مقالہ جات

دیوبندی تکفیریوں کی ناپاک جسارت: رسول الله کے والدین اور عزیز از جان چچا ابو طالب پر کفر کے فتوے لگا دیے

اہلسنت کے لبادے میں چھپے ہوۓ دیوبندی حضرات کے اندر ایسےتکفیری عناصر ہمیشہ سے موجود رہے ہیں جن کی کوشش یہ رہی ہے کہ وہ پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیک یارسول اللہ و فداک ابی و امی یارسول اللہ کے آباؤاجداد ، بنو ہاشم اور اہل بیت اطہار کے بارے میں تاریخ کو مسخ کرکے پیش کریں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد محترم ، آپ کی والدہ ماجدہ ، آپ کے دادا اور دادی اور اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے والد محترم، آپ کی والدہ محترمہ کے بارے میں کسی نہ کسی طرح سے یہ ثابت کردیں کہ وہ مشرک ، کافر تھے اور پھر یہ دکھایا جائے کہ کیسے دوسرے اصحاب رسول رضوان اللہ اجمعین کے والدین اسلام کی دولت سے فیض یاب ہوئے اور کیسے یزید کا والد، والدہ ، دادا، دادی کو اسلام کی دولت نصیب ہوئی اور اس طرح سے ان کا مقصد رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خانوادے پر خاندان ابی سفیان کی فضیلت و سبقت ثابت کرنا ہوتی ہے

دیوبندی مسلک میں خانوادہ اہل بیت اطہار کے بارے میں اس طرح کے بغض اور عداوت کا اظہار تاریخ میں وقفوں وقفوں سےکئی بار کئی حضرات کی جانب سے ہوتا رہا اور اس حوالے سے علمائے اہل سنت کی رائے یہ ہے کہ دیوبندی مولویوں نے اگرچہ اس طرح کی تفریط پر مبنی حرکتوں سے اپنے آپ کو بری الذمہ تو قرار دیا لیکن انھوں نے ان حرکات کے مرتکبین کو اپنی صفوں سے خارج بھی نہیں کیا
کچھ سال قبل دیوبند کے سب سے قدیم اور مستند ادارے دار العلوم دیوبند کے دار الافتا کی جانب سے ایک تکفیری فتویٰ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ابو طالب کا حالت کفر پر مرنا صحیح حدیث سے ثابت ہے، اسی طرح فتح مکہ کے وقت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا ثابت ہے اور وہ ہمارے نزدیک محترم ہیں
تکفیری دہشت گردی، شان اہل بیت اطہار میں تنقیص کرنے، بنو ہاشم کی کردار کشی کرنے اور اکابر بنو ہاشم کے کفر و شرک کے جھوٹے افسانے گھڑے جانے کا سلسلہ بنو امیہ کے دور سے ہی شروع ہوگیا تھا اور دیوبند سے تعلق رکھنے والے مولوی غلام اللہ چکڑالوی جس کا مدرسہ جامعہ تعلیمات قرآن راولپنڈی ہے نے اس سلسلہ میں غیرمعمولی شہرت حاصل کی اور اس کے خیالات کو اگرچہ علمائے دیوبند نے اس کے ذاتی نظریات قرار دیا لیکن اسے کبھی اپنی صف سے خارج نہیں کیا، اسی طرح سے اس کے شاگردوں میں پروفیسر محمود عباسی ، علامہ تمنّا ‏عمادی سمیت درجنوں دیوبندی شامل ہوگئے
پروفیسر محمود عباسی نے 1969ء میں ” وقائع زندگانی ام ھانی ” نامی ایک کتاب لکھی اور اس کتاب میں اس نے جناب حضرت عبدالمطلب، حضرت ابو طالب، فاطمۃ بنت اسد والدہ حضرت علی ابن ابی طالب کی شان میں سوئے ادبی کی اور ان کو کافر و مشرک ثابت کرنے کے لیے زور لگادیا
جنرل ضیاء الحق کی دیوبندی نواز فوجی آمریت کے دور میں ابو معاویہ نامی ایک شخص نے “سید نا یزید” نامی کتاب لکھی ، وہابی مولوی احسان الہی ظہیر نے عربی زبان میں ایک کتاب ” البریلویہ ” تحریر کی جس میں اہلسنت مسلمانوں جن میں سنی، بریلوی اور صوفی شامل ہیں کو مشرک، بدعتی اور کافر کہا گیا اور رسول الله کے آبا و اجداد اور ان کے اہلبیت کی شان میں گستاخی کی گئی
یہ وہی دور ہے جب 6 ستمبر 1985ء کو ایک دیوبندی مولوی حق نواز جھنگوی جس نے اہل سنت کے معروف عالم دین مولانا اشرف علی سیالوی کے ہاتھوں ایک مناظرے میں بدترین شکست کھائی تھی ایک خارجی ، تکفیری ، انتہا پسند وہابی خیالات پر مبنی جماعت کی بنیاد رکھی جس کا نام انجمن سپاہ صحابہ رکھا گیا انجمن سپاہ صحابہ پھر سپاہ صحابہ پاکستان بنی ، پھر ملت اسلامیہ ہوئی اور آج کل یہ اہلسنت والجماعت کہلاتی ہے، یہی جماعت لشکر جھنگوی کے لبادے میں معصوم سنی صوفی، بریلوی، شیعہ، مسیحی اور احمدی پاکستانیوں کا قتل کرتی ہے – اس تکفیری دیوبندی تنظیم کا مقصد جہاں پورے ملک میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانا ہے ، وہیں اس تنظیم کے سامنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی محبت کی آڑ میں بغض علی و آل محمد کا مظاہرہ کرنا بھی ہے
اس تنظیم نے بقول قاضی مظہر حسین دیوبندی، دیوبندی مدارس کے طلباء ، اساتذہ ، عام دیوبندی خیالات کے حامل مرد و عورتوں میں صحابہ کرام کا نام غلط استعمال کرتے ہوئے اسلام دشمن خیالات کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور دیوبندیوں میں کوئی عالم ایسا نہیں ہے جو ان کی شرانگیزی کے راستے میں روکاوٹ کھڑی کرے
یہ تنظیم دیوبندی مکتبہ فکر میں فتنہ خوارج و تکفیر کو از سرنو زندگی بخشنے اور پاکستانی سماج کو ریشہ ریشہ کرنے میں کامیاب رہی ہے اور اس کی وجہ سے دیوبندی گھرانوں کے ہزاروں بچے دھشت گرد بن گئے اور لاکھوں عام دیوبندی مسلمان، تکفیر اور دہشت گردی کے حامی ہو گئے
آج کل اس تکفیری و خارجی دیوبندی تنظیم سے وابستہ نام نہاد عالموں میں ایک وتیرہ پروان چڑھ چکا ہے اور وہ وتیرہ خاندان بنو ہاشم کو بنو امیہ کے خانوادے کے مقابلے میں کمتر دکھانے کا ہے اور اس سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاشمی اجداد اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے والد و والدہ محترمہ کے ایمان کی نفی ان کا طرہ امتیاز بن چکا ہے اور انکار کے دوران یہ کبھی بھول کر بھی ان سنّی علماء اور مشائخ کا زکر بھول کر بھی نہیں کرتے جو ایمان والدین کریمین اور ایمان ابی طالب و فاطمہ بنت اسد کے قائل تھے
علامہ صائم چشتی نے 80ء کے عشرے کے آخر میں جب دیوبندی اور وہابی مولویوں کے اندر اس ناصبی رجحان کے بہت زیادہ غالب ہونے کو دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ جب سے سپاہ صحابہ پاکستان بنی ہے تب سے دیوبندی تکفیریت جو دیوبندی مدرسوں کے اندرچند گمراہ مولویوں اور ان کے پیروکاروں تک محدود تھی وہ اب پاکستان کی گلیوں اور محلوں تک آگئی ہے اور اس تکفیریت کے پہلو میں بار بار کفر عبدالمطلب، ابی طالب، فاطمہ بنت اسد کا زکر ہوتا ہے تو انھوں نے بہت ہی محنت کرنے کے بعد ایک کتاب ”ایمان ابی طالب ” کے نام سے لکھی یہ کتاب صرف ایمان ابی طالب سے ہی معاملہ نہیں کرتی بلکہ اس میں حضرت عبدالمطلب و عبداللہ و آمنہ رضی اللہ عنھم کے ایمان کے ثبوت بھی پیش کئے گئے ہیں اس کتاب پر جید علماء و مشائخ اہل سنت نے تقاریظ لکھیں اور علامہ صائم چشتی کے نکتہ نظر کی تائید کی
علامہ صائم چشتی نے جب سپاہ صحابہ پاکستان (اب اسے سپاہ یزید لکھا جائے گا ) کے جھوٹے پروپیگںڈے اور جعلی بناوٹی باتوں کا پردہ چاک کیا اور فتنہ تکفیر کے علمبردار دیوبندی وہابیوں کو بے نقاب کرنا شروع کیا تو سپاہ یزید کے ترجمان رسالے نے صائم چشتی کو زبردستی رافضی شیعہ قرار دینے کی کوشش کی اور اس زمانے میں حق نواز جھنگوی ، ضیاء الرحمان فاروقی سمیت یزیدی صف کے لکھاریوں نے صائم چشتی کے دلائل کے جواب میں ان پر رافضی ہونے کا الزام عائد کردیا – دیوبندی وہابی خارجی و تکفیری قوتوں نے یہ پہلی مرتبہ نہیں کیا بلکہ ان کی جانب سے تو ہر اس آدمی کو رافضی کہنے کی کوشش ہوئی جس نے مدح اہل بیت اطہار کی اور حضرت علی کے والدین اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد کے ایمان کو ثابت کیا
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کفالت کرنے، آپ کی مدد و نصرت کرنے میں سب سے آگے آپ کے عزیز از جان چچا حضرت ابی طالب رضی الله تعالی عنہ تھے جن کا نام تاریخ میں عمران اور عبد مناف آتا ہے- گستاخان رسول دیوبندیوں اور وہابیوں نے اپنی ناصبیت اور یزیدیت کے ہاتھوں مجبور ہو کر حضرت ابو طالب کے ایمان کے بارے میں سب سے زیادہ شکوک و شبہات پھیلائے
صآئم چشتی نے لکھا ہے کہ برسہا برس کی تحقیق کے بعد مکّہ مکرمہ اور مدینۃ المنورہ کے علمائے کرام کو حضرت ابو طالب کے مومن ہونے بارے کوئی شک نہیں رہ گیا تھا چار سال کا عرصہ تحقیق کرکے مکّہ مکرمہ کے قاضی اور مسجد الحرام کے خطیب سید احمد بن زین دحلان مکّی رحمۃ اللہ علیہ نے 1312ھ میں حضرت ابی طالب کے ایمان بارے شاندار کتاب تحریر فرمائی جس کا عنوان تھا اسنی المطالب فی نجات ابی طالب – جبکہ رسائل رضویہ کی جلد دوم میں اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ احمد رضا فاضل بریلوی نے صراحت کی ہے کہ مکہّ اور مدینۃ المنورہ سمیت سارے حجاز میں خطبات جمعہ و عیدین میں یہ جملہ بھی شامل تھا وارض عن اعمام نبیک الاطائب حمزۃ ، والعباس و ابی طالب – گویا علمائے حرمین کی اکثریت کو یہ یقین تھا کہ حضور اکرم کے چچا و مدد گار حضور اکرم کے آباء و اجداد اور آپ کے چچا ابی طالب و چچی فاطمہ بنت اسد با ایمان تھے اس معاملے پر علامہ نبھانی نے جواہر البحار ، علامہ سید الناس نے “عیون الاثر ” جیسی شاندار کتب تصنیف کیں
محمود عباسی سمیت سپاہ یزید کے لوگ حضور علیہ الصلوات والتسلیم کے دادا عبدالمطلب کو غلط طور پر نابینا، نحیف و نزار لکھا جب حضرت عبداللہ اور آپ کی والدہ ماجدہ کی وفات ہوگئی تو یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کفالت زبیر بن عبدالمطلب نے کی اور جب وفات عبدالمطلب ہوئی تو بھی کفیل زبیر بن عبدالمطلب بنے نہ کہ حضرت ابی طالب بنے جبکہ یہ بھی جھوٹ لکھا گیا کہ علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی والدہ محترمہ نہ تو ہاشمی قبیلے سے تھیں ، نہ ہی انھوں نے ہجرت کی اور نہ ہی ایمان قبول کیا – سید دحلان زین مکّی اور دیگر علمائے اہل سنت نے اس جھوٹ کا پول کھولتے ہوئے کئی ایک شواہد پیش کئے ہیں جن میں سے کچھ کا زکر میں برکت کے لیے کررہا ہوں
ولمّا مات عبدالمطلب اوصی بمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الی ابی طالب فکفلہ و احسن تربیتہ ما سافر بہ صحبتہ الی الشام وھو شاب لما بعث قام فی نصرتہ و زب عنہ من عاداہ م مدحہ عدتہ مدائح منھما قولہ استسقی اہل مکتہ یسقی
یہ اقتباس الاصابہ فی تمیز الصحابہ کی جلد چار ص 175 مطبوعہ دارالکتب بیروت سے لیا گیا ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عبدالمطلب نے اپنی وفات کے وقت حضور علیہ الصلوات والتسلیم کی کفالت کا زمہ اپنے بیٹے عمران / عبد مناف المعروف ابو طالب کو دیا اور یہ ابو طالب تھے جو وفات عبدالمطلب کے بعد سقایہ کی خدمت پر مامور ہوئے تھے
اسی الاصابہ فی تمیز الصحابہ کی جلد چار صفحہ 375 مطبوعہ مصر پر حضرت علی ابن ابی طالب کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد کے بارے میں یوں درج ہے
فاطمۃ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف الہاشمیہ والدۃ علی و اخوتہ ،قیل انھا توفیت قبل الھجرۃ والصحیح انھا ھاجرت و ماتت بالمدینۃ و بہ جزم الشعبی قال اسلمت و ھاجرت و توفیت بالمدینۃ و اخرج ابن ابی عاصم من طریق عبداللہ بن محمد بن عمر بنن علی ابن ابی طالب عن ابیہ ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفن فاطمۃ بنت اسد فی قمیصہ و قال لم نلق بعد ابی طالب ابر لی منھا و قال ابن سعد کانت امراۃ صالحتہ و کان النبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم یزورہا وتقبیل فی بیتھا
ان عبارتوں سے واضح ہوتا ہے کہ ایک تو فاطمہ بنت اسد والدہ ماجد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم مہاجر صحابیہ تھیں ، ہاشمی تھیں اور رسول کریم کے نزدیک ابو طالب کے بعد سے سے زیادہ شفیق ہستی ان کی تھی اور رسول کریم نے ان کو اپنی قمیص کا کفن دیا اور ایک روائت میں ہے کہ ان کی قبر میں خود لیٹ کردیکھا اور آپ اکثر ان کے گھر تشریف لیجاتے اور دوپہر کو وہاں آرام فرماتے تھے
جبکہ اگر تفاسیر علمائے اہل سنت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سورۃ والضحی کی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے اکثر علمائے تفسیر نے الم یجدک یتیما فاوی میں آپکے ماوی و ملجی بننے والی ہستی سے مراد ابو طالب لی ہے اور اس وقت آپ کی عمر مبارک آٹھ سال بتائی ہے
صائم چشتی کی کتاب پر تقریظ لکھنے والوں میں شیخ الاسلام پیر قمر الدین سیالوی، علامہ محمد اقبال احمد فاروقی، علامہ عطاء محمد بندیال، علامہ شبیر حسین ہاشمی، علامہ سعید احمد کاظمی اور صاحبزادہ افتخار الحسن شامل تھے
علامہ صائم چشتی نے لکھا کہ اسلام کی حفاظت کا جو کام جناب حضرت ابی طالب رضی الله عنہ نے شعب ابی طالب کے اندر محصور ہونے تک کیا اور اس سے کچھ دیر پہلے بنو ہاشم سے باب ملتزم پر جو حلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے دین کی حفاظت کا لیا اس کا احسان کبھی اتارا نہیں جاسکتا
مورخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم منبر رسول پر تشریف فرما تھے کہ انھوں نے ایک بادل کا ٹکڑا آسمان پر دیکھا تو آپ مسکرا پڑے اور صحابہ کرام کے استفسار پر بتایا کہ ان کو ابی طالب یاد آگئے تھے اور وہ واقعہ یاد آیا جب مدینہ میں خشک سالی تھی اور ابی طالب نے آپ کو کعبہ کے سامنے کھلے آسمان تلے کھڑے ہوکر آپ کے چہرہ مبارک کا وسیلہ دیکر ابر رحمت کی دعا مانگی تھی اور مکّہ کی گلیاں ، بازار اور محلے بارش سے جل تھل ہوگئے تھے اور اس موقعہ پر حضرت ابو طالب نے ایک قصیدہ کہا اور پھر آپ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو وہ قصیدہ پڑھنے کو کہا ، آپ نے وہ پڑھا تو حضور اکرم اس قصیدہ کو سنکر اتنا مسکرائے کہ فرط مسرت سے آپ کی آنکھوں میں بے پناہ چمک آگئی اور آپ کے دندان مبارک نظر آنے لگے
بعد از وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ہر دورمیں خاندان بنو ہاشم کے خلاف عداوت اور بغض کا مظاہرہ ہوتا رہا اور اس حوالے سے بنو امیہ کے حامیوں اور نمک حلالوں نے بنو ہاشم کے فضائل میں کمی کرنے کی کوشش بھی کی لیکن علماء و مشائخ اہل سنت نے ایسی کوششوں اور فتنوں کو عشق مصطفی اور عقیدت اہل بیت اطہار کے زبردست اظہار کے زریعے سے ختم کرڈالا
آج سوشل میڈیا پر اور الیکٹرانک میڈیا پر پھر یہ فتنہ عداوات اہل بیت سراٹھارہا ہے اور اس موقعہ پر ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے فتنوں کا سدباب کیا جائے یہ فتنہ اس لیے بھی سوشل میڈیا پر سراٹھا رہا ہے اور لوگ گمراہ ہورہے ہیں کہ اس کو اٹھانے والے اپنے آپ کو سنّی ظاہر کرتے ہیں جبکہ ایسے لوگوں کا سنّیوں سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے، تکفیری دہشت گرد کا جو طوفان عام سنی اور شیعہ مسلمانوں اور مسیحیوں اور دیگرمذاھب کے ماننے والوں کے خلاف دیوبندی اور سلفی وہابی دہشت گردوں نے پاکستان، عراق، شام، لیبیا اور دیگر ممالک میں بپا کر رکھا ہے، اس تکفیر کی بنیاد دیوبندیوں اور وہابیوں کے یزیدی اور اموی آبا و اجداد نے رسول الله کے والدین، دادا، اور چچا کی تکفیر کر کے آج سے چودہ سو سال پہلے رکھ دی تھی

متعلقہ مضامین

Back to top button