مقالہ جات

تحریک طالبان پاکستان کا خاتمہ قریب ہے، تجزیہ کار

تحریک طالبان پاکستان کے حالیہ اعلانات سے مسلسل ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ عسکریت پسند گروپ انتشار کا شکار ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ نے 7 ستمبر کو عمر خالد خراسانی کو افغان طالبان کے روحانی پیشوا ملا محمد عمر کے خلاف سازشیں کرنے اور خفیہ عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ روابط رکھنے کے الزامات میں تنظیم سے نکال دیا تھا۔
تحریک طالبان پاکستان نے یہ اعلان خراسانی کی جانب سے گروپ چھوڑنے کے چند ہفتوں بعد کیا تھا۔ خراسانی نے 26 اگست کو تحریک طالبان پاکستان کو چھوڑنے اور جماعت الاحرار کے نام سے ایک علیحدہ گروپ بنانے کا اعلان کیا تھا۔
اس نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو ارسال کردہ اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک وڈیو میں تسلیم کیا کہ تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈروں کے درمیان گروپ کے نظریے پر پڑنے والی پھوٹ اور بعض کمانڈروں کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کے فنڈز کے غلط استعمال کے الزامات کے باعث انہوں نے تنظیم سے علیحدگی اختیار کر لی۔
جماعت الاحرار کا دعوٰی ہے کہ اسے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں اور مالا کنڈ ڈویژن میں بعض ہم خیال کمانڈروں کی حمایت حاصل ہے۔
تحریک طالبان پاکستان، علیحدگی اختیار کرنے والے گروپوں کا مستقبل
تجزیہ کاروں نے اس علیحدگی کی وجوہات اور اس سے تحریک طالبان پاکستان اور علیحدہ ہونے والے گروپوں کے مستقبل پر مضمرات کے حوالے سے تفصیلی تجزیہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ مضمرات تحریک طالبان پاکستان کے لیے مثبت نہیں ہیں۔
بعض افراد اس انتشار کا سبب شورش پسندی کے خلاف فوج کی کارروائی آپریشن ضرب عضب کو قرار دیتے ہیں جبکہ دیگر اسے تحریک طالبان پاکستان کی اندرونی لڑائیوں سے منسوب کرتے ہیں جس کی ایک مثال جنوبی وزیرستان میں مقامی کمانڈروں کی آپس کی رسہ کشی ہے۔
دفاعی امور کے تجزیہ کار ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود نے کہا کہ ایک دوسرے کے خلاف کھلم کھلا الزامات اس بات کا واضح اظہار ہیں کہ آپس میں برسر پیکار کمانڈروں کے درمیان ایک واضح نظریاتی خلیج موجود تھی۔
انہوں نے کہا کہ اب وہ ایک دوسرے پر حقیقی نظریے سے منحرف ہونے کے برسر عام الزامات لگا رہے ہیں جس سے ان کی اندرونی تباہی شروع ہو چکی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک سنگین دھچکا ہے۔
انتشار سے حکام کی مدد
فاٹا میں سلامتی کے امور کے سابق سیکرٹری ریٹائرڈ بریگیڈیر محمود شاہ نے کہا کہ عسکریت پسند گروپوں کے درمیان اس نفاق کا فائدہ حکام اٹھائیں گے کیونکہ تقسیم سے عسکریت پسندوں کے ایسے گروپ وجود میں آئے ہیں جو زیادہ منظم نہیں ہیں اور فوج ان کا آسانی سے خاتمہ کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے عسکریت پسندوں کی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت بھی کمزور ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب سے محسود اور سجنا دھڑوں کے درمیان لڑائی کا آغاز ہوا ہے انہوں نے ایک دوسرے کو پناہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔
شاہ نے مزید کہا کہ خود فضل اللہ کو بھی کارروائیاں کرنے کی آزادی نہیں ہے کیونکہ اسے خراسانی سے چیلنج بھی درپیش ہے۔
پشاور یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اے زیڈ ہلالی نے کہا کہ اس کے علاوہ اہم کمانڈر خراسانی اور فضل اللہ کے درمیان عداوت کا نتیجہ سوات طالبان اور باجوڑ مہمند طالبان کے گروپ کے درمیان مزید لڑائیوں کی صورت میں بھی نکلے گا۔ انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے لیے وادی سوات تک واحد محفوظ راستہ قبائلی علاقوں سے ہو کر گزرتا ہے جو خراسانی کی کمان میں ہیں۔
ہلالی نے کہا کہ خراسانی کی بے دخلی سے یہ مراد ہے کہ فضل اللہ کی زیر قیادت حقیقی تحریک طالبان پاکستان زوال کا شکار ہے کیونکہ اب اسے ایک نئے اور سخت جان دشمن کا سامنا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ عسکریت پسندوں کے درمیان ایک خونریز جنگ ہو سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button