سعودی عرب

شام میں سعودی عرب سمیت مختلف ملکوں کے تکفیری دہشت گرد موجود ہیں: سعودی مفتی کا اعتراف

سعودی عرب کے ایک مفتی موسی الغانمی نے جمعرات کو ایک انٹرویو میں کہا کہ شام میں سرگرم دہشت گرد گروہوں میں خلیج فارس کے عرب ملکوں کے دو ہزار سے زائد انتہا پسند موجود ہیں۔

انھوں نے اس انٹرویو میں کہا کہ شام میں حکومت کے خلاف جنگ میں مصروف دہشت گردوں میں سب سے زیادہ انتہا پسند سعودی عرب کے اور اس کے بعد کویت کے ہیں۔ الغانمی نے داعش سمیت تمام تکفیری دہشت گرد گروہوں کی تشکیل میں سعودی حکومت کے بنیادی کردار کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ یہ دہشت گرد گروہ خلیج فارس کے ساحلی ملکوں کے لئے حقیقی خطرہ ہیں۔

سعودی مفتی نے علاقے کے بعض ملکوں کے خفیہ محکموں کے ساتھ، دہشت گرد گروہوں کے سرغنوں کے روابط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان تکفیری دہشت گرد گروہوں کےسرغنوں میں عراق کی سابق بعث پارٹی کے لیڈران بھی شامل ہیں جن کے مغربی حکومتوں سے روابط ہیں۔

انھوں نے اپنی بات کے ثبوت میں کہا کہ تل رفعت میں مارے جانے والے داعش کے دوسرے نمبر کے سرغنہ حجی بکر کے پاسپورٹ کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے کئی بار یورپی ملکوں کا سفر کیا تھا۔

اس سے پہلے سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز آل الشیخ نے تکفیری دہشت گرد گروہوں کے بارے میں اپنا موقف بدلتے ہوئے کہا تھاکہ یہ دہشت گرد گروہ سعودی عرب کے لئے سنگین خطرہ ہیں۔ انھوں نے اعتراف کیا تھا کہ داعش کے اقدامات کی دین میں کوئی جگہ نہیں ہے اور اس گروہ نے اسلام کے نام پر جو وحشیانہ جرائم کئے ہیں وہ تاریخ اسلام میں کہیں بھی نہیں ملتے ۔

واضح رہے کہ یہ بیانات ایک ایسے وقت میں دیے گئے ہیں کہ جب داعش کی تشکیل اور تقویت میں سعودی عرب نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ سعودی عرب کے ایک مفتی موسی الغانمی نے جمعرات کو ایک انٹرویو میں کہا کہ شام میں سرگرم دہشت گرد گروہوں میں خلیج فارس کے عرب ملکوں کے دو ہزار سے زائد انتہا پسند موجود ہیں۔

انھوں نے اس انٹرویو میں کہا کہ شام میں حکومت کے خلاف جنگ میں مصروف دہشت گردوں میں سب سے زیادہ انتہا پسند سعودی عرب کے اور اس کے بعد کویت کے ہیں۔ الغانمی نے داعش سمیت تمام تکفیری دہشت گرد گروہوں کی تشکیل میں سعودی حکومت کے بنیادی کردار کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ یہ دہشت گرد گروہ خلیج فارس کے ساحلی ملکوں کے لئے حقیقی خطرہ ہیں۔

سعودی مفتی نے علاقے کے بعض ملکوں کے خفیہ محکموں کے ساتھ، دہشت گرد گروہوں کے سرغنوں کے روابط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان تکفیری دہشت گرد گروہوں کےسرغنوں میں عراق کی سابق بعث پارٹی کے لیڈران بھی شامل ہیں جن کے مغربی حکومتوں سے روابط ہیں۔

انھوں نے اپنی بات کے ثبوت میں کہا کہ تل رفعت میں مارے جانے والے داعش کے دوسرے نمبر کے سرغنہ حجی بکر کے پاسپورٹ کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے کئی بار یورپی ملکوں کا سفر کیا تھا۔

اس سے پہلے سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز آل الشیخ نے تکفیری دہشت گرد گروہوں کے بارے میں اپنا موقف بدلتے ہوئے کہا تھاکہ یہ دہشت گرد گروہ سعودی عرب کے لئے سنگین خطرہ ہیں۔ انھوں نے اعتراف کیا تھا کہ داعش کے اقدامات کی دین میں کوئی جگہ نہیں ہے اور اس گروہ نے اسلام کے نام پر جو وحشیانہ جرائم کئے ہیں وہ تاریخ اسلام میں کہیں بھی نہیں ملتے ۔

واضح رہے کہ یہ بیانات ایک ایسے وقت میں دیے گئے ہیں کہ جب داعش کی تشکیل اور تقویت میں سعودی عرب نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button