شیعہ وقف بورڈ میں ہورہی بدعنوانیوں کی جانچ سی بی آئی سے کرائی جائے، مولانا حبیب حیدر
یوپی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا حبیب حیدر نے کہا کہ 2012ء میں الیکشن کے دوران یو پی کے وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ شیعہ سینٹرل وقف بورڈ میں بڑے پیمانے پر ہورہی بدعنوانیوں اور گھوٹالوں کی جانچ کراکر کارروائی کی جائیگی، جسکی بنیاد پر لکھنؤ کے شیعہ و سنی دنوں مسلک کے لوگوں نے متحد ہوکر سماج وادی پارٹی کو وٹ دیے اور کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ حکومت بننے کے بعد علماء کے ایک وفد نے مولانا سید کلب جواد نقوی کی سربراہی میں مارچ 2012ء کو ملائم سنگھ یادو سے ملاقات کی اور شیعہ وقف بورڈ میں ہورہی بدعنوانیوں کے پیش نظر سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کیا نیز دوبارہ الیکشن کرائے جانے کی بات رکھی، انہوں نے یقین دلایا کہ سرکار شیعہ وقف بورڈ میں ایماندار لوگوں کو لائے جانے اور بدعنوانیوں کے خاتمہ کے لئے پرعزم ہے لیکن دو ماہ بیت جانے کے بعد بھی جب کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو علماء نے مل کر شیعہ مہا سمیلن کا فیصلہ کیا جو 6 مئی 2012ء کو آصفی مسجد میں منعقد ہوا، اس سمیلن میں پورے ہندوستان سے علماء شریک ہوئے اور سماج وادی سرکار کے کابینہ منتری شیوپال سنگھ یادو نے اس سمیلن میں شریک ہوکر کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی اور وقف بورڈ میں ہورہی بدعنوانیوں کی سی بی آئی جانچ کا وعدہ کیا، اسکے بعد بھی اس وعدے پر عمل نہیں ہوا تو 28 مارچ 2012ء کو علماء نے مولانا سید کلب جواد نقوی کی سربراہی میں ودھان سبھا کے گھیراﺅ کا اعلان کیا اسی دن ریاستی سرکار نے شیعہ وقف بورڈ کو بھنگ کردیا گیا ساتھ ہی اس وقت کے چیئرمین جن پر بدعنوانیوں اور گھوٹالوں کے الزامات اور مقدمے قائم تھے انہوں نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔
3 دسمبر 2013 کو سی بی سی آئی ڈی نے حکومت کی سوچ کے برعکس وقف بورڈ میں ہوئے چار سو پچاس کروڑ روپے کے گھوٹالوں کو ظاہر کردیا اور وقف چیئرمین کو گھوٹالوں کا مجرم مانتے ہوئے انکی گرفتاری کا نوٹس جاری کیا، جسکے بعد ریاست کے مختلف تھانوں میں ایف آئی آر درج کی گئیں، اسکے باوجود سرکار نے وقف چیئرمین کے خلاف وقف منتری کے دباﺅ میں کوئی کاروائی نہیں کی، انہی انصافیوں کے مدنظر شیعہ قوم نے جولائی 2014ء کو وقف منتری کی رہائش گاہ کو گھیرنے کا اعلان کیا جس میں ہزاروں لوگ جمعتہ الوداع کو شریک ہوئے لیکن وزیر وقف کے اشارے پر اس آندولن کو روکنے کی کوشش کی جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ پولس نے انکے اشارے پر مظاہرین او ر علماء پر لاٹھی چارج کیا گیا جس میں سیکڑوں لوگ زخمی ہوئے، علماء کو چوٹیں آئیں اور ایک روزہ دار کو شہید کردیا گیا۔
کانفرنس میں علماء نے ریاستی سرکار پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ سرکار نے مولانا کلب جواد نقوی کی بیماری کا فائدہ اٹھاکر حسین آباد ٹرسٹ کی زمینوں پر تزئین کار ی کے نام پر ناجائز قبضے کئے ہیں اور اب چھوٹے امام باڑہ کی گیلری کو کھودنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں، علماء نے کہا کہ اگر چیئرمین اور وزیر وقف پرانے متولیوں کو بے ایمان بتا رہے ہیں تو وہ سی بی آئی جانچ سے کیوں بھاگ رہے ہیں، علماء نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سی بی آئی جانچ ہو تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے لیکن یہی لوگ سی بی آئی جانچ سے کترا رہے ہیں کیونکہ انکی بے ایمانیاں اس طرح بے نقاب ہوجائینگی ۔اس موقع پر اس سات رکنی کمیٹی کا اعلان بھی کیا گیا جو مولانا کلب جواد نقوی کی سرپرستی میں انکے صحت یاب ہونے تک کام کریگی اس کمیٹی میں مولانا حبیب حیدر، مولانا شباہت حسین، مولانا تسنیم مہدی، مولانا امیر حیدر، مولانا رضا حسین، مولانا فیروز حسین اور مولانا افتخار حسین انقلابی شامل ہیں، انہی تمام مسائل کے پیش نظر علماء نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ 14 مارچ 2015ء کو لکھنؤ میں ایک بڑی علماء کی کانفرنس کریں جس میں اتر پردیش کے ائمہ جمعہ کو مدعو کیا گیا ہے تاکہ ان مسائل پر غور و فکر کیا جائے کیونکہ اس وقت ریاستی سرکار کا رویہ بڑا مایوس کن ہے اور یہ سرکار شیعہ قوم کو بالکل نظر انداز کررہی ہے، اس جلسے میں آگے کا لائحہ عمل تیار کیا جائیگا، پریس کانفرنس میں مولانا حبیب حیدر، مولانا شباہت حسین، مولانا افتخار حسین انقلابی، مولانا تنویر حسین، مولانا زاور حسین نے شرکت کی۔