے گئے، باقی دس لاکھ نے جزیرہ نما اناطولیہ میں پناہ لی۔ آج بھی پچاس لاکھ ترک ایسے ہیں جو اپنا جغرافیائی شجرہ سرکا اور کاکیشیا سے جوڑتے ہیں۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران ترکوں نے مشرقی اناطولیہ میں رہنے والی آرمینیائی عیسائی آبادی کو زار کی ایجنٹ اور ففتھ کالمسٹ قرار دے کر صفایا شروع کیا۔ پندرہ لاکھ آرمینیائی شہری مارے گئے، در بدر ہوئے یا شام کے صحرا میں جلا وطن کر دیے گئے۔ لاکھوں نے روس کے زیرِ انتظام آرمینیا میں پناہ لی جہاں ایک زمانے میں ترک مسلمانوں کی اکثریت ہوا کرتی تھی۔

پہلی عالمی جنگ میں سلطنتِ عثمانیہ روس مخالف جرمن اتحاد میں شامل رہی۔ ممکنہ فاتحین (برطانیہ، فرانس، روس) نے سلطنتِ عثمانیہ کی بعد از جنگ بندربانٹ کا جو منصوبہ (سائکس پیکو پیکٹ) بنایا اس کے تحت بحیرہ روم کو بحیرہ اسود سے ملانے والی آبنائے باسفورس اور استنبول کا قبضہ زار کو دیا جانا تھا۔ وہ تو جنگ کے خاتمے سے پہلے پہلے ترکوں کی خوش قسمتی سے بالشویکوں نے زار کا تختہ الٹ کے جنگ سے علیحدگی اختیار کر لی۔

دوسری عالمی جنگ میں بھی ترک اور جرمن ایک طرف اور سوویت یونین (سابق روس) دوسرے کیمپ میں شامل تھا۔ جنگ کے بعد مشرق و مغرب کی سرد جنگ میں ترکی روس کے خلاف قائم ہونے والے ناٹو اتحاد کا کلیدی رکن بن گیا۔ مگر اس نے خود کو مشرقِ وسطی کے معاملات سے الگ تھلگ رکھا۔

سن دو ہزار دو کے بعد اردوان اور عبداللہ گل کی قیادت میں برسرِ اقتدار آنے والی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے لگاتار تین انتخابات جیت کر رفتہ رفتہ ملکی معاملات پر سیاسی گرفت مضبوط کر لی تو سابق عثمانی جذبہ جاگنا شروع ہوا اور توجہ مشرقِ وسطیٰ کی جانب مرتکز ہونی شروع ہوئی۔ شام میں روس نواز بشار الاسد حکومت کی ترکی سے کبھی نہیں بنی لہذا شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو ترکی اور روس کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونا فطری امر تھا۔ اور پھر یہ کشیدگی روسی طیارہ مار گرائے جانے کے واقعہ کے بعد اپنے پورے تاریخی تناظر کے ہمراہ عود کر آئی۔

ولادی میر پوتن نے عندیہ دیا ہے کہ ترکی نے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کیا تو روس اقتصادی پابندیاں عائد کرے گا۔ ایسا ہوا تو ترکی کو مستقبلِ قریب میں روس کے مقابلے میں زیادہ بھاری اقتصادی قیمت ادا کرنا ہو گی۔

اس وقت جرمنی کے بعد ترکی روس کا سب سے بڑا تجارتی ساجھے دار ہے۔ ترکی جتنی گیس استعمال کرتا ہے اس کا ستاون فیصد روس فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ برس روس اور ترکی نے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے جس کے تحت سالانہ تریسٹھ ارب کیوبک میٹر گیس ترکی کے راستے یورپ کو برآمد کی جائے گی۔

تین برس پہلے مرسین صوبے میں ایک بڑے جوہری توانائی پلانٹ کی تعمیر پر کام شروع ہوا جس پر روس اب تک تین ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ ترکی کو امید ہے کہ پلانٹ کی تکمیل سے اسے توانائی کی مد میں چودہ ارب ڈالر سالانہ کی بچت ہو گی۔

ایک سو سے زائد ترک تعمیراتی کمپنیاں اس وقت روس میں سیکڑوں منصوبے مکمل کر رہی ہیں۔ خوراک، کیمیکل اور گارمنٹ انڈسٹری میں ترک صنعت کاروں نے اچھی خاصی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ روس کے بڑے بڑے شہروں میں ترک کھانے خاصے مقبول ہیں لیکن طیارہ گرنے کے بعد روسیوں نے ترک ریستورانوں کا بائیکاٹ شروع کر دیا ہے۔ روسی وزیرِ اعظم کے مشیر گنادی شیخوچنکو کے بقول ایک ترک ٹماٹر خریدنے کا یہ مطلب ہے کہ یہ پیسہ اس میزائل میں لگے گا جو روس کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔

ترکی میں جتنے سیاح آتے ہیں ان میں روسی سب سے زیادہ ہیں۔ گزشتہ برس بتیس لاکھ روسی سیر سپاٹے کے لیے ترکی آئے جب کہ پچیس لاکھ نے مصر کا رخ کیا مگر اکتیس اکتوبر کو صحرائے سینا کے اوپر ایک روسی مسافر بردار طیارے کی تباہی کے بعد روسی سیاحوں نے مصر کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ چنانچہ ترکی کو توقع تھی کہ اس سال ریکارڈ تعداد میں روسی سیاح ترکی پہنچیں گے اور مزید زرِ مبادلہ حاصل ہو گا مگر حالات اچانک سے پلٹ گئے۔

جلد یا بدیر ناٹو اور امریکا بیچ میں پڑ کے داعش کے مشترکہ خطرے کا واسطہ دے کر روس اور ترکی کا غصہ بظاہر وقتی طور پر ٹھنڈا کرنے میں کامیاب ہو ہی جائیں گے۔ لیکن ذرا تصور کیجیے کہ اگر بھارت اور پاکستان کسی مشترکہ دشمن کے خلاف ایک ساتھ لڑ بھی رہے ہوں تب بھی ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے زیادہ سے زیادہ کتنی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے؟
’’سالا ایک طیارہ تعلق کو ہیجڑہ بنا دیتا ہے۔

ماخذ: ایکسپریس نیوز

متعلقہ مضامین

Back to top button