پاکستان

سانحہ پشاور: باقر کی آنکھیں سوال کرتی ہیں

بچہ دنیا میں آکر جو پہلا پیار کا لمس محسوس کرتا ہے وہ ماں کا ہے۔ بچہ روتا ہے چیختا ہے ضد کرتا ہے لیکن ماں کی گود میں آکر بالکل چپ ہوجاتا ہے۔ ماں کی گرم آغوش بچے کو تسکین فراہم کرتی ہے۔ باقر نے جب 15سال پہلے آنکھ کھولی تو پہلا لمس محسوس کیا وہ سیدہ فرحت کا تھا۔ اس کی ماں سیدہ فرحت کوئی عام خاتون نہیں تھی۔ حافظ قرآن، ایم اے اسلامیات، ایم اےعربی اور بی ایڈ فرحت درس و تدریس کے شعبے سے منسلک تھی۔ 1996ء میں پشاور سے تعلق رکھنےوالے سید عابد علی شاہ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ پہلے سید سطوت کی پیدائش ہو ئی پھر سید باقر نے ان کی زندگی مکمل کردی۔ سید باقر نے ہوش سنبھالا تو اپنے ارداگرد تعلیمی ماحول پایا۔ والدہ سیدہ فرحت صبح جب اسے اور سطوت کو اٹھاتیں تو پورا گھر صاف، ان کے یونیفارم تیار اور ساتھ میں گرما گرم ناشتہ تیار ہوتا۔ ایک ساتھ ناشتے کرکے یہ روز ایک ہی ساتھ آرمی پبلک اسکول ورسک روڈ کے لیے روانہ ہوتے۔ سطوت فرسٹ ائیر میں اور باقر نویں جماعت میں اور ان کی والدہ سیدہ فرحت فرسٹ ائیر کی استاد ۔ سیدہ فرحت اپنے سکول آرمی پبلک کی مقبول ترین اساتذہ میں سے ایک تھیں۔ صوم وصلاۃ کی پابند اور قاریہ بھی تھیں۔ خوش اخلاق اور ملنسار سیدہ فرحت طالب علموں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتی اور ان کی اخلاقی تربیت میں پیش پیش رہتیں۔

باقر کو تو یہ بہت ہی اچھا لگتا تھا کہ جہاں وہ پڑھتا ہے مما بھی وہاں ہی پڑھاتی ہیں لیکن باقر کی مما اس کو کہتیں بیٹا میں گھر میں آپ کی مما ہوں لیکن اسکول میں آپ کی استاد اس لیے کوئی مارجن نہیں ملے گا۔ کتنی بار ایسا ہوتا کہ باقر اپنی مما کی کلاس کے پاس سے گزرتا، ان کی ایک جھلک دیکھ کر پھر اپنی کلاس میں جاتا، کتنا اچھا لگتا ہے ناں ماں اسکول میں بھی بچے کے ساتھ ہو اور گھر میں بھی۔ باقر اسکول بریک میں مما کے ہاتھ کا بنا مزے مزے کا لنچ کرتا۔ کتنی بار ہوتا کہ پیار بھری ضد سے وہ اپنی مما سے پیسے بھی لیے لیتا اور کینٹین سے بھی چیزیں خریدتا۔ گھر واپسی ہوتی تو باقر اور سطوت مزے سے سو جاتے۔ فرحت گھر کے کام کاج میں لگ جاتیں شام کو بچوں کو چائے اور مزے مزے کے اسنیکس کے ساتھ اٹھاتیں، کبھی شامی کباب، کبھی چکن بوٹیاں تو کبھی نوڈلز۔ اس کے بعد وہ خود بچوں کو پڑھاتیں، ساتھ میں اسکول کا کام بھی کرتی رہتیں، بچوں کی کاپیاں، کبھی پیپرز تو کبھی نوٹس۔ رات گئے جب سید عابد گھر واپس آتے سب مل کر ٹی وی دیکھتے، کبھی تو باقر اور سطوت کا ٹی وی ریموٹ پر ہی جھگڑا ہو جاتا تو فرحت بہت پیار سے دونوں کی صلح کروادیتیں۔ رات کا کھانا سب مل کر ساتھ کھاتے۔ زندگی کتنی خوش گوار تھی۔
16دسمبر کو بھی معمول کے مطابق دن کا آغاز ہوا، سیدہ فرحت اٹھیں، فجر کی نماز پڑھی، گھر کی صفائی کیلئے کچن میں گئیں، اپنے شوہر اور بچوں کے لیے ناشتہ بنایا لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ فرحت کا بنایا ہوا یہ ناشتہ ان کا آخری ناشتہ ہوگا، اس کے بعد سطوت اور باقر کبھی بھی ان کے ہاتھ کا ذائقہ دوبارہ محسوس نہیں کرپائیں گے۔ اپنے ہاتھوں سے اپنےبچوں کے کپڑے استری کیے، ان کے جوتے پالش کیے۔ باقر اور سطوت دونوں ہی کہتے تھے کہ مما اب ہم بڑے ہوگئے ہیں، کر لیں گے کام، لیکن ماں کے لیے تو بچے ہمیشہ بچے ہی رہتے ہیں۔ بچے تیار ہوگئے، پھر اپنے شوہر کو ناشتہ کروایا، ان کو تیار ہونے میں مدد کی۔ سیدہ فرحت راستے میں سورۂ یٰسین پڑھتی رہیں جوکہ ان کا روز کا معمول تھا، وہ سفر میں کم بات کرتی تھیں، قرآنی آیات کا ورد کرنا ان کا معمول تھا۔ فرسٹ ائیر کا پرچہ تھا۔ سید سطوت اور سیدہ فرحت اوپر کی منزل کی طرف چلے گئے اورسید باقر نیچے ہال میں۔
فرسٹ ائیر، سکینڈ ائیر جس کا پرچہ تھا، سیدہ فرحت بھی وہاں موجو د تھیں، ان کی ڈیوٹی کمرۂ امتحان میں تھی اور باقر کی کلاس اور نویں جماعت کے سارے سیکشنز نے ہال میں ابتدائی طبی امداد کی تربیت لینی تھی۔ اچانک دہشت گردوں نے اسکول پر حملہ کردیا اور ہال میں آکر فائرنگ شروع کردی۔ اساتذہ کو جلایا گیا اور بچوں پر گولیاں برسائیں۔ سیدہ فرحت نے جب فائرنگ سنی تو وہ اوپر کی منزل سے نیچے کی طرف بھاگیں جہاں سے فائرنگ کی آواز آرہی تھی، انہوں نے بچوں کو بچانے کی کوشش کی، باقر بھی ان ہی بچوں میں کہیں تھا، ہر طرف شور اور آہ و پکار تھی۔ دہشت گردوں نے اپنی گولیوں کا رخ فرحت کی طرف کردیا اور یوں اپنے شاگردوں کے ساتھ سیدہ فرحت بھی شہادت کے درجے پر فائز ہوگئیں۔ باقر بھی وہاں ہی تھا، ایک گولی چھوتی ہوئی اس کے سر کے پاس سے نکل گئی، خوش قسمتی سے اس کی جان تو بچ گئی لیکن اس کی ماں سیدہ فرحت اس کے سامنے جام شہادت نوش کرگئیں۔
ہنستا کھیلتا باقر اب بالکل چپ ہوکررہ گیا ہے، وہ سب کام تو کررہا ہے لیکن کسی روبوٹ کی طرح، وہ سب سے خفا ہے لیکن اپنی خفگی ظاہر نہیں کررہا۔ سید عابد کہتے ہیں کہ فرحت کو دفناتے وقت انہوں نے خود کو بہت تنہا محسوس کیا، سیاسی قیادت میں سے کوئی بھی ان ساتھ کھڑا نہ ہوا۔ وہ منتظر رہے کہ تحریک انصاف، جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کا کوئی نمائندہ تو آئے گا لیکن کوئی نہ آیا۔ باقر زخمی تھا لیکن سید عابد اس گھر لے آئے کیونکہ اس کی والدہ کا جنازہ تھا، باقر کی دلجوئی کے لیے بھی کوئی نہ آیا۔ کہتے ہیں بچے تو سب کے ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن شاید سیاستدانوں کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ سید عابد کے مطابق ہماری داد رسی کے لیے صرف پشاور کے کور کمانڈر آئے اور بعد میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ہمیں بلایا اور ہمارے غم کو بانٹا۔
سید عابد علی شاہ کہتے ہیں کہ میری اہلیہ سیدہ فرحت تو شہادت کا رتبہ پا کر اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوگئیں تاہم میرے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد کرگئی۔ اب میں خود صبح اٹھتا ہوں، سطوت اور باقر کے لیے ناشتہ بناتا ہوں، ان کے لیے آفس سے واپس آکر کھانا بناتا ہوں۔ مگر مجھے یہ معلوم ہے ان کی زندگی میں ماں کی کمی کا خلا اب کوئی بھی پورا نہیں کرسکتا۔ میرے بچےبہت بہادری سے اسکول دوبارہ جانا شروع ہوگئے ہیں تاہم میں یہ جانتا ہوں کہ ان کے دل پر کیا بیت رہی ہے۔
سطوت اور باقر نے 12جنوری سے دوبارہ اسکول جانا تو شروع کردیا ہے لیکن اب سب چیزیں بدل گئی ہیں، اب ان کو ماں کے ہاتھ کا کھانا میسر نہیں، ماں کی آغوش میسر نہیں، ماں کا ساتھ میسر نہیں۔ باقر اور سطوت کے اسکول میں اب ان کی ماں استاد سیدہ فرحت موجود نہیں۔ اب سکول میں کبھی بھی وہ اس ماں کو نہیں دیکھ سکیں گے جن کے ساتھ وہ لنچ کرتے تھے اور پیسے لے کر کینٹین بھی جاتے تھے۔ اس سانحے کے بعد بھی باقر اس کلاس کے آگے سے گزرا ہوگا جہاں فرحت پڑھاتی تھیں۔اس کرب کو بیان کرنے کے لیے باقر کی نیم سرخ اور سوجی ہوئی آنکھیں ہی کافی ہیں۔ باقر کی کلاس 9بی کے 8بچے شہید ہوگئے، کلاس میں ان کی خالی کرسیاں باقی ہم جماعتوں کے لیے بہت تکلیف دہ ہیں۔
اب ذمہ داری حکمرانوں پر ہے جن ظالم دہشت گردوں کی وجہ سے باقر نے اپنی کل کائنات کو کھو دیا، ان سے حساب کب لیں گے۔ باقر کے لب خاموش ہیں لیکن آنکھوں میں بہت سے سوال ہیں، اس کو اپنی ماں کی اور ساتھیوں کی شہادت پر فخر ہے لیکن وہ خفا بھی ہےکیونکہ جن کے ساتھ زندگی کی شروعات کی وہ تمام ساتھی ابدی نیند سو گئے۔ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت جن کو سیاست سے ہی فرصت ہی نہیں اور اب انہوں نے شہدائے پشاور پر بھی الزامات کی سیاست شروع کردی ہے، اس طرح سے سانحہ پشاور کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوسکتا۔ 16جنوری کو سانحہ پشاور کو ایک ماہ مکمل ہوگیا، اس وقت ہمیں ضرورت ہے کہ باقر جیسے بچوں کو آگے بڑھ کر گلے لگائیں ان کو کھل کر رونے کا موقع دیں، ان کے آنسو صاف کریں، ان کے گلے شکوے سنیں، ان کو یہ احساس دلائیں کہ وہ مشکل کی گھڑی میں اکیلے نہیں پورا پاکستان ان کے ساتھ ہے۔ اگر اب بھی سیاستدان اپنے مفادات کی سیاست کرتے رہے، یہی ہوتا رہا اور کچھ جماعتوں کی مجرمانہ خاموشی اس ہی طرح جاری رہی تو قوم کے نونہال انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ خیبر پختون خوا حکومت کو اب دوسرے صوبوں کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ دو سا ل ہونے کو ہیں، انہوں نے تبدیلی کے کھوکھلے نعروں کے علاوہ کچھ صوبے کو دیا بھی ہے یا نہیں اور وفاق میں مسلم لیگ کو بھی اپنی مجرمانہ غفلت ختم کرکے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا خاتمہ کرے۔ عوام ان کی ذاتی چپقلش اور عناد کا کافی تماشہ دیکھ چکے ہیں، اب بہتری اسی میں ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے کام کیا جائے تاکہ باقر اور اس کے دوستوں کو انصاف مل سکے۔

جویریہ صدیق۔

متعلقہ مضامین

Back to top button