مقالہ جات

عید اور امام علی ع کا 10وان ؟

ہم ایک ایسے زمانے میں زندگی بسر کر رہے ہیں جس میں فتنہ بازی بہت زیادہ ہے اور ہر انسان اپنے مطابق دین کی تفسیر اور تاویل کر رہا ھے.چنانچہ آئیں ہم آئمہؑ ع کے فرامین کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

امام زین العابدینؑ دعائے ودائے ماہ رمضان میں فرماتے ہیں:
اللَّهُمَّ إِنَّا نَتُوبُ إِلَيْكَ فِي يَوْمِ فِطْرِنَا الَّذِي جَعَلْتَهُ لِلْمُؤْمِنِينَ عِيداً وَ سُرُوراً ، وَ لِأَهْلِ مِلَّتِكَ مَجْمَعاً وَ مُحْتَشَداً مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ أَذْنَبْنَاهُ

اے اللہ! ہم اس روز فطر میں جسے تو نے اہل ایمان کے لئے عید و مسرت کا روز اور اہل اسلام کے لئے اجتماع و تعاون کا دن قرار دیا ہے ، ہر اس گناہ سے جس کے ہم مرتکب ہوئے ہوں.
(صحیفہ سجادیہ، دعا ۴۵، وداع ماہ رمضان، صفحہ ۲۰۷)

یہاں پر امامؑ عید کے روز کو مسرت کا دن قرار دے رہے ہیں یعنی خوشی کا دن.

رسول اللہ فرماتے ہیں:
محمد بن إسماعيل، عن الفضل بن شاذان، عن ابن أبي عمير، عن إبراهيم بن عمر، عن عمرو بن شمر، عن جابر، عن أبي جعفر (ع) قال: قال النبي (صلى الله عليه وآله): إذا كان أول يوم من شوال نادى مناد: أيها المؤمنون اغدوا إلى جوائزكم، ثم قال: يا جابر جوائز الله ليست بجوائز هؤلاء الملوك، ثم قال: هو يوم الجوائز.
جب شوال کا پہلا دن ہوتا ہے تو ایک منادی ندا کرتا ہے۔ اے ایمان والو صبح کرو اپنے انعامات کے لئے پھر فرمایا اے جابر اللہ کے انعامات ان بادشاہوں کے سے انعام نہیں ہیں پھر فرمایاعید کا دن انعامات کا دن ہے۔
(الکافی، جلد۴، صفحہ ۱۶۸)

امام صادقؑ فرماتے ہیں:
وروى جعفر بن بشير ، عن عبد الله بن سنان عن أبي عبد الله عليه السلام قال
” من لم يشهد جماعة الناس في العيدين فليغتسل وليتطيب بما وجد ، ويصلى في بيته
وحده كما يصلى في جماعة
جو شخص عیدین میں لوگوں کے ساتھ جماعت میں حاضر نہیں ہوسکتا تو اس کو چاہیے کہ غسل کرے اور جو خوشبو ہو وہ لگائےاور اپنے گھر میں نماز پڑھےجیسا کہ وہ جماعت کے ساتھ پڑھتا ہے۔
(من لایحضرۃ الفقیہ، جلد۱، حدیث۱۴۵۹، صفحہ ۵۰۷)

امام باقر فرماتے ہیں:
جابر عن أبي جعفر عليه السلام قال : ” قال النبي صلى الله عليه وآله : إذا كان
أول يوم من شوال نادى مناد يا أيها المؤمنون اغدوا إلى جوائزكم ، ثم قال : يا
جابر جوائز الله ليست كجوائز هؤلاء الملوك ، ثم قال : هو يوم الجوائز
جب ماہ شوال کی پہلی تاریخ ہوتی ہے تو ایک منادی ندا کرتا ہے کہ اے اہل ایمان اپنے اپنے انعام اور جائزہ کے لئے چلو پھر فرمایا کہ اے جابر اللہ کا انعام ان بادشاہوں کے انعام جیسا نہیں ہے۔ پھر فرمایا یہ دن انعام اور جائزہ کا دن ہے۔
(من لا یحضرۃ الفقیہ، جلد۱، حدیث ۱۴۷۸، صفحہ ۵۱۱)

امام رضا فرماتے ہیں:
وفي العلل التي تروى عن الفضل بن شاذان النيسابوري رضي الله عنه
ويذكر أنه سمعها من الرضا عليه السلام أنه ” إنما جعل يوم الفطر العيد ليكون
للمسلمين مجتمعا يجتمعون فيه ، ويبرزون لله عز وجل ، فيمجدونه على ما من عليهم ،
فيكون يوم عيد ، ويوم اجتماع ، ويوم فطر ، ويوم زكاة ، ويوم رغبة ، ويوم تضرع ، ولأنه
أول يوم من السنة يحل فيه الأكل والشرب لان أول شهور السنة عند أهل الحق
شهر رمضان فأحب الله عز وجل أن يكون لهم في ذلك مجمع يحمدونه فيه ويقدسونه
وإنما جعل التكبير فيها أكثر منه في غيرها من الصلاة لان التكبير إنما هو تعظيم
لله وتمجيد على ما هدى وعافا كما قال الله عز وجل : ” ولتكبروا الله على ما هداكم
لعلكم تشكرون ” وإنما جعل فيها اثنتا عشرة تكبيرة لأنه يكون في [ كل ] ركعتين اثنتا
عشرة تكبيرة ، وجعل سبع في الأولى وخمس في الثانية ولم يسو بينهما لان
السنة في الصلاة الفريضة أن تستفتح بسبع تكبيرات فلذلك بدأ ههنا بسبع تكبيرات ،
وجعل في الثانية خمس تكبيرات لان التحريم من التكبير في اليوم والليلة خمس
تكبيرات وليكون التكبير في الركعتين جميعا وترا وترا

یوم فطرکو یوم عید اس لئے قرار دیا گیا کہ اس میں مسلمانون کا اجتماع ہوتا ہے وہ مجتمع ہوتے ہیں اور خدا کی خوشنودی کے لئے نکلتے ہیں اور اللہ نے جو ان پر احسان کیا ہے اس پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں اس لئے یہ یوم عید یوم اجتماع یوم فطر، یوم زکاۃ، یوم رغبت اور یوم تضرع ہے نیز اس لئےکہ یہ سال کا پہلا دن ہے (رمضان کے بعد) جس میں کھانا پینا حلال ہے کیونکہ اہل حق کے نزدیک ایک سال کے مہینوں میں پہلا مہینہ ماہ رمضان ہے تو اللہ نے یہ چاہا کہ لوگوں کا مجمع ہو جس میں لوگ اس کی حمد کریں اور اس کی تقدیس کریں ، اور اس کے علاوہ اس میں دوسری نمازوں سے ذیادہ تکبیریں قرار دیں اس لئے کہ تکبیر اصل میں اللہ کی بڑائ کا اقرار ہے اور اس نے جو ہدایت کہ اس کا شکر ادا کرنا ہے۔ جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے کہ تا کہ خدا نے کو تم کو راہ پر لگا دیا ہے اس نعمت پر اس کی بڑائ بیان کرو تا کہ تم شکر گزار ہو(سورہ بقرہ ۱۸۵)
(من لا یحضرۃ الفقیہ، جلد۱، حدیث۱۴۸۵، صفحہ ۵۲۲)

چنانچہ ان تمام فرامین سے ثابت ہوا کہ عید الفطر کا دن مسرت اور انعامات کا دن ہے اور اس سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو بد نصیب ہواور پھر اگر عید جائز نہیں ہوتی تو پھر آئمہ ہمیں اعمال کیوں تعلیم فرماتے؟

نماز عید کے قنوت کے بارے میں

قاریئن نماز عید میں ایک قنوت پڑھا جاتا ہے جو اس طرح ہے

اَللّٰھُمَّ ٲَھْلَ الْکِبْرِیائِ وَالْعَظَمَۃِ، وَٲَھْلَ الْجُودِ وَالْجَبَرُوتِ، وَٲَھْلَ الْعَفْوِ وَالرَّحْمَۃ وَٲَھْلَ التَّقْوی وَالْمَغْفِرَۃِ، ٲَسْٲَلُکَ بِحَقِّ ھذَا الْیَوْمِ الَّذِی جَعَلْتَہُ لِلْمُسْلِمِینَ عِیداً وَ لِمُحَمَّدٍ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ ذُخْراً وَمَزِیداً ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَٲَنْ تُدْخِلَنِی فِی کُلِّ خَیْرٍ ٲَدْخَلْتَ فِیہِ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ، وَٲَنْ تُخْرِجَنِی مِنْ کُلِّ سُوئٍ ٲَخْرَجْتَ مِنْہُ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ صَلَواتُکَ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ ۔ اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ خَیْرَ مَا سَٲَلَکَ عِبادُکَ الصَّالِحُونَ، وَٲَعُوذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعاذَ مِنْہُ عِبادُکَ الصَّالِحُونَ۔
بارالہا بزرگیوں کا اور بڑائی کا مالک تو ہے اور بخشش کا اور دبدبے کا مالک تو ہے۔ درگزر اور مہربانی کا مالک تو ہے۔ میں پناہ و پردہ پوشی کا سوال کرتا ہوں۔ میں بواسطہ آج کے دن کے جس کو تو نے مسلمانوں کیلئے عید قرار دیا اسے سرمایہ اور اضافہ کا دن بنایا ہے آج محمد(ص) وآل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ داخل کر مجھے ہر اس نیکی میں جس میں تو نے محمد(ص) وآل(ع) محمد(ص) کو داخل کیا اور یہ کہ دور کردے مجھے ہر اس بدی سے جس سے تو نے محمد(ص) و آل محمد(ص) کو دور رکھا تیری رحمتیں ہوں آنحضرت(ص) پر اور انکی آل پر۔ اے معبود! میں سوال کرتاہوں تجھ سے ہر اس بھلائی کا جس کا سوال تجھ سے تیرے نیک بندوں نے کیا اور پناہ لیتا ہوں تیری جس سے تیرے نیکوکار بندوں نے پناہ چاہی ہے۔
اس قنوت میں بھی واضح لکھا ہوا ہے کہ اس دن کو اللہ نے مسلمانوں کے لئے عید کا دن قرار دیا یے۔
کراچی کے ایک علم دشمن شخص نے اس قنوت کے الفاظ پر بہت شور مچایا اور لوگوں کو گمراہ کیا کہ اس قنوت مین آئمہ کی توہین کی گئی ہے کیونکہ اس میں کہا گیا ہے کہ مجھے داخل کر اس نیکی مین.
یہ قنوت آئمہ کا تعلیم کردہ ہے۔ ہمارے مندرجہ ذیل علما نے اسے نقل کیا ہے:
بحار الانوار، جلد ۸۷، باب وجوب صلاۃ العیدین و شرائطھما، صفححہ، ۳۷۹تا۳۸۱
مصباح المتھجد صفحہ ۶۵۴
جواہر الکلام، جلد ۱۱، صفحہ ،۳۶۵
مفاتیح الجنان، باب اعمال یوم عید الفطر

اس کے علاوہ اسی طرح کے الفاظ امام صادق سے بھی منقول ہیں جس میں امام نے صبح و شام کی دعا میں پڑھنے کا حکم دیا یے:
للّـهُمَّ اَدْخِلْنى فى كُلِّ خَيْر اَدْخَلْتَ فيهِ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّد وَاَخْرِجْنى مِنْ كُلِّ شَرٍّ اَخْرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلى مُحَمَّد وآلِ مُحَمَّد
اے اللہ مجھے ہر اس نیکی میں داخل فرما کہ جس میں تو نے محمد و آل محمد کو داخل فرمایا ہے اور مجھے ہر اس برائی سے بچا کہ جس سے تو نے محمد و آل محمد کو محفوظ و مامون رکھا ھے۔
بحار الانوار، جلد ۸۶، صفحہ ،۷۱، ۱۴۶
مصباح المتحجد صفحہ۲۰۶
مفاتیح الجنان، باب تعقیب نماز صبح

کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ابھی ۱۰ دن پہلے امام علی شہید ہوئے ہیں تو ہم کس طرح عید منایئں۔ تو ان کی خدمت میں چند باتیں حاضر ہیں:
امام العسکری ۸ ربیع الاول کو شھید ھوے اور جیسے ھی ۸ ربیع الاول کا سورج ڈہلتا ہے تمام شیعہ عید زھراء بڑے دھوم دھام سے مناتے ھیں

امام الجواد ۲۹ ذلقعدہ کو شھید ھوے اور اگلے دن اگر ۱ ذلحجة ہوی تو ۲۹ ذلقعدہ کا سورج ڈہلتے ھی تمام شیعہ حضرت زھراء و امام علی کے عقد مبارک کی خوشیاں مناتے ھیں

۲۲ذلحجة کو حضرت مسلم کے فرزندان کی انتہای مظلومیت کے ساتھ شہادت ہوی مگر ۲۴ ذلحجة کی شب میں ہم عید مباہلہ مناتے ہیں

اگر یہ بات ہے تو پھر عید زھراء، عید مباہلہ اور عقد حضرت زھراء و امام علی کا جشن بھی نہیں منانا چاہئے کیوں کہ اصول تو ایک جیسے ہونے چاہیں۔ نا کہ جہاں آپ کا دل چاہے وہاں اپنی مرضی کا اصول فٹ کر دیا۔

آخر میں ہم تمام عالم اسلام کو عید کی مبارک باد دیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ مسلمانوں کی مدد فرمائے، انہیں عید آئمہ کی سیرت کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے (سادگی و عبادات و فقرا و مساکین کی یاد کے ساتھ) اور ملت کو
فتنہ بازوں اور گمراہ کرنے والوں کے شر سے محفوظ رکھے
الہی آمین.

متعلقہ مضامین

Back to top button