مقالہ جات

ملک اسحاق کی رہائی چند گھنٹوں میں متوقع، پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں میں خطرے کی گھنٹی۔ رپورٹ

رپورٹ: یوسف چانڈیو

شیعت نیوز:: لشکر جھنگوی کے پیچھے متحرک روح ملک اسحاق کی رہائی آئندہ 24 گھنٹوں میں متوقع ہے، ان کی ممکنہ رہائی نے پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ ملک اسحاق 25 دسمبر (کرسمس ڈے) پر ایک بار پھر آزاد شخص ہوگا۔ لاہور ہائی کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل صوبائی جائزہ بورڈ نے پشاور سانحہ کے تناظر میں ان کی نظربندی میں تین ماہ کی مزید توسیع کے لئے پنجاب حکومت کی درخواست کو22دسمبر کو مسترد کر دیا۔ سانحہ پشاور کی ذمہ دار طالبان کے کئی کمانڈرز کا تعلق ماضی میں لشکر جھنگوی سے رہا ہے۔ 9/11 واقعہ کے بعد پاکستان میں بیشتر دہشت گرد حملے لشکر جھنگوی کی شمولیت سے ہوئے۔ 1996ء میں تشکیل پانے والی اس تنظیم کے آج القاعدہ کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔

ملک اسحاق پر 100 فرقہ وارانہ مقدمات کے باوجود اس کی رہائی کا حکم سیکورٹی ایجنسیوں کے لئے سخت دھچکا ہے۔ پنجاب کے اسپیشل سیکرٹری داخلہ نے ملک اسحاق کو سخت سیکورٹی میں 22 دسمبر کو صوبائی ریویو بورڈ کے سامنے پیش کیا۔ بورڈ جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فرخ عرفان خان اور جسٹس عبدالسمیع خان پر مشتمل تھا جس نے بند کمرے میں سماعت کی۔ پنجاب حکومت کے وکیل نے پشاور سانحہ کے حوالے سے ملک اسحاق کی نظربندی میں مزید تین ماہ کی توسیع کی استدعا کی اور کہا کہ ان کی رہائی امن و امان کے لئے خطرہ ہوگی کیونکہ وہ مذہبی اجتماعات میں نفرت انگیز تقریروں کے لئے مشہور ہیں۔ سرکاری وکیل اور صفائی کے وکیل کی جانب سے دلائل کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے صوبائی نظرثانی بورڈ نے قرار دیا کہ پنجاب حکومت ملک اسحاق کو مزید نظربند رکھنے کے لئے مدلل شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی۔ حکومتی وکیل نے ریویو بورڈ کے برعکس فیصلے کا اندازہ کر کے اپیل واپس لینے کا فیصلہ کر لیا جس کی واپسی پر اپیل مسترد کر دی گئی اور ملک اسحاق کی نظربندی کا اختتام ہو گیا جو25دسمبر کو رہا ہو جائیں گے جب ایم پی او کے تحت نظربندی کا حکم ختم ہو جائے گا۔

ریویو بورڈ نے ان کی نظربندی میں تین ماہ کی توسیع25ستمبر2014ء کو کی تھی جب کہ ان کو درحقیقت 25جولائی2014ء کو ایم پی او کے تحت امن و امان کے لئے خطرہ قرار دے کر نظرانداز کیا گیا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ حکام نے پنجاب حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ لشکر جھنگوی کے حال ہی میں گرفتار اہم ٹارگٹ کلرز کے اعترافی بیانات کی روشنی میں ملک اسحاق کی رہائی کے لئے جائزہ بورڈ کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جائے۔ کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) پنجاب نے اپریل2014ء کو ملک اسحاق کی کمانڈ میں کام کرنے اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث گروہ کو گرفتار کیا تھا جنہوں نے وکلاء شاکر علی رضوی، ارشد علی شاہ، ڈاکٹر سید علی حیدر، ان کے بیٹے سید مرتضیٰ علی حیدر، خرم رضا قادری (سنی تحریک) اور تین شیعہ رہنماؤں علامہ ناصر عباس، سید علی حسین قزلباش اور سید مبشر حسین نقوی کو ملک اسحاق کی ہدایت پر قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا مگر پولیس کی تفتیش کے دوران اسحاق نے اس کی پرزور تردید کی تھی۔

سی سی پی او لاہور چوہدری شفیق احمد نے20اپریل2014ء کو پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ گروہ کے لیڈر عبدالرئوف گوجر نے ملک اسحاق کی ہدایت پر اپنا گروہ شروع کیا تھا تاہم ملک اسحاق نے ان الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا پولیس دہشت گردی کے الزامات میں انہیں12برس تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے باوجود ان الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہی جوکہ2011ء میں اس وقت ختم کر دیئے گئے تھے جب عدالت نے انہیں رہا کیا تھا تاہم پولیس حلقوں کا اصرار ہے کہ عدالت نے گواہوں کے ڈر جانے پر اس کو رہا کیا تھا۔ سماعت کے دوران پانچ گواہ اور ان کے تین رشتہ دار قتل کر دیئے گئے اور اسحاق کو عدم شہادت کی بناء پر بری کر دیا گیا۔ ایک اہم کیس1997ء میں ملتان میں ایرانی کلچرل سینٹر پر بم حملہ تھا جس میں8افراد مارے گئے تھے، جب تفتیشی افسر اعجاز شفیع نے دو گواہوں کو عدالت میں پیشی کے لئے تیار کیا تو اس کی کار کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج بشیر بھٹی نے ملک اسحاق کو سزا دی مگر سپریم کورٹ نے عدم شہادت کی بناء پر2006ء میں اس کی سزا ختم کر دی۔

مارچ2007ء میں انہی جج کو ملک اسحاق کے خلاف ایک اور کیس کی سماعت کرنا تھی وہ جب عدالت جانے کے لئے راستے میں تھے تو ان کی کار کے قریب سڑک کنارے سائیکل بم پھٹ گیا، ڈرائیور اور دو پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے، ملک اسحاق پر اس دھماکے کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا گیا، دو برس بعد استغاثہ کے گواہ اچانک بدل گئے، ملک اسحاق کو عدم شہادت کی بناء پر اپریل2009ء میں بری کر دیا گیا۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ نے اس رپورٹر سے کوئٹہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے پاس قابل بھروسہ ثبوت ہیں جو ثابت کر سکتے ہیں کہ لشکر جھنگوی کوئٹہ شاخ کی قیادت خصوصاً عثمان سیف اللہ کرد اور شفیق الرحمٰن کرد، ملک اسحاق سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فروری2013ء کو کوئٹہ قتل عام میں ملوث لشکر جھنگوی کے4میں سے2کارکن اس واقعہ کے دوسرے روز سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے مارے گئے، دونوں کا تعلق ملک اسحاق اور مولانا احمد لدھیانوی کے آبائی علاقے رحیم یار خان سے تھا تاہم ملک اسحاق کے قریبی ساتھی اصرار کرتے ہیں کہ پولیس اپنے کسی بھی الزام کو ثابت کرنے میں ناکام رہی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button