مقالہ جات

يمن ميں انصار اللہ كي حكمت عملي

كيا وجہ ہے كہ انصاراللہ يمن كي انقلابي تحريك سعودي عرب كي وحشيانہ جارحيت كا "مناسب اور منہ توڑ” جواب نہيں دے رہي، جو اسے جارحانہ اقدامات روكنے پر مجبور كر دے؟ كيا يہ پاليسي جارح آل سعود رژيم كي جانب سے مظلوم يمني عوام كے خلاف ظالمانہ اقدامات ميں مزيد جري ہوجانے كا باعث نہيں بنے گي؟ كيا انصاراللہ يمن كي جانب سے سعودي جارحيت كا مناسب جواب نہ دينے سے يہ تاثر ايجاد نہيں ہوگا كہ انصاراللہ يمن فوجي لحاظ سے كمزوري كا شكار ہے؟ يہ سوالات اس وقت خطے كے لوگوں كے ذہن ميں گردش كر رہے ہيں۔ اس سلسلے ميں وہ افراد جو سعودي رژيم كي براہ راست جارحيت سے متاثر ہو رہے ہيں، انصاراللہ يمن سے يہ توقع ركھتے ہيں كہ وہ جارحانہ پاليسي اختيار كرے۔ ان سوالات اور ايسے ہي دوسرے سوالات كے جواب ميں درج ذيل نكات پر توجہ ضروري ہے:

١)۔ اگر انصاراللہ يمن سعودي جارحيت كا بھرپور انداز ميں جواب بھي دے تو وہ ايك جوابي كارروائي قرار پائے گي اور درحقيقت ايسے ميدان ميں كھيلنے كے مترادف ہوگي جو دشمن نے تيار كيا ہے۔ لہذا انصاراللہ يمن جيسے گوريلا گروہ كبھي بھي اپني كارروائيوں كي منصوبہ بندي دشمن كے جارحانہ اقدامات كے لحاظ سے نہيں كرتے۔ مثال كے طور پر لبنان كے خلاف اسرائيل كي مسلط كردہ ٣٣ روزہ جنگ كے دوران غاصب صہيوني رژيم نے لبنان كے شيعہ اكثريتي جنوبي صوبے صور كو اس قدر شديد بمباري اور ميزائل حملوں كا نشانہ بنايا كہ ايسا لگتا تھا جيسا وہاں پر تين بار ہل چلا ديا گيا ہو، ليكن اس كے مقابلے ميں حزب اللہ لبنان نے بہت محدود حد تك جوابي كارروائي كي، جبكہ حزب اللہ لبنان بہت آساني سے تل ابيب اور حيفا جيسے اہم اسرائيلي شہروں كو شديد ميزائل حملوں كا نشانہ بنا سكتي تھي۔ حزب اللہ لبنان نے اس وحشيانہ بمباري كے مقابلے ميں بہت محدود حد تك اور علاماتي طور پر ميزائل حملے كئے۔ حزب اللہ لبنان كے جوابي ميزائل حملوں كا مقصد زيادہ تعداد ميں اسرائيلي فوجيوں يا شہريوں كا جاني نقصان كرنا نہيں تھا بلكہ اصل مقصد اسرائيل كے دبدبے اور اس كے رعب كو ختم كرنا تھا۔ لہذا حزب اللہ لبنان نے انتہائي دقيق نشانہ لے كر حيفا كي ميٹرو ٹرين اور صفد ہوائي بيس ميں واقع جنگي طياروں كے شيڈ كو ميزائل حملوں كا نشانہ بنايا اور اس طرح دشمن كو يہ پيغام پہنچايا كہ وہ اس كي حساس تنصيبات كو نشانہ بنانے كي بھرپور صلاحيت ركھتي ہے۔ گوريلا سرگرمياں ہميشہ اس بنياد پر استوار ہوتي ہيں كہ مدمقابل كے شرعي جواز كو ختم كرتے ہوئے اس كے ذہني آرام كو نابود كر ديا جائے اور وہ ہر لمحہ ايك غير متوقع گوريلا ايكشن كے خوف كا شكار رہے۔ انصاراللہ يمن بھي سعودي جارحيت كے پچاس روز گزر جانے كے بعد آل سعود رژيم كے شرعي و قانوني جواز كو مخدوش كرنے اور اس كے ذہني سكون كو ختم كرنے ميں كامياب رہي ہے۔

٢)۔ گوريلا جنگوں اور چھاپہ مار كارروائيوں ميں كوئي بھي گوريلا فورس ميدان جنگ كو اپنے ہاتھ ميں لينے كي كوشش كرتي ہے، جبكہ اس كے برعكس ايك باقاعدہ مسلح فوج لڑائي اور ٹكراو كي وسعت كو انتہائي محدود دائرے ميں ركھتے ہوئے ميدان جنگ ميں پھرتي دكھا كر دشمن پر كاري ضرب لگانے كي كوشش ميں رہتي ہے۔ لبنان كے خلاف اسرائيل كي ٣٣ روزہ جنگ اور اسي طرح غزہ كے خلاف صہيوني جارحيت كا جائزہ لينے سے ايك طرف تو اس گوريلا حكمت عملي كے بروئے كار لانے كو ديكھا جاسكتا ہے اور دوسري طرف ايسي حكمت عملي كے انتہائي كارآمد اور مفيد ہونے كا بھي مشاہدہ كيا جاسكتا ہے۔ اسي طرح ہمارے سامنے ايسے گوريلا گروہوں كي مثاليں بھي موجود ہيں، جنہوں نے لڑائي كا دائرہ وسيع كركے خود ہي اپني شكست اور ناكامي كا مقدمہ فراہم كر ديا۔ لہذا انصاراللہ يمن كي جانب سے سعودي جارحيت كے خلاف اپني كارروائيوں كو صرف صعدہ كے مغربي حصے يعني صوبہ جيزان تك ہي محدود ركھنا انتہائي سوچا سمجھا اور معقول فيصلہ ہے۔ اس علاقے ميں جارح آل سعود رژيم كي فوج كو ہونے والا جاني نقصان انصاراللہ يمن كے جاني نقصان سے كہيں زيادہ ہے۔

٣)۔ يمن كے خلاف سعودي جارحيت كے دوران انصاراللہ يمن كے سامنے دو محاذ كھل چكے تھے۔ ايك بيروني جارح قوت كا مقابلہ كرنے كا محاذ اور دوسرا ملك كے اندر موجود سعودي حمايت يافتہ تكفيري دہشت گرد عناصر كے مقابلے ميں محاذ۔ انصاراللہ يمن مجبور تھي ان دونوں محاذوں ميں سے ايك كو چن كر اپني تمام تر طاقت اس محاذ پر متمركز كر دے، كيونكہ دونوں محاذوں پر ايك ہي وقت ميں لڑنے سے اس كي قوت تقسيم ہوسكتي تھي اور اسے شديد نقصان پہنچنے كا خطرہ تھا۔ اسي طرح دونوں محاذوں پر لڑنے كے نتيجے ميں جنگ كا دائرہ، شدت اور مدت ميں اضافہ ہونے كا امكان بھي موجود تھا۔ انصاراللہ يمن نے انتہائي ذہانت اور سمجھداري كا ثبوت ديتے ہوئے اندروني محاذ پر اپني طاقت متمركز كر دي اور سعودي جارحيت كے خلاف صرف محدود اور علامتي حد تك ہي جوابي كارروائي پر اكتفا كيا۔ اس حكمت عملي كا نتيجہ يہ نكلا كہ بيروني محاذ دوطرفہ شديد جنگ كا شكار ہونے كي بجائے ايك طرفہ كم شدت كي لڑائي تك ہي محدود رہا۔ سعودي حكومت بھي ايسي صورتحال ميں اپني جارحيت كا قانوني جواز فراہم كرنے سے قاصر رہي۔ اگرچہ آل سعود رژيم يمن كے خلاف سكيورٹي كونسل ميں قرارداد نمبر ٢٢١٦ منظور كروانے ميں كامياب رہي، ليكن سعودي حكومت كي اس واحد كاميابي ميں بھي يمن كے خلاف اس كي فوجي جارحيت كا قانوني جواز فراہم نہيں كيا گيا، جس كے باعث سعودي رژيم اپني حكمت عملي پر نظرثاني كرنے پر مجبور ہوگئي۔ اگرچہ يمن كے خلاف سعودي جارحيت انتہائي بے رحمانہ تھي، ليكن اس كي وسعت محدود تھي۔ اس جارحيت كے دوران ٥ ہزار ہوائي حملے انجام پائے۔ دوسري طرف انصاراللہ يمن نے ملك كے جنوبي حصے ميں واقع ٧ صوبوں ميں تكفيري دہشت گرد عناصر كے خلاف وسيع آپريشن انجام ديا اور سعودي نواز دہشت گرد گروہوں كو نابود كركے يمن پر سعودي عرب كے دوبارہ تسلط كا راستہ ختم كر ديا۔ اگر انصاراللہ يمن سعودي شہروں پر ١ ہزار ميزائل بھي فائر كرتي تو ايك طرف تو اسے بہت سي شرعي اور ديني ركاوٹوں كا سامنا كرنا پڑتا اور دوسري طرف يمن ميں سعودي نواز گروہ ماضي كي طرح اپنا اثرورسوخ باقي ركھتے اور كسي بھي وقت دوبارہ ملك پر قبضہ كرسكتے تھے۔

٤)۔ اس جنگ ميں سعودي عرب كي پوري كوشش رہي كہ وہ سرزمين وحي اور مكہ مكرمہ و مدينہ منورہ جيسے مقدس شہروں كے دفاع كے نام پر بعض عرب اور اسلامي ممالك كو ساتھ ملا كر ايران اور يمن مخالف محاذ قائم كرسكے۔ اگر انصاراللہ يمن، خاص طور پر جنگ كے ابتدائي ہفتوں ميں سعودي شہروں كو اپنے ميزائل حملوں كا نشانہ بناتے تو يہ اقدام ايران اور يمن مخالف محاذ بنانے ميں سعودي حكمرانوں كيلئے انتہائي مددگار ثابت ہوسكتا تھا۔ انصاراللہ يمن نے ان حملوں سے گريز كركے اور اپني جوابي كارروائي كو محدود حد تك كم كركے آل سعود رژيم كي جارحانہ حكمت عملي كا پانسہ پلٹ كر ركھ ديا۔ درحقيقت سعودي حكومت نے يمن كے خلاف جارحيت كو قانوني جواز فراہم كرنے اور اس كي بنياد پر ايران اور يمن مخالف محاذ تشكيل دينے كيلئے جس قتل و غارت اور ہولوكاسٹ كي منصوبہ بندي كر ركھي تھي، وہ انجام نہ پا سكي اور اس طرح سعودي رژيم كے فوجي اقدام كا فلسفہ وجودي ہي خطرے ميں پڑ گيا۔ اگر ہم حال ہي ميں رياض ميں يمن كے فراري حكمرانوں كے ساتھ سعودي حكام كي ہونے والي ميٹنگ كا جائزہ ليں تو ديكھيں گے كہ اس ميٹنگ ميں سعودي حكام نے يمن كے خلاف اپني جارحيت كو سابق يمني صدر منصور ہادي كي درخواست سے جوڑنے پر بے حد اصرار كيا ہے، جبكہ يمن كے خلاف جارحيت كے ابتدائي دنوں ميں سعودي حكام اس بات پر زور دے رہے تھے كہ حرمين شريفين خطرے ميں ہے اور سعودي عرب اور دوسرے عرب ممالك كي قومي سلامتي شديد خطرے سے دوچار ہوچكي ہے۔

اس وقت سعودي حكام كا موقف تبديل ہوچكا ہے اور وہ يمن كے خلاف اپني جارحيت كو يمن كے سابق صدر كي درخواست سے جوڑنے كي كوشش كر رہے ہيں۔ البتہ يہ بھي ايك بڑا جھوٹ ہے كيونكہ اگر سابق يمني صدر ہادي منصور عبد ربہ نے سعودي عرب سے يمن كے خلاف فوجي كارروائي كي درخواست كي ہوتي تو وہ جنگ كے ابتدائي دنوں ميں ہي ذرائع ابلاغ يا قانوني اداروں ميں منظر عام پر آجاتي اور اگر فرض بھي كر ليا جائے كہ سابق يمني صدر نے سعودي عرب سے فوجي كارروائي كي درخواست كي تھي تو يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ ايك مستعفي، غير قانوني اور ملك سے بھاگے ہوئے صدر كي درخواست كي قانوني حيثيت كيا ہے؟ اور كيا ايسي درخواست كو بنياد بنا كر كسي آزاد اور خود مختار ملك پر فوجي چڑھائي كي جاسكتي ہے؟ اگر منصور ہادي يمن كے قانوني صدر ہوتے اور پورے يمن پر ان كي حكومت قائم بھي ہوتي، تب بھي ان كي درخواست سعودي عرب كو اپنے ہمسايہ ملك پر فوجي حملہ كرنے، عوام كي قتل و غارت كرنے اور گھروں، مساجد، بازاروں اور اسكولوں كو وحشيانہ بمباري كا نشانہ بنانے كا قانوني جواز فراہم كرنے سے قاصر تھي، چہ جائيكہ نہ تو ايسي درخواست كي گئي، نہ منصور ہادي يمن كے قانوني صدر تھے اور نہ ہي بنيادي طور پر ايسا مطالبہ قانوني قرار ديا جاسكتا ہے۔ انصاراللہ يمن كي جانب سے ملك كے اندروني محاذ پر متمركز رہنے كي پاليسي اپنائے جانے كي وجہ سے يمن كے خلاف پاكستان، تركي اور مصر كي شركت سے ايك وسيع تر فوجي اتحاد كي تشكيل ممكن نہ ہوسكي۔ اسي طرح انصاراللہ يمن كي جانب سے جيزان كے خطے ميں جوابي اقدامات كي منصوبہ بندي ايسے انداز ميں كي گئي كہ ان ممالك نے بھي سعودي عرب كي مدد كرنے سے گريز كرنے كا فيصلہ كيا، جنہوں نے جنگ كے ابتدائي ہفتوں ميں سعودي عرب كو اس پر حملے كي صورت ميں مدد كي يقين دہاني كروائي تھي۔

٥)۔ سعودي عرب يمن كے خلاف فوجي جارحيت اور ہوائي حملوں كي صورت ميں اپني بھرپور طاقت كا مظاہرہ كرچكا ہے، لہذا اب اس كي جيب ميں كوئي نيا پتہ باقي نہيں رہا، جبكہ انصاراللہ يمن نے اب تك انتہائي محدود حد تك اور قبائل كي سطح تك جوابي كارروائي كي ہے، جس كي وجہ سے اس كے پاس كہنے كو اب بھي بہت كچھ ہے۔ اگرچہ انصاراللہ يمن كي جانب سے ملك كے اندر تكفيري دہشت گرد عناصر كے خاتمے كيلئے شروع ہونے والا آپريشن ابھي اپنے اختتامي مرحلے تك نہيں پہنچا اور خاص طور پر "حضر موت” جيسے وسيع صوبے كے مركزي حصے يعني "مكلا” پر ابھي تك القاعدہ كے ذيلي گروہ انصار الشريعہ كا قبضہ ہے، ليكن اس كے باوجود انصاراللہ يمن كے پاس اس خطے كو تكفيري دہشت گرد عناصر سے پاك كرنے اور سعودي علاقوں ميں جوابي كارروائي انجام دينے كا انتخاب موجود ہے۔ اس وقت بھي انصاراللہ يمن كو يہ يقين حاصل ہے كہ اس كے خلاف جارحيت ميں سعودي عرب اكيلا ہے۔ انصاراللہ يمن كے پاس زمين اور سمندر سے انجام پانے والے حملوں كا جواب

متعلقہ مضامین

Back to top button