ایران

یمن جنگ فوراً رکنی چاہیئے، ترکی اور ایران

تہران: ایران اور ترکی نے یمن جنگ کے سیاسی حل نکالے جانے کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔

یمن میں جاری جنگ کی وجہ سے ترکی اور ایران کے درمیان تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔ انقرہ نے تہران پر حوثی باغیوں کی پشت پناہی اور نتیجتاً خطے میں کشیدگی بڑھانے کا الزام لگایا تھا۔

منگل کو ترک صدر طیب اردغان نے تہران میں اپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی سے ملاقات کی۔

ملاقات کے بعد سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس میں روحانی نے کہا ‘ہم نے شام، عراق اور فلسطین کی بات کی اور یمن کی صورتحال پر طویل گفتگو کی۔ہم دونوں کا ماننا ہے کہ خطے میں خون خرابا اور جنگ فوری رکنی چاہیئے اور یمن میں مکمل سیز فائر ہونا چاہیئے’۔

ترک صدر نے یمن کا تذکرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے ایران کے ساتھ تعلقات پر طویل گفتگو کی۔

یمن میں حوثی باغیوں کے حامی ایران نے سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد کی بمباری کی مذمت کی ہے۔

روحانی نے امید ظاہر کی کہ دونوں ملک خطے کے دوسرے ملکوں کی مدد سے یمنیوں کے درمیان امن، استحکام اور مذاکرات کی فضا قائم کر سکیں گے۔

اردغان نے مارچ کے آخر میں تہران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یمن، شام اور عراق سے فوری طور پر اپنی فورسز کو واپس بلائے۔

اس بیان پر ایرانی وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف نے ردعمل میں انقرہ پر مشرق وسطی میں عدم استحکام بڑھانے کا الزام لگایا تھا۔

ایران کے اخبارات اور قدامت پسند حلقوں نے اردغان کے بیان کو ‘توہین’ قرار دیتے ہوئے ان کا دورہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ترکی اور ایران شام کے مسئلے پر بھی ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ تہران شامی صدر بشار الاسد جبکہ انقرہ باغیوں کی حمایت کرتا ہے۔

باہمی کشیدگی کے باوجود دونوں ملک رواں سال تجارتی تعلقات (تیس ارب ڈالرز) مضبوط کرنے کے خواہش مند ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button