مقالہ جات

نواز شریف یوٹرن نہیں لیں گے؟

توقعات کے عین مطابق پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایک متفقہ قرار داد کے ذریعہ اعلان کیا کہ سعودی عرب اور یمن کے باغیوں کے مابین تنازع میں پاکستان فریق نہیں بلکہ ثالث کا کردار ادا کرے گا۔ قرار داد میں کوئی ابہام نہیں بلکہ واضح طور پر کہا گیا کہ اگر سعودی عرب کی سلامتی کو کوئی خطرہ ہوا تو پاکستان سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ پارلیمنٹ کی یہ قرار داد سعودی عرب کی حکومت اور اس کے کچھ عرب اتحادیوں کے لئے غیر متوقع تھی۔ فوری طور پر متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ ڈاکٹر انور قرقاش سے یہ بیان دلوایا گیا کہ پاکستان کو یمن بحران پر مبہم موقف کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ ڈاکٹر انور قرقاش پچھلے سات سال سے متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے خارجہ ہیں۔ امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز اور کنگز کالج لندن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کس نے کیا تقریر کی اور اجلاس میں منظور ہونے والی قرار داد میں واضح جھکائو سعودی عرب کی طرف تھا۔ انہوں نے اپنے ردعمل میں جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ ایک وزیر خارجہ کے تدبر سے زیادہ ایک عرب شیخ کے غصے کا اظہار نظر آتے ہیں۔ پاکستانی حکومت نے ان کے بیان پر ردعمل جاری کرنے سے گریز کیا تاکہ تلخی میں اضافہ نہ ہو لیکن ڈاکٹر انور قرقاش کے بیان سے پاکستان کی حکومت کو یہ پیغام مل گیا کہ وہ یمن بحران میں ثالث کا کردار ادا کرنے کے قابل نہیں کیونکہ ثالث تو وہ ہوتا ہے جسے ایک تنازع کے دونوں فریق احترام کی نظر سے دیکھتے ہوں لیکن یہاں تو ڈاکٹر انور قرقاش صاحب پاکستان کو بھاری قیمت چکانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ صورتحال واقعی نازک ہے اور یہ نزاکت تقاضا کرتی ہے کہ میں ڈاکٹر انور قرقاش کو مزید جواب دینے سے گریز کروں کیونکہ سعودی عرب کے فوجی ترجمان نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ انہیں پاکستان کی طرف سے ابھی کوئی جواب نہیں ملا۔جس دن ڈاکٹر انور قرقاش نے پاکستان کو بھاری قیمت چکانے کی دھمکی دی عین اسی دن اسلام آباد میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے زیر اہتمام دفاع حرمین شریفین کانفرنس میں پارلیمنٹ کی متفقہ قرار داد کو ایک سازش قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ سعودی عرب فوج بھیجنے کا اعلان کرے۔ اس کانفرنس کی صدارت سینیٹر علامہ ساجد میر نے کی جو ہمیشہ مسلم لیگ(ن) کی مدد سے سینیٹر بنتے ہیں۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے اتحادی نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے خیالات سے یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ ایک طرف ان کی حکومت کہہ رہی ہے کہ حرمین شریفین کو کوئی خطرہ نہیں ہے دوسری طرف جمعیت اہل حدیث کو یہ خطرہ کہاں سے نظر آرہا ہے؟ علامہ ساجد میر صاحب بڑے قابل احترام عالم دین ہیں لیکن اگر وہ وضاحت فرمادیں کہ یمن کے حوثی باغیوں نے کب اور کہاں حرمین شریفین پر حملے کا اشارہ دیا تو ان کی بہت مہربانی ہوگی۔ ان کی درست رہنمائی سے صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی واقع ہوسکتی ہے۔
متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ اور سعودی عرب کے فوجی ترجمان کے بیانات سے مغربی میڈیا کے یہ دعوے غلط ثابت ہوگئے کہ پاکستان کی بری فوج اور فضائیہ یمن کے باغیوں کے خلاف حملوں میں حصہ لے رہی ہے۔ ڈاکٹر انور قرقاش کے’’کھڑاک‘‘ کے بعد کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت اپنے خلیجی محسنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے موقف کی وضاحت پیش کرنے کی جرأت نہیں رکھتی بلکہ خاموشی سے سعودی عرب فوج بھیج دے گی۔ یہ خاکسار ان تبصروں پر کچھ تحفظات رکھتا ہے ،پارلیمنٹ کی متفقہ قرار داد کو بھلے علامہ ساجد میر صاحب سازش قرار دیں لیکن اگر وزیر اعظم نواز شریف نے اس قرار داد کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے عرب دوستوں کی فرمائشیں پوری کرنے کی کوشش کی تو اس کا نتیجہ ایک نئے لانگ مارچ اور دھرنوں کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ حکومت کا یوٹرن عمران خان کو یہ موقع فراہم کرے گا کہ وہ وزیر اعظم صاحب سے اپنا حساب برابر کریں کیونکہ وزیر اعظم صاحب نے کچھ دن پہلے عمران خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قوم کو یوٹرن لینے والی قیادت نہیں چاہئے۔ علامہ ساجد میر صاحب خاطر جمع رکھیں کہ اگر وہ نواز شریف صاحب کو یوٹرن لینے پر مجبور کرتے ہیں تو عمران خان فوری طور پر حکومت کے خلاف حملے کا اعلان کردیں گے اور وہ پارلیمنٹ جو اگست ستمبر 2014ء میں حکومت کا دفاع کررہی تھی۔ اس مرتبہ حکومت کا دفاع نہیں کرے گی بلکہ پارلیمنٹ کا مذاق اڑانے والی حکومت سے استعفیٰ کا مطالبہ کررہی ہوگی۔ میری ناقص رائے میں وزیر اعظم نواز شریف پارلیمنٹ کی متفقہ قرار داد کی خلاف ورزی کی غلطی نہیں کریں گے کیونکہ انہیں بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کی حکومت کی سیاسی بنیادیں کتنی مضبوط ہیں؟
وہ لوگ جو یمن بحران پر پاکستانی پارلیمنٹ کی قرار داد کو سازش قرار دے رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ حرمین شریفین کے نام پر پاکستانیوں کو تقسیم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت حرمین شریفین کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں قربان کرنا ایک سعادت سمجھتی ہے لیکن یمن کی خانہ جنگی کو کفر اور اسلام کی جنگ قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟ یہ درست ہے کہ یمن کی خانہ جنگی دراصل ایران اور سعودی عرب میں سیاسی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ایران ہمارا ہمسایہ ضرور ہے لیکن ایران کے مقابلے پر سعودی عرب پاکستان کا زیادہ قابل اعتماد اتحادی ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر ایران کی نسبت سعودی عرب نے ہمیشہ کھل کر پاکستانی موقف کی حمایت کی ہے لیکن کیا سعودی عرب کو نہیں پتہ کہ پاکستان کی فوج اس وقت کئی اندرونی اور بیرونی خطرات کا مقابلہ کررہی ہے؟ ہم اپنے دفاع کی جنگ میں مصروف ہیں ،اپنی جنگ چھوڑ کر ہزاروں میل دور جاکر ایک اور جنگ میں کیسے شامل ہوجائیں؟ وزیر اعظم نواز شریف کو چاہئے کہ وہ سعودی عرب کی حکومت کے جائز تحفظات دور کریں۔ اس مقصد کے لئے پاکستان کی پارلیمنٹ میں موجود اہم سیاسی و مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کا وفد سعودی عرب بھیجا جائے۔ یہ وفد سعودی سرزمین پر اپنے سعودی دوستوں کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستانی پارلیمنٹ کی قرار داد کی وضاحت کرے اور اس کے ان الفاظ کو دہرائے جن میں سعودی عرب کی سلامتی کو درپیش ممکنہ خطرے کے مقابلہ کا وعدہ کیا گیا۔ اماراتی وزیر خارجہ اور سعودی عرب کے فوجی ترجمان کے بیان کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی بھی کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت جس صورتحال کا سامنا ہے اس میں خارجہ پالیسی کو ایک باقاعدہ وزیر خارجہ کی بجائے ایک مشیر اور ایک معاون خصوصی کی مدد سے چلانا مناسب نہیں۔
پاکستان یمن کے بحران میں فریق نہیں بنا بہت اچھا ہوا لیکن پاکستان کو بطور ثالث قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ کچھ غیر ملکی دوست یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانیوں سے پیسے کے عوض کوئی بھی کام لیا جاسکتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان نے اپنے دوستوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ زمانہ گیا جب اردن کے شاہ حسین کی درخواست پر پاکستان کے ایک فوجی حکمران نے اپنی فوج کو فلسطینی پناہ گزینوں پر چڑھا دیا تھا۔ پاکستانی فوج کو کرائے کی فوج نہ سمجھا جائے بلکہ قومی فوج سمجھا جائے۔ پاکستان کو چاہئے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے ہنگامی اجلاس کی کوشش کرے اور اس میں او آئی سی کی ایک مشترکہ فوج بنانے کی تجویز پر غور کیا جائے۔ نیٹو کی فوج بن سکتی ہے تو او آئی سی کی کیوں نہیں؟ پاکستان او آئی سی کی مشترکہ فوج کے قیام اور ٹریننگ میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس مشترکہ فوج کا فائدہ یہ ہوگا کہ یمن بحران جیسی صورتحال میں او آئی سی قیام امن کے لئے موثر کردار ادا کرسکے گی کیونکہ اس کے پاس اپنی ایک فوج موجود ہوگی۔ او آئی سی کی مشترکہ فوج صرف حرمین شریفین نہیں بلکہ تمام مسلم ممالک کا تحفظ کریں گی اور یوں کئی عرب ممالک کو اپنی حفاظت کے لئے امریکی فوج کی ضرورت نہیں رہے گی اور عرب ممالک ایک فوج کی جگہ او آئی سی کی فوج کی خدمات حاصل کرسکیں گے، پھر کوئی ڈاکٹر انور قرقاش سے یہ سوال نہیں پوچھے گا کہ جزیرہ عرب پر امریکی افواج کی موجودگی شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

کالم حامد میر

متعلقہ مضامین

Back to top button