مقالہ جات

مذہبی انتہا پسندوں کا تعلیمی اداروں کی طرف رخ

سندھ پولیس کے اس انکشاف کے بعد کہ معروف دانشور سبین محمود کے قتل سمیت سانحۂ صفورہ جیسے المناک واقعات میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمینسٹریشن (آئی بی اے) جیسے معتبر تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل افراد بھی ملوث پائے گئے ہیں، ملک کے سماجی حلقوں میں گویا ایک کھلبلی سی مچ گئی ہے، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار قدر دشوار ہے کہ اس انکشاف میں کوئی نئی بات نہیں ہے، مگر پشاور اسکول سانحۂ کے بعد پاکستان میں سیاسی اور سماجی سطح پر ایک نئی مثبت قومی سوچ نے جنم لیا ہے جس کو نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا ہے، فوجی عدالتوں کا قیام، دہشت گردوں کو سزائے موت دینے کے نئے دور کا آغاز، سیاسی و مذہبی دہشت گردی کے خلاف بلا امتیازآپریشن، یہ وہ تمام اقدامات ہیں جو اس تبدیلی کا حصہ ہیں۔ 

اس تبدیلی کے دور میں سندھ پولیس کے ان انکشافات نے یقیناً بنیادی معاشرتی اداروں (Social Institutions) بالخصوص خاندان (Family)کی کا رکردگی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے، کیوں کہ خاندان ہی وہ بنیادی ادارہ ہے جو کسی معاشرے کو بہتر افرادی قوت فراہم کرتا ہے مگر پاکستان میں یہ ادارہ نئی نسل کوشدت پسندی اور مذہبی انتہاپسندی سے بھی دور رکھنے میں ناکام نظر آتا ہے، ان بنیادی معاشرتی اداروں میں مذہب کی ناکامی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن اس حقیقت پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ دوسری جانب انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمینسٹریشن، جامعہ کراچی، سر سید یونیورسٹی، عثمان انسٹی ٹیوٹ جیسے دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں شدت پسندعناصر کی افزائش یا صرف ان کی موجودگی نہ صرف تعلیمی و ریاستی اداروں بلکہ پورے معاشرے کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔

اس حقیقت سے شاید ہی کوئی انکار کرے گا کہ پاکستان کے کالجز اور جامعات میں مذہبی انتہاپسندی کے فروغ کا اہم ترین ذریعہ اسلامی جمعیت طلبہ اور تدریسی اور غیر تدریسی ملازمین کی سطح پر جماعت اسلامی کا انتہائی منفی کردار کسی اہلِ نظرپاکستانی سے پوشیدہ نہیں ہے، بالخصو ص تعلیمی اداروں میں تکفیری دھشت گرد طالبان ، لشکرِ جھنگوی اور دیگر جہادیوں کی خاموش نصرت و حمایت کرنا اس مذہبی ٹولے کا پوشیدہ سیاسی ایجنڈہ رہا ہے، اس مذہبی گروہ کی مدد سے ہی جہادی یا مذہبی دھشت گرد تعلیمی اداروں میں کاروائیاں کرتے ہیں یا معصوم طالب علموں کو اپنے گمراہ کن وہابی نظریات سے شہریوں کے قتل پر آمادہ کرتے ہیں، واضح رہے کہ جامعہ کراچی 2010ء میں ہونے والے بم دھماکے میں بھی اسلامی جمعت طلبہ کے کارکنان ہی ملوث پائے گے تھے، اس گروہ کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حال ہی میں جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغِ عامہ میں اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ کراچی یونٹ کا سابق ناظم اُسامہ شفیق کو بطور اُستاد بھرتی کیا گیا ہے جبکہ اُسامہ شفیق جامعہ کراچی کے ایک طالب علم کے قتل کی ایف آئی آر میںبھی نامزد ہے مگر جماعتِ اسلامی کی طاقت ور لابی کے آگے کسی میں اتنی جرّات نہیں ہے کہ کوئی آواز بلند کرے، شُعبہ ابلاغِ عامہ تو ویسے بھی جماعتی لابی کے زیرِ اثر ہی رہا ہے۔ دوسری جانب کلیہ معارفِ اسلامیہ ہے جو دیو بند مدارس کی شکل اختیار کرچکا ہے یعنی کلیہ میں وہی تکفیری نظریات تعلیم دیے جاتے ہیں جو دیو بند مدارس کی تکفیری نصابِ تعلیم سے منصوب ہیں۔ یہ معاملہ صرف جامعہ کراچی کی حد تک محدود نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں یہی صورتِ حال ہے، جامعہ کراچی کا ذکر تو اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ کہ یہ پاکستان کے سب سے اہم ترین شہر کراچی کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے۔ اس تکفیری شدت پسندی کے فروغ میں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی مالی امداد نے اہم کردار ادا کیا ہے یہ مالی امداد پاکستان میں تکفیری دیوبند اور اہلحدیث مدارس اور مذہبی تنظیموں کو کی جاتی ہیں تاکہ پاکستان میں سعودی شریعت یعنی وہابیت کا نفاذ اور دیگر اسلامی مکاتب فکر کا ملک سے خاتمہ ممکن ہوسکے، عالمی سطح پر ان ہی مقاصد کے حصول کے لئے عرب ممالک نے اسرئیل اور امریکہ کے ساتھ ملکر داعش، القاعدہ، طالبان، بوکوحرام جیسی بدنام زمانہ تکفیری دھشت گرد تنظیمیں بنائی ہیں جوعراق، شام، افغانستان، پاکستان اور یمن وغیرہ میں مسلمانوں کو بالخصوص بے دردی سے قتل کرتی ہیں۔

سعودی عرب سمیت دیگر عرب حکمرانوں اور بادشاہو ں کی امریکہ، اسرئیل و دیگر مغربی ممالک سے ہمیشہ ہی سے بہترین سفارتی تعلقات رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ عرب حکمرانوں کی دین سے دوری رہی ہے۔ یہ وہ حکمران ہیں جن کے دن اور رات شراب و شباب میں گزر تے ہیں انھیں اپنے ملک اور قوم سے زیادہ اپنے خاندان کی فکر ہوتی ہے ۔ پاکستان کی موجودہ مسلم لیگی حکومت کا ہمیشہ ہی سے طالبان، دیوبند مدارس اور سعودی بادشاہوں کی جانب جھکاو رہا ہے مگر اس حکومت کے اہم وفاقی وزیر خواجہ آصف بھی اس حقیقت کا اظہار کر بیٹھے ہیں کہ "””پاکستان میں800سے زیادہ دیوبند مدارس دھشت گردی کی تعلیم دے رہے ہیں” جبکہ اس سے قبل وفاقی وزیر اطلاعات پرویزرشید نے تو یہ تک کہہ دیا کہ "پاکستان میں مذہبی مدارس جہالت کا گڑھ ہیں”، پرویز رشید کا یہ جملہ جہالت کے پروردہ اور نفرت کے مبلغ مفتی محمد نعیم ہی کو سب سے زیادہ بُرا لگا اور اُن کو لگنا بھی چاہیے تھا کیونکہ یہ جملہ اُن ہی کے متعلق تھا، پھر نتیجہ یہ نکلا کہ پرویزرشید صاحب کے خلاف مفتی نعیم نے ایک فتویٰ جاری کردیا اوراُن کو کافر قرار دے دیا۔ گزشتہ ماہ اپریل میں کالعدم تنطیم حزب التحریرکا ایک دھشت گرد جس کا نام شہریار تھا جامعہ پنجاب سے گرفتار ہوا تھا جس کے پاس سےمذہبی شرانگیز مواد بھی برآمد ہوا تھا، پولیس کی ابتدائی تفتیش کے مطابق شہریار کالعدم تنطیم کی توسیع کے لئے جامعہ پنجاب میں تبلیغ کیاکرتا تھا، پاکستان کی جامعات اور کالجز میں یہ روش عام ہے اور یہی نہیں اب وہابی نظریات کے فروغ کے لئے مدارس کی شکل کے جدید اسکول کھولے جارہے ہیں جہاں فرقہ پرستی اور نفرت پر مبنی تعلیم دی جارہی ہے۔

ملک میں انتہا پسندی ، فرقہ واریت اور مذہبی منافرت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ پاکستان میں اب تک 65,000 سے زیادہ پاکستانی اپنی جانیں دھشت گردوں کے ہاتھوں کھو چکے ہیں جس میں سیکڑوں کی تعداد میں طالب علم بھی شامل ہیں، یہ ہمارے طالب علموں کو کبھی بے رحمی سے قتل کرتے ہیں اور کبھی انھیں دھشت گرد بناتے ہیں، جن بچوں کو اسکول یا کالج جانا چاہیے انکو یہ خودکُش بمبار بناتے ہیں یعنی ان کےمذہب میں بچوں کے لئے صرف موت ہے ، اور موت ہے۔ اللّہ مسلمانوں کو وہابیت اور وہابیوں کے شر اور فتنے سے محفوظ فرمائے، آمین!

دوسری جانب پاکستان کی مردہ دم نام نہاد جمہوری حکومت ہے جو سعودی اور دیگر عرب بادشاہوں کی محبت میں اتنی سرشار ہے کہ اُس کو اپنی ملک کی تباہی نظر نہیں آتی، حد یہ ہے کہ نواز شریف اور اسکے حواریوں کو سعودی بادشاہوں کے ہاتھ چومتے ہوئے وہ خونِ ناحق بھی ہاتھوں پر نظر نہیں آتا جو تکفیری اور وہابی دھشت گردوں نے پاکستان کے اسکولوں میں بچوں کا بہایا ہے۔

مسلح افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی ذات اِس دورِ پُر آشوب میں پاکستانیوں کے لئے واحد اُمید کا سہارا ہے۔ جنرل راحیل شریف صاحب کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ دھشت گردی کے خلاف صرف ضرب عضب سے کام نہیں چلے گا، پاکستان میں دھشت گردی کا خاتمہ فتنۂ وہابیت کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button