مقالہ جات

عید زہرا سلام اللہ علیہا مبارک

ہمارے معاشرے میں بہت سی عیدیں آتی ہیں جیسے عید قربان ، عید غدیر،عید مباہلہ اور عید زہرا وغیرہ… یہ ساری عیدیں کسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں․

عید الفطر: یکم شوال کو ایک مہینہ کے روزے تمام کرنے کا شکرانہ اور فطرہ نکال کر غریبوں کی عید کا سامان فراہم کرنے کا ذریعہ ہے․

عید قربان: ۱۰/ذی الحجہ حضرت اسماعیل کو خدا نے ذبح ہونے سے بچالیا تھا اور اُن کی جگہ دنبہ ذبح ہوگیا تھا،جس کی یاد مسلمانوں پر ہر سال منانا سنت ہے

عید غدیر: ۱۸/ ذی الحجہ کو غدیر خم میں مولائے کائنات حضرت علی کی تاج پوشی کی یاد میں ہر سال منائی جاتی ہے،اِس دن رسول خدا نے غدیر خم کے میدان میں مولائے کائنات کو سوا لاکھ حاجیوں کے درمیان ،اللہ کے حکم سے اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا تھا․

عید مباہلہ: ۲۴/ ذی الحجہ کو منائی جاتی ہے،اس روز اہل بیت کے ذریعہ اسلام کو عیسائیت پر فتح نصیب ہوئی تھی․

عید زہرا: ۹/ ربیع الاول کو منائی جاتی ہے اور اس عید کے منانے کی مختلف وجہیں بیان کی جاتی ہیں،
مثلاً:بعض لوگ کہتے ہیں کہ ۹/ ربیع الاول کو دشمن حضرت زہرا ہلاک ہوا،لہٰذا یہ خوشی کا دن ہے اور اس روز کو ”عید زہرا“ کے نام سے موسوم کردیا گیا․

اس بارے میں علماء و مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ،بعض کہتے ہیں کہ عمر ابن خطاب نہم ربیع الاول کو فوت ہوئے اور بعض دیگر کہتے ہیں کہ ان کی وفات ۲۶/ ذی الحجہ کو ہوئی …جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب ۹/ ربیع الاول کو فوت ہوئے اُن کا قول قابل اعتبار نہیں ہے

”اکثر شیعہ یہ گمان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب ۹/ ربیع الاول کو قتل ہوئے اور یہ صحیح نہیں ہے… بتحقیق عمر ۲۶/ ذی الحجہ کو قتل ہوئے … اور اس پر ”صاحب کتاب غرہ“ ” صاحب کتاب معجم“ ”صاحب کتاب طبقات“ ”صاحب کتاب مسار الشیعہ “ اور ابن طاوٴوس کی نص کے علاوہ شیعوں اور سنیوں کا اجماع بھی حاصل ہے

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ۹/ربیع الاول کو جناب مختار نے امام حسین کے قاتلوں کو واصل جہنم کیا…لہٰذا یہ روز شیعوں کے لئے سرور و شادمانی کا ہے․ ہم نے معتبر تاریخ کی کتابوں میں بہت تلاش کیا لیکن کہیں یہ بات نظر نہ آئی کہ جناب مختار نے ۹/ربیع الاول کو امام حسین کے قاتلوں کو واصل جہنم کیا تھا…
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جناب مختار نے ابن زیاد کا سر امام زین العابدین کی خدمت میں مدینہ بھیجا اور جس روز یہ سر چوتھے امام کی خدمت میں پہنچا وہ ربیع الاول کی ۹/ تاریخ تھی،امام نے ابن زیاد کا سر دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا اور مختار کو دعائیں دیں-
بعض علماء کی تحقیق کے مطابق ۹/ ربیع الاول کو جناب رسول خدا کی شادی جناب خدیجہ سے ہوئی تھی اور حضرت فاطمہ زہرا ہر سال اس شادی کی سالگرہ مناتی تھیں اور جشن کیا کرتی تھیں ،لہٰذا آپ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے شیعہ خواتین نے بھی یہ سالگرہ منانی شروع کی اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا ،آپ کے بعد یہ خوشی آپ سے منسوب ہوگئی اور اس طرح ۹/ ربیع الاول کا روز شیعوں کے درمیان عید زہرا کے نام سے موسوم ہوگیا ،لہٰذا عید زہرا کی یہ وجہ مناسب معلوم ہوتی ہے،

مورخین کا اتفاق ہے کہ جناب مختار نے حضرت حنفیہ کی خدمت میں قاتلان امام علیہ السلام کے سروں کے ساتھ ایک خط بھی اس مضمون کے ساتھ لکھ کر بھیجا تھا کہ ؛ میں نے آپ علیہ السلام کے مددگاروں اور ماننے والوں کی ایک فوج آپ علیہ السلام کے دشمنوں کو قتل کرنے کے لِئے موصل بھیجا تھا ، اس فوج نے بڑی جوانمردی اور بہادری کے ساتھ آپ کے دشمنوں کا مقابلہ کیا اور بے شمار دشمنوں کو قتل کیا جس سے مومنین کے دلوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئ اور آپ کے ماننے والے نہایت خوش اور مسرور ہوئَے ، اس سلسلے میں سب سے بڑا کردار ابراہیم بن مالک اشتر نے ادا کیا جو سب سے زیادہ تحسین و آفرین کے مستحق ہیں ۔

جناب محمد حنفیہ کے سامنے جس وہ تمام سر پیش کیئَے گئَے تو دیکھتے ہی سجدہ شکر میں جھک گئَے اور جناب مختار کے حق میں دعا کی کہ ؛ خداوند مختار کو جزائَے خیر دے جس نے ہماری طرف سے واقعہ کربلا کا بدلا قاتلان حسین علیہ السلام لیا ہے ۔”؛

جناب مرحوم قیصر باہوی نے کیا خوب کہا ہے:

تاریخ محبت کا قلمکار ہے مختار
جو آج بھی زندہ ہے وہ کردار ہے مختار
اس نام سے گھبراتا ہے شبیر کا دشمن
گویا غمِ شبیر کی تلوار ہے مختار
انساں ہے ظالم کا کبھی ساتھ نہ دے گا
مظلوم کی اُلفت کا وہ معیار ہے مختار
ہر اہل نظر جس کی صداقت پہ فدا ہو
جذبات کے ہونٹوں پہ وہ گفتار ہے مختار
زہرا کے غریبوں کو دیا جس نے تبسم
کوفے کی فضا میں وہ عزادار ہے مختار
مسرور کیا عابد بیمار کو جس نے
وہ اَجر مودت کا طلبگار ہے مختار

قاتلین کربلا کا سردار «عمر بن سعد بن ابی وقاص» جناب مختار کے ہاتھوں ھلاک ہوا .

یہ وہ دن ہے جس دن زہرا کونین [س] کے دل کو کسی قدر سکون پہنچا ہو گا اور اپنے لال کے قاتل کی موت پر اظہار مسرت کیا ہو گا لہذا اسے عید زہرا کے عنوان سےجانا جاتا ہے۔

جناب حنفیہ نے ابن زیاد ، عمر سعد ، حسین بن نمیر اور شمر زی الجوشن وغیرہ کے سروں کو امام زینُ العابدین علیہ السلام کی خدمت میں ارسال فرمایا ، اُن دنوں حضرت مکہ معظمہ میں ہی مقیم تھے ۔ حضرت کی خدمت میں اُن ملعونوں کے سر پہنچے اور آپ کی نگاہ اُن سروں پر پڑی ، آپ علیہ السلام نے فوراً سجدہ شکر میں اپنا سر رکھ دیا اور بارگاہ احدیت میں عرض کی ، ” پالنے والے میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے ہمارے دشمنوں سے انتقام لیا ” ۔ پھر سجدے سے سر اٹھا کر آپ علیہ السلام نے فرمایا ” خدا مختار کو جزائَے خیر دے کہ اُس نے ہمارے دشمنوں کو قتل کیا” ۔

دوسری روایت میں ہے کہ جس وقت ابن زیاد کا سر آپ علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا آپ ناشتہ تناول فرما رہے تھے ۔ اُن سروں کو دیکھ کر آپ نے سجدہ شکر کیا پھر سر اٹھا کر فرمایا کہ ” خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے میری وہ دعا قبول کر لی جو میں نے دربار کوفہ میں کی تھی جب میرے پدر بزگوار کا سر طشت میں رکھا ہوا تھا ” خداوندا مجھے اُس وقت تک موت نہ دینا جب تک مجھے ابن زیاد ملعون کا کٹا ہوا سر نہ دکھا دے” ۔

۹ربیع الاول اس لحاظ سے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے کہ ۹ ربیع الاول سن 260 ھ کو حضرت حجت قائم آل محمد حضرت صاحب ُ العصر والزمان نے امامت کا منصب سنبھالا ۔
السلام ُ علیک یا صا حبُ آلعصر والزمان عجل اللہ ُ تعالٰی فرجہ، ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button