مقالہ جات

اصلی سید، بڑا عزادار!

جناب! آج سے تقریباً ڈیڑھ صدی قبل حجاز کے ایک شہر میں ایک سید خاندان رہتا تھا، شیعہ، باعزت، متقی، پرہیزگار۔۔۔ خاندان کا سربراہ مسجد کا پیش امام تھا، جب بھی ملک میں انتخابات ہوتے تو وہ سید امام اور اس کے خاندان کے افراد یہ کہہ کر ووٹ نہیں ڈالتے تھے کہ امیدوار لائق نہیں ہے اس منصب کا۔ وقت گذرتا رہا، کسی نے اس سید کو نہ چھیڑا کہ بھئی آؤ ہمیں ووٹ دو۔ ایک بار یہ ہوا کہ ایک ظالم امیدوار آیا اور اس نے اعلان کیا کہ سب مجھے ہی ووٹ دیں گے ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔ اس شریف سید زادے نے اس اعلان کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ جب انتخابات کے دن قریب آئے تو اس ظالم شرابی امیدوار کو معلوم ہوا کہ فلاں سید ہے، اس نے اور اس کے خاندان نے اسے ووٹ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس امیدوار نے اس سید کو پیغام بھیجا اور اپنی بیٹھک پر بلایا۔ وہ شریف سید آیا تو امیدوار نے کہا کہ "تم اگر مجھے ووٹ نہیں دو گے تو مرنے کیلئے تیار ہوجاؤ” اس سید نے صاف انکار کر دیا اور گھر آکر بال بچوں کو لیا کہ چلو کہیں دور دراز علاقے میں چلتے ہیں۔ اس حکمران کو جب معلوم ہوا کہ اس سید نے اس کے حکم کی تعمیل نہیں کی اور شہر چھوڑ کر جا رہا ہے تو اس نے اس سید کو روک کر مار دینے کیلئے بندے بھیجے اور انہوں نے اس سید کو ایک بیابان میں روکا اور اسے اس کے سارے بھائی بیٹوں سمیت قتل کر دیا، سوائے ایک کہ جو بیمار تھا۔ اس سید نے سب کو مدد کیلئے بلایا مگر ظالم حکمران کے ڈر سے کسی کے سر پر جوں تک نہ رینگی۔ جب سب کچھ ہوچکا، تب لوگوں میں ایک کہرام سا مچ گیا، مگر ایوان انبساط پر اس ظالم کا قبضہ تھا، لہذا اس نے حالات پر قابو پا لیا۔ اس سید کی مظلومیت پر شہر کی ہر آنکھ اشکبار رہتی۔ ہر کوئی اپنے گھر میں اس کی مظلومیت پر رونے لگا۔

گریہ و زاری تو ہر گھر میں عام جام تھا، لیکن کچھ ایسے لوگ تھے، کچھ ایسے غیرتمند نمازی کہ جو اس سید امام کی اقتداء میں نماز پڑھا کرتے تھے، نے مل کر سوچا کہ یہ ظالم ان کے امام کو مار کر بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے، صرف گھر میں بیٹھ کر رونے سے اچھا ہے کہ مل کر اس کی حکومت گرا دی جائے۔ صلاح مشورے ہونے لگے، لیکن کچھ نے کہا "نہیں ہمارے لئے غم ہی کافی ہے، ہمیں رونے دو، بدلہ ودلہ ہم نہیں جانتے، ہم چاہتے ہیں کہ ہر گھر سے صرف اس امام کے غم میں رونے کی صدا آئے۔” لہذا منتقمین کے ساتھ جو افراد تھے ان کی تعداد بہت قلیل تھی، لیکن وہ نکلے اور انہوں نے انتقام لیا، مگر جلد ہی ان کو دوسرے ظالموں نے آکر مغلوب کرکے پھر سے اس ظالمانہ طرز کی حکومت قائم کر دی. جبکہ اکثریت ان کی تھی جو اس سید زادے کے چاہنے والی تھے، لیکن انہوں نے گھر میں بیٹھ کر رونے کو ہی سید زادے کی ذمہ داری سمجھی اور بس۔۔۔

اس کے بعد انتخابات ہوتے رہے، سید زادے کے چاہنے والے چپ ہوکر ظالم حکمرانوں کو ووٹ ڈالتے رہے اور ادھر اس سید زادے کا جو ایک بیٹا بیماری کی وجہ سے ظالم کے ظلم سے بچ گیا تھا، اس کی اولاد کے ساتھ بھی ظالم حکمران خاندانوں نے وہی ظلم روا رکھا اور سید زادے کے چاہنے والے گھروں میں بیٹھ کر روتے رہے۔ اس سید پیش امام کی قبر شہر سے دور تھی، ہر چالیسویں پر اکثر لوگ پیدل اس سید زادے کی قبر پر جاتے تھے وہاں گریہ کرتے، زاری کرتے،۔۔۔ غم غم غم غم مناتے تھے، لیکن اس سید زادے کے پوتے اور پڑ پوتے اسی پہلے ظالم حکمران کے جانشینوں کے ظلم و استبداد کی بھٹی میں جل رہے ہوتے تھے۔ کسی کو قید کیا جاتا، کسی کو زہر دیا جاتا، کسی کی لاش کو بغداد کی پل پر۔۔۔ لیکن گھروں میں اس سید زادے کا غم بڑے زور شور سے جاری رہتا۔ ہر سال جب اس پیش امام سید کی شہادت کا دن آتا تو اس کی یاد میں محافل غم ہوتیں، گریہ ہوتا وغیرہ وغیرہ۔

چلتے چلتے 20 ویں صدی آئی، اس میں ایران میں اس سید کا ایک بیٹا اٹھا اور اپنے دادا کے قاتلوں کی اولاد کو ڈرانا دھمکانا شروع کیا۔ اس سید کا نام سید روح اللہ خمینی موسوی تھا۔ روح اللہ کے سارے ساتھی اس کے مخالف ہوگئے کہ مت کرو یہ باتیں، بس رونے دو ہمیں، گھر گھر میں رونا ہو، ایسا کوئی کام کرو کہ یہ رونا اور بڑھے، مقصد یہی ہے، نجات کا وسیلہ یہی ہے، تم کیوں خوامخواہ حکمرانوں کے پیچھے آن پڑے ہو؟ لیکن روح اللہ کے دل میں انتقام کی آگ جل رہی تھی، وہ اپنے دادا کے دشمنوں کو برسر اقتدار دیکھ کر کونے میں بیٹھ کر رونا نہیں چاہتا تھا، اس نے ایران سے ظالم کو بھگا کر وہاں ایسی حکومت قائم کی جو اس کے دادا کے دین کی یاد تازہ کرتی تھی، اس نے ایک طرح سے اپنے مخالفین کو بتایا کہ جب سر پر بیٹھے ہوئے حاکم کی خصلتیں تمہارے امام کے قاتل سے ملتی جلتی ہوں تو کونے میں بیٹھ کر رونے سے کچھ نہیں ہوگا، بلکہ میدان میں آکر اس سے دادا کا انتقام لینا ہوگا۔ اس نے بتایا کہ غم تمہیں بھی تھا، غم مجھے بھی، لیکن اس غم کی محرکات الگ تھے۔ روح اللہ موسوی کا انتقال ہوا، 21 ویں صدی میں قوم کی کشتی کا ناخدا بننے کی صلاحیت اسے ایک اور سید میں نظر آئی اور وہ اپنی وصیت میں اسے ناخدا بنا کر اس فانی دنیا سے کوچ کر گیا۔

21 ویں صدی میں اس سید روح اللہ کے جانشین نے دنیا کے ظالموں کو للکارا کہ مبادا اس غلط فہمی میں رہنا کہ ہم ان میں سے ہیں جو اپنے دادا کیلئے گھر کے کونے میں بیٹھ کر صرف رونے تک ہی محدود ہیں، نہیں ہم وہ ہیں کہ اگر کوئی ہمارے دادا کو ماننے والوں، ان کے چاہنے والوں کی طرٖف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے تو اس کے گھر میں صف ماتم بچھا کر رکھ دیں۔ اس جانشین کا نام ہے سید علی اور دنیا اسے علی خامنہ ای کے نام سے جانتی ہے۔ یہ عزادار ہے! لیکن کونے میں بیٹھ کر عزاداری نہیں کرتا، یہ بین الاقوامی شہرت یافتہ عزادار ہے، جب یہ اپنا ہاتھ سینے پر مار کر یاحسین (ع) کہتا ہے تو وہائٹ ہاؤس، تل ابیب، لندن، حیفہ میں موجود اولاد یزید کے ایواںوں کے بھاری برج ہلا کر رکھ دیتا ہے، یہ صرف دس دن کا عزادار نہیں، یہ پورا سال عزاداری کرتا ہے، کبھی اپنے دادا کے قاتلوں کی اولاد آل سعود کے منہ پر طمانچے مار کر عزاداری کرتا ہوا نظر آتا ہے، کبھی یہود کو صفحہ ہستی سے مٹ جانے کی مدت بتا کر عزاداری کرتا ہے، کبھی آل سعود کے باپ آمریکا کو چنے چبوا کر ان کو مذاکرات پر مجبو کرکے عزاداری کرتا ہے، کبھی رمضان میں آنے والے سیلاب سے متاثره پاکستانیوں کی حالت کو یاد کرکے خطبے میں آنسو بہا کر عزاداری کرتا ہوا نظر آتا ہے”یہ ہے اس کی عزاداری”

لیکن افسوس کہ جن پاکستانیوں کیلئے اس نے آنسو بہائے، اسی پاکستان میں اس عزادار کو گالیاں دی جاتی ہیں، برا بھلا کہا جاتا ہے، سوشل میڈیا پر اس کی تصاویر کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔۔۔ کیوں؟ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ کونے میں بیٹھ کر رونے والوں نے ہمیشہ سڑک پر آکر باطل کیخلاف تلوار لہرانے والے کی مخالفت کی ہے۔ متعدد پاکستانی جنهوں نے عزاداری کا مقصد صرف خود کو خون میں لت پت کرنا ہی سمجھ رکھا ہے، اس سید علی خامنہ ای کو عزادار ہی نہیں مانتے، کیونکہ اس سید نے کہا کہ عزاداری کو نمونہ عمل بناؤ کہ دنیا دیکھ کر نفرت نہ کرے؛ عزاداری میں اخلاقی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھو؛ برادران اہل سنت کی مقدسات کا احترام کرو… تو یہاں کے کچھ "عزاداروں” نے کہا یہ کون ہوتا ہے ہمارے رونے اور تبرے میں خلل ڈالنے والا، ہمیں تقدس کا پاٹ پڑھانے والا!

ان مخالفینِ مجتھدین (بالخصوص سید علی خامنہ ای) کا دعویٰ ہے کہ ان کے لئے سادات کے احترام اور عزاداری سے بڑھ کر کچھ نهیں! یہ سید علی خامنہ ای کو گالیاں دیتے ہیں جب کہ یہ صاحبان خود فرماتے ہیں کہ سید جیسا بھی ہو اس کا احترام کرو۔ "جیسا بھی” ہے سید تو ہے! لیکن جب رہبر معظم کی بات آئے تو سیادت نہیں دیکھی جاتی! بھیا اب کیا کہوں کہ ان کو سادات کی عزت و حرمت کا کتنا لحاظ ہے۔ میں لکھنا نہیں چاہتا تھا مگر جس طرح یہ بیهوده قسم کے لوگ رہبر معظم کی سوشل میڈیا پر بے حرمتی کرتے ہیں، اسے دیکھ کر مجبوراً ان کے خامیوں سے پرده اٹھانا پڑا۔ یہ تو وہ ہیں جن کی اکثریت یہ عقیده رکھتی ہے کہ سید زادی کا نکاح غیر سید لڑکے سے حرام ہے، یعنی نعوذ باللہ پوری دنیا میں جن جن سید زادیوں کے نکاح غیر سید سے ہوئے، ان کے نکاح جائز ہی نہیں، نکاح جائز نہیں تو عورت کا مرد سے تعلق زنا کا! استغفراللہ!!!

یہ ہے ان کا احترام سادات کہ اپنی پیری مریدی بچانے کے چکر میں دنیا کی تمام سید زادیوں کہ جنہوں نے غیر سید مومن سے نکاح کئے، کو زانیہ کہہ دیتے ہیں! اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ان کے یہاں سادات کے احترام اور عزاداری سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ سادات کا احترام یہ کہ سید زادیوں کے نکاح حرام کہہ ڈالو؟؟؟ ان زھراء زادیوں پر زنا کا الزام لگاؤ، ان کی جائز اولاد کو ناجائز کہو؟؟؟ اور عزاداری یہ ہے کہ کونے میں بیٹھ کر ظالم کے ظلم پر روتے رہو، یا اٹھا کر خود کو خون میں لت پت کر دو اور سو جاؤ، جب کہ ظالم حکمران تمهارے شیعوں کو چن چن کر مارتا رہے۔؟؟؟ شیعہ ماؤں کی گود اجڑنے پر کوئی احتجاج نہیں ان کی طرف سے، نہ ان کے لواحقین کی امداد کیلئے ان کا کوئی اداره، نہ زینب (س) کے روضے پر حملے کیخلاف اقدام، نہ یمن کے مظلوموں….. بس بڑے عزادار بنے پھرتے ہیں، بات کرو تو ماں بہن سے کم کی گالی نہیں۔ فلاں عالم دین یہ، فلاں مجتھد ایسا، فلاں فقیہ ویسا … یہ ہے ان کی عزاداری…. کیا لکھوں …. بس اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ وقت کا اصلی سید کون، بڑا عزادر کون۔؟

متعلقہ مضامین

Back to top button