مقالہ جات

گلگت بلتستان کی صورتحال بگڑ رہی ہے

گلگت بلتستان کی سرزمین جو کہ قدرتی وسائل سے مالامال، معدنیات کے ذخیروں سے لیس اور سیر و سیاحت کے حوالے سے دنیا کی خوبصورت ترین وادیوں میں شمار ہوتی ہے۔ ہر طرح کے وسائل کی بھر مار رکھنے کے باوجود آج اپنے مقدر پر نوحہ کناں ہے، اس سرزمین کے ساتھ کوئی بھی مخلص نہیں، پاکستان اس خطے پر حکومت تو کر رہا ہے لیکن اس خطے کے لوگوں کو کوئی مراعات یا سہولیات میسر نہیں ہیں۔ گلگت بلتستان کے لوگ آئے دن احساس محرومی کی زنجیروں میں جکڑے چلے جا رہے ہیں، جس کے باعث یہاں کے لوگوں کے اندر علیحدگی کا عنصر بھی پروان چڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ان لوگوں کی آواز سنی جاتی، ان کے جائز مطالبات اور آئینی حقوق تسلیم کئے جاتے، الٹا اس سرزمین کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس علاقے کے تمام راستے اور سڑکیں غیر محفوظ ہیں۔ غیر ملکی سیاحوں کیلئے اس سرزمین میں بے پناہ جاذبیت کے باوجود وہ لوگ خوف کی وجہ سے اس علاقے کی طرف رخ کرنے سے ڈرتے ہیں، کیونکہ ماضی میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں غیر ملکی سیاحوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا۔

یہی سڑکیں ہیں جن پر ماضی میں اور آج بھی لوگوں کو بسوں سے نکال نکال کر گولیوں سے چھلنی کیا جا رہا ہے اور ریموٹ کنٹرول بموں کے ذریعے مسافر بسوں کو اڑایا جا رہا ہے، جیسا کہ گذشتہ روز اس طرح کا ایک اور واقعہ عالم برج گلگت کے مقام پر مسافروں کی بس پر بم حملے کی صورت میں سامنے آیا، جس میں 5 شیعہ افراد شہید جبکہ متعدد زخمی ہوگئے، اس سے کچھ روز قبل گلگت شہر کے اندر علی مسجد میں سات کلو وزنی بارودی مواد رکھا گیا، جو تباہی کا بہت بڑا منصوبہ تھا، جسے نمازیوں کی مدد سے کامیاب نہ ہونے دیا گیا، ایک طرف یہ بربریت ہے تو دوسری جانب اسی علاقے کی اکثریتی آبادی یعنی شیعہ حضرات کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ اہم پوسٹوں پر شدت پسند عناصر کی تعیناتی اور ترقیاں جبکہ شیعہ افراد کو اہلیت رکھنے کے باوجود بڑی پوسٹوں پر ترقی نہ دینے کا ایک گھناؤنا عمل جاری ہے، شیعہ عوام جو اس علاقے کو آزاد کروانے والے ہیں، جن کے بڑوں نے گلگت بلتستان کو ڈوگروں سے آزاد کروا کر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا، آج ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت انہیں ہی اس علاقے سے بے دخل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔
دوسرے علاقوں سے شدت پسندوں اور انتہا پسند گروہوں کو اس سرزمین پر آباد کرکے انہیں شیعہ دشمنی پر اکسایا جا رہا ہے، تاکہ یہ علاقہ فرقہ واریت کی آگ میں جل کر شیعہ لوگوں کا قبرستان بن جائے۔ قابلِ تشویش عمل یہ ہے کہ بظاہر شیعہ وزیراعلٰی اور کابینہ کے اندر شیعہ وزراء کو رکھ کر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہاں شیعہ حضرات حکومت میں شامل ہیں، جس سے دوسرے مسالک کے اندر ایک تعصب کی فضاء پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو دوسری جانب وہی شیعہ وزراء اور کابینہ کے ارکان خود شیعہ کُشی کے عمل میں برابر کے شریک نظر آتے ہیں۔ کبھی بھی گلگت بلتستان اسمبلی کے اندر کوئی ایسی قرارداد منظور نہیں کرائی گئی، جس سے اس علاقے میں دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کو روکا جاسکے۔ گلگت بلتستان کے اندر قانون اور آئین نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ کوئی میرٹ یا اصول نہیں ہے، بے ضابطگی، لا قانونیت، اقرباء پروری، من مانی اور سیاسی رشوت کا بازار گرم ہے۔

ایک سازش کے تحت شیعہ اور سُنی کے درمیان حالات کو خراب کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف کسی شیعہ کا قتل ہوتا ہے تو دوسری جانب کسی سُنی شخصیت کو قتل کر دیا جاتا ہے اور اس سے پورے خطے میں آگ لگ جاتی ہے، جس سے بے پناہ مالی و جانی نقصانات ہوتے ہیں اور اس کا زیادہ اثر بھی شیعہ حضرات پر ہی پڑتا ہے اور اس کی آڑ میں اہم شیعہ شخصیات کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان میں ایک رِیت بن چکی ہے کہ آپ کا کوئی بھی جائز آئینی مطالبہ اس وقت تک پورا نہیں ہوگا جب تک آپ روڈ پر آکر دھرنا نہیں دیں گے۔ کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جو دن رات اس کام پر لگے ہوئے ہیں کہ یہاں شیعہ، سُنی اور اسماعیلی برادری کے درمیان اختلاف کو ابھارا جائے، تاکہ یہ تینوں مکاتب فکر کسی ایک پیج پر نہ آسکیں اور اپنے آئینی حقوق کی آواز بلند نہ کرسکیں۔ اس علاقے میں لڑاؤ اور حکومت فرماؤ کی پالیسی عملاً نظر آرہی ہے۔

میں نے جب یہاں گلگت پہنچ کر قائد ملت جعفریہ گلگت بلتستان آغا سید راحت حسین الحسینی سے ان موضوعات پر بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے مسائل حل نہ ہونے میں ہمارے اپنے لوگوں کا دوغلہ کردار شامل ہے، جو اپنے سیاسی مفادات کی خاطر وسیع تر قومی و ملکی مفادات کو داؤ پر لگا رہے ہیں اور کچھ ایسی قوتیں بھی اس میں شامل ہیں، جو بظاہر تو پاکستان کی بقاء و سلامتی اور استحکام کیلئے کام کر رہی ہیں، لیکن ان کا طرزِ عمل پاکستان کے مفادات میں نہیں ہے کیونکہ اگر ایک طبقے کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی گئی جو کہ نظر آرہی ہے تو اس کا نتیجہ پاکستان کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور یہاں کے لوگوں نے اس ملک کیلئے قرنیاں دی ہیں اور آج بھی پاک فوج کے اندر اس علاقے کے بیشتر سپاہی آپریشن ضرب عضب میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں، لیکن اس علاقے کے شیعہ عوام کی قربانیوں کی کوئی قدر نہیں کی جا رہی۔

حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو محروم رکھنا اور اس کے عوام سے غیر منصفانہ رویہ برتنا، کسی بڑی سازش کا آئینہ دار دکھائی دیتا ہے۔ خطرہ اس بات کا ہے کہ اگر یہاں خانہ جنگی کا سا ماحول بن جاتا ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ فائدہ کس کو اور نقصان کس کو اٹھانا پڑے گا؟ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس علاقے کے عوام کی آواز سنے اور گلگت بلتستان کے اندر کلیدی عہدوں پر بھیجے جانے والے اعلٰی حکومتی عہدیداروں کے رویوں پر کڑی نظر رکھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کے حالات کو بگڑنے سے بچانے کیلئے یہاں کے ان مذہبی رہنماؤں سے بات کی جائے، جن کی ایک عوامی ساکھ ہے، ورنہ پورا گلگت بلتستان سڑکوں پر آجائے گا۔ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ فوری طور پر دہشت گردوں کے خلاف موثر آپریشن کرے، تاکہ شیعہ حضرات کے اندر بڑھتے ہوئے اشتعال کو کنڑول کیا جاسکے اور کسی بڑے تصادم سے بچا جاسکے۔
تحریر: علامہ سبطین شیرازی

متعلقہ مضامین

Back to top button