مشرق وسطی

لبییا میں وہابی مفتی نے مردوں کے آپس میں جہاد النکاح کو جائز قرار دے دیا

مشرق وسطیٰ میں دھشتگردانہ کاروائیوں میں سرگرم تکفیری ٹولے جوانوں کو اپنی طرف جذب کرنے کے لیے جن حربوں کا استعمال کرتے ہیں ان میں سے ایک جہاد النکاح ہے۔

جہاد النکاح ایک ایسی اصطلاح ہے جو سب سے پہلے ۲۰۱۳ میں تیونس کے ایک وہابی مفتی نے ایجاد کی جس کے بعد معروف سعودی مفتی محمد العریفی نے اس کا جم کر دفاع کیا اور اس کی بنیاد پر فتویٰ دیا کہ تمام عورتیں چاہے وہ شوہر دار ہوں یا بے شوہر، باکرہ ہوں یا غیر باکرہ جہاد النکاح کے لیے شام میں سرگرم باغی دھشتگردوں کی جنسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جا سکتی ہیں۔

محمد العریفی کے فتوے کے بعد ایک دوسرے سعودی مفتی شیخ ناصر العمر نے محرم کے ساتھ بھی جہاد النکاح کو جائز قرار دے دیا اور کہا کہ اگر شام میں کسی عورت کا بھائی یا باپ یا بیٹا مصروف پیکار ہے تو وہ اس کی جنسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اس کے پاس جا سکتی ہے۔
ان فتووں کے بعد دنیا بھر سے تکفیری فکر رکھنے والی خواتین نے پہلے شام اور پھر عراق کا سفر کیا اور اس قبیح عمل جو حقیقی اسلام کی نگاہ میں سراسر زنا ہے کو انجام دینے میں کوئی شرم و حیا محسوس نہیں کی اور نہ کر رہی ہیں۔

تاہم یہ فتوے اور جہاد النکاح کی یہ اصطلاح صرف عورتوں کے لیے استعمال ہوتی تھی لیکن اب لیبیا میں اس قبیح اور حرام عمل کو مردوں کے لیے بھی جائز قرار دے دیا گیا ہے کہ وہ مرد جو دھشتگرد ٹولوں میں شامل ہیں وہ آپس میں جہاد النکاح کر سکتے ہیں جیسا کہ اخبار الجزائری الشروق نے رواں ماہ کے اپنے دو شماروں بتاریخ ۲ جون اور ۳ جون میں اس مسئلے کو مورد بحث قرار دیا اور ان افراد کے ساتھ انٹرویو لیا جو یہ عمل انجام دے رہے تھے اور حکومت نے انہیں گرفتار کر کے جیل میں بند کر دیا۔

لیبیا میں انصار الشریعہ کے نام سے دھشتگرد ٹولہ اس طرح کے قبیح اعمال انجام دے رہا ہے جس نے داعش کے ساتھ بھی بیعت کر رکھی ہے اور لیبیا سمیت دیگر عربی ممالک سے جوانوں کو ان کاموں کی لالچ دلا کر انہیں داعش جیسے دھشتگرد ٹولے میں شامل کر رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق داعش انہیں حربوں کی بنا پر روز بروز قوی اور زیادہ سے زیادہ جوانوں کو اپنی طرف جذب کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button