مقالہ جات

مولانا فضل الرحمان کے سوالات اور انکے جوابات!

جمیعت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے گذشتہ روز دہشتگردی میں ملوث مدارس کے حق میں پریس کانفرنس کرکے سب کو ورطہِ حیرت میں ڈال دیا ہے، مولانا نے حکومت سمیت تمام ریاستی اداروں سے سوال کیا ہے کہ کیا دہشتگردوں کو ملک کی مختلف یونیوسٹیوں سے نہیں پکڑا گیا، کیا کامرہ ائیر بیس، مہران ائیر بیس پر حملہ مدرسہ کے طالب علموں نے کیا؟، کیا جی ایچ کیو پر حملے میں مدرسے کا طالب علم ملوث تھا؟، کیا پشاور واقعہ میں بھی مدارس کے طالب علم ملوث تھے؟، مولانا نے مدارس کے حق میں اپنی پریس کانفرنس میں کئی واقعات گنوائے اور دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں مدرسے کے طالب علم تو دور کی بات ان کا مسلمان ہونا بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ سب حیران ہیں کہ آخر تمام مکاتب فکر کے علماء میں سے فقط جے یو آئی (ف) کے سربراہ کو ہی کیوں مدارس کا خیال آیا اور اتنے تحفظات کا شکار کیوں ہیں؟، باقی مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء اور وفاق المدارس کیوں خاموش ہیں اور حکومت کے اس اعلان کا کیوں خیر مقدم کر رہے ہیں کہ اگر کسی بھی مدرسے کا تعلق دہشتگردی سے ہے تو اسے ناصرف بند ہونا چاہیے بلکہ ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچنا چاہیئے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ قومی ایکشن پلان کے اعلان کے بعد فقط وفاق المدارس العربیہ یعنی دیوبند مکتب سے تعلق رکھنے والے مدارس کے علماء ہیں جو مدارس کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ دہشتگردوں کا ان کے مدارس سے کوئی تعلق نہیں، حالانکہ حکومت یا ریاستی اداروں نے ان مدارس کا نام تک نہیں لیا۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ان تحفظات سے لگتا ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے، مولانا فضل سمیت دیوبند مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کی خدمت میں کچھ نام سامنے رکھتے ہیں جن کا تعلق مدرسے سے تھا اور دہشتگردی کی ایک نہیں بیسیوں کارروائیاں کی گئیں اور ہزاروں پاکستانیوں کا ناحق خون بہایا۔ اس طویل فہرست میں سے فقط چند افراد کے نام درج زیل ہیں:۔

1۔ نعیم اللہ:
ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم پر نعیم اللہ نامی شخص نے حملہ کیا جو مدرسہ کا طالب علم تھا، اس حملے میں بارود سے بھری ایک گاڑی کو چوہدری اسلم کی گاڑی سے ٹکرایا گیا، جس میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ اس دہشتگرد کا تعلق اورنگی ٹاون کراچی سے تھا اور وہ جامعہ مسجد کے پیش نماز کا بیٹا تھا، ان کا والد مدرسہ صدیقہ البنات کے مہتمم ہے۔

2۔ بیت اللہ محسود:
کالعدم تحریک طالبان کے بیت اللہ محسود نے مدرسے سے ہی تعلیم حاصل کی اور تعلیم چھوڑنے کے بعد افغانستان چلا گیا، دہشتگردی کی بیسیوں کارروائیوں میں براہ راست ملوث رہا۔ اس کے علاوہ پاک فوج کے جوانوں کو بھی اسی دہشتگرد نے شہید کرایا۔

3۔ حکیم اللہ محسود:
حکیم اللہ محسود بیت اللہ محسود کا محافظ تھا، اس نے بھی ہنگو کے ایک مدرسے سے تعلیم حاصل کی، حکیم اللہ محسود امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا، اس شخص نے وزیرستان میں پاک فوج کے جنرل ثناء اللہ نیازی کو شہید کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی، یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں مولانا فضل الرحمان نے ارشاد فرمایا تھا کہ امریکی ڈرون حملے میں اگر کتا بھی مارا جائیگا تو وہ اسے شہید کہیں گے۔

4۔ حافظ گل بہادر
دہشتگردوں میں ایک نام حافظ گل بہادر کا ہے، حافظ گل بہادر نے ملتان کے ایک مدرسے سے تعلیم حاصل کی، تحریک طالبان جوائن کی اور دہشتگردی کی کئی کارروائیاں کرائیں، اس کا تعلق جے یو آئی (ف) سے بھی رہا ہے۔

5۔ ولی الرحمان محسود
دہشتگردوں کے سرغنہ ولی الرحمان محسود نے جامعہ اسلامی امدادیہ فیصل آباد سے تعلیم حاصل کی اور 2004ء تک حضرت مولانا فضل الرحمان کی جماعت سے اس کا تعلق رہا ہے، دہشتگردی کی کئی کارروائیاں اس شخص نے انجام دلائیں۔

6۔ ملا فضل اللہ:
ملا فضل اللہ نے مولوی صوفی محمد کے مدرسے میں تعلیم حاصل کی، طالبان کی مدد سے سوات میں مدارس بنائے اور تشدد کی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ سوات آپریشن کے بعد سے افغانستان کے علاقے کنڑے میں چھپا ہوا ہے اور ابتک پاکستان مخالف درجنوں کارروائیوں کر چکا ہے اور پاکستان کو انتہائی مطلوب افراد میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ ملا فضل اللہ کے بھارتی ایجنسی را سے براہ راست تعلقات ہیں۔

7۔ خالد حقانی
خالد حقانی کا درالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے تعلق رہا ہے، حکیم اللہ محسود کا قریبی ساتھی تھا، 18 اکتوبر 2013ء کو میڈیا کیخلاف فتویٰ بھی جاری کیا۔ مولانا سمیع الحق آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں طالبان انکے بیٹے ہیں۔

8۔ قاری حسین
قاری حسین جو خودکش حملہ آوروں کا مسٹر مائنڈ مانا جاتا تھا، اس کا تعلق کراچی کے مدرسے جامعہ فاروقیہ سے تھا۔ کئی بےگناہ پاکستانیوں کا قاتل سمجھا جاتا تھا۔ کئی معصوم لڑکوں کو اس نے خودکش حملہ آور بنایا اور کئی معصوم انسانوں کی جانیں لیں۔

9۔ مولانا نیاز رحیم
مولانا نیاز رحیم وہ شخص ہے جس نے 2007ء میں غازی فورس تیار کی۔ اس دہشتگرد نے لال مسجد کے طالب علموں کو اس فورس میں شامل کیا اور کئی دیگر پاکستانیوں کو اس فورس میں شامل کیا اور سکیورٹی فورسز پر حملے کرائے۔ خفیہ اداروں نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بھی انکشاف کیا ہے کہ غازی فورس کو دوبارہ متحرک کیا جا رہا ہے۔

10۔ مولانا عبدالعزیز
لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کی پاکستان مخالف سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، حتٰی وہ آئین پاکستان اور پاکستانی اداروں کو تسلیم نہیں کرتا، یہ لال مسجد ہی تھی جس نے اسلام آباد میں شریعت کے نام پر ڈنڈا بردار فورس تیار کی اور طالبات کو ڈنڈے پکڑا کر اسلام آباد میں پرتشدد کارروائیوں کا آغاز کیا۔ اس وقت بھی مولانا عبدلعزیز کی سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ خفیہ اداروں نے مولانا کی حالیہ بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو جڑواں شہروں کے امن کیلئے نقصان دہ قرار دیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان سے گذارش:
قبلہ محترم مولانا الرحمان صاحب یہ چند افراد کی فہرست ہے، جن کی دہشتگردی کی وجہ سے پاکستان ناقابل تلافی نقصان برداشت کرچکا ہے، ہزاروں بےگناہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، اربوں ڈالر کا معاشی نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اب جب کہ ان دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کا آغاز ہونے جا رہا ہے اور اتفاق رائے پیدا ہوا ہے تو آپ اپنے آپ کو ان دہشتگردوں کیساتھ کیوں جوڑ رہے ہیں۔؟ حالانکہ آپ ان کی سرگرمیوں کو غیر شرعی قرار دے چکے ہیں، حتٰی آپ پر بھی کئی حملے ہوچکے ہیں، فقط مذمت کرنے سے اس ملک سے دہشتگردی جانے والی نہیں ہے۔ لٰہذا دل بڑا کیجیئے اور ان کیخلاف قومی آواز کو سنیئے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button