پاکستان

رینجرز کا علامہ علی اکبر کمیلی کے قتل میں ایم کیو ایم کے ملوث ہونے کا الزام، الطاف حسین کی تردید

پاکستان رینجرز نے الزام عائد کیا ہے کہ علامہ عباس کمیلی کے جواں سال فرزند ذاکر اہل بیت (ع) علامہ علی اکبر کمیلی کی شہادت کے واقعہ میں متحدہ قومی موومنٹ ملوث ہے، تاہم ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے رینجرز کے اس مؤقف کی سختی کے ساتھ مذمت کرتے ہوئے تردید کردی۔ تفصیلات کے مطابق رینجرز کے ترجمان کی جانب سے میڈیا کو فراہم کی گئی معلومات میں اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ علامہ علی اکبر کمیلی کے قتل میں ایم کیو ایم کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں، تاہم ایم کیو ایم کی اعلی قیادت نے رینجرز کے اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا کہنا ہے کہ سرکاری ایجنسیوں، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چند متعصب افسران یہ پروپیگنڈے کررہے ہیں کہ ایم کیو ایم کے کچھ لوگ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں ملوث ہیں، اگر ایم کیو ایم کا کوئی ایک کارکن یا رہنما ان جرائم میں ملوث ہو اور آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی یا کسی بھی ایجنسی کے پاس اس کے ناقابل تردید ٹھوس ثبوت و شواہد موجود ہوں تو ایم کیو ایم کے اس فرد کو کسی بھی چوک پر سرعام پھانسی دیدی جائے۔

ایم کیو ایم کے قائد نے مزید کہا کہ فوج اور عسکری اداروں نے جو جہادی گروپ بنائے وہی عناصر آج نہ صرف معصوم شہریوں کو مار رہے ہیں بلکہ مسلح افواج کے افسروں جوانوں کو مار رہے ہیں اور مسلح افواج پر حملے کررہے ہیں، وقت کا تقاضہ ہے کہ مسلح افواج کے اندر موجود انتہاء پسند عناصر کے خلاف بے رحمانہ کارروائی کی جائے، ایسے تمام مدرسے جہاں نوجوانوں کو دہشت گردی کی ترغیب دی جاتی ہے ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری پوری زندگی شیعہ سنی بھائی چارے اور اتحاد بین المسلمین کیلئے گزر گئی، مجھے یہ جان کر بہت افسوس ہوا ہے کہ ایم کیو ایم پر فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کے شرمناک الزامات لگائے جارہے ہیں اور اصل مجرموں کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
الطاف حسین کی اگر ان باتوں پر غور کیا جائے تو کسی حد تک ان باتوں میں صداقت ضرور ہے کہ جب ضیاء الحق کے دور حکومت میں کراچی میں ملت جعفریہ پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تھا، عزاداری کے جلوس تک نکالنا دشوار تھا کہ ایسے میں الطاف حسین کی جماعت نے شیعہ سنی ہم آہنگی میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ وہ وقت بھی یہاں کے لوگوں نے دیکھا کہ لیاقت آباد کے بعض علاقوں میں عزاداری کے جلوس نکالنا دشوار تھا تو الطاف حسین کے نظریاتی کارکن ان جلوسوں کی حفاظت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ یہ تو تھی کل کی بات لیکن آج ہر ذی شعور محسوس کرسکتا ہے کہ صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ الطاف حسین بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے کے باعث فرقہ واریت کے قائل نہیں لیکن ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی اور تنظیم میں شامل بعض شخصیات تکفیریت کے سرپرست بن چکے ہیں۔
تاریخ پر اگر نظر دوڑائی تو اس تبدیلی کا آغاز اس وقت ہوا کہ جب 1992ء میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا گیا اور کراچی سے کارکنان مفرور ہوکر رائے ونڈ میں پناہ گزین ہوگئے۔ جہاں ایک مخصوص نظریات کے حامل مکتب کے زیر اثر تربیت پانے کے بعد یہ کارکنان کراچی پہنچے تو انہوں نے ایم کیو ایم میں تکفیری نظریات کو فروغ دینا شروع کردیا۔ صورتحال اس حد تک جاپہنچی کہ ایم کیو ایم جیسی جماعت جو مہاجر پرستی کا نعرہ لے کر اٹھی تھی، فرقہ پرست عناصر کی سرپرست بن گئی۔ ان آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھا کہ کبھی ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے رکن رضا ہارون تکفیری دہشت گردوں کے مدرسہ کا افتتاح کرتے نظر آئے تو کبھی ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے رکن وسیم آفتاب اور تنظیمی کمیٹی کے انچارج حماد صدیقی کالعدم سپاہ صحابہ کے مرکزی رہنما اورنگزیب فاروقی سے ملاقات کرکے مشترکہ جدوجہد پر زور دیتے نظر آئے۔ علامہ دیدار جلبانی کا قاتل عمیر جیلر گرفتار ہوا تو وہ بھی ایم کیو ایم کا کارکن نکلا، جبکہ سانحہ عاشورا میں بولٹن مارکیٹ میں جلاؤ گھیراؤ کا مرکزی کردار اور 100 سے زائد افراد کا قاتل اجمل پہاڑی ایم کیو ایم کا کارکن نکلا، ناظم آباد میں 15 سے زائد شیعہ افراد کے قتل میں ملوث قاسم ابا بھی ایم کیو ایم کا کارکن تھا، ایم کیو ایم کے ایم پی اے رضا حیدر کی شہادت کے واقعہ میں لشکر جھنگوی کے وسیم بارودی کی معانت میں ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی کا بیٹا گرفتار ہوا، اس طرح کے بیشتر واقعات مزید ہیں جن کی تفصیلات کے لئے ایک مزید تحریر درکار ہے۔
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ الطاف حسین بھی اپنی جماعت میں تکفیریوں کے نفوذ سے پریشان ہیں، اس ہی لئے کبھی اپنی جماعت سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں تو کبھی تنظیمی عہدیداران سے شکوہ کرتے ہیں کہ وہ میری بات نہیں مانتے۔ حال ہی میں اس طرح کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ الطاف حسین نے اپنی جماعت سے تکفیریوں کے نفوذ کو ختم کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ حماد صدیقی جو الطاف حسین کے دست راست سمجھے جاتے تھے اور 10 سال تک کراچی میں ایم کیو ایم کے کرتا دھرتا رہے جبکہ ایک اور شخص وسیم آفتاب جو رابطہ کمیٹی کے طاقتور ترین فرد تھے کا تنظیم سے اخراج بھی اس بات کی علامت ہے کہ اس جانب ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت بھی متوجہ ہوچکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایم کیو ایم سے تکفیریوں کے نفوذ کو ختم کرنے کیلئے تنظیم میں موجود مزید کالی بھیڑوں کو باہر نکالا جائے اور ایم کیو ایم کو ایک مرتبہ پھر سے تطہیر سے عمل سے گزارا جائے۔ حماد صدیقی اور وسیم آفتاب کی ایم کیو ایم سے برطرفی پارٹی کا ایک بڑا فیصلہ تھا جو کہ قابل تحسین ہے لیکن ایم کیو ایم کو فرقہ پرست عناصر کی بھینٹ چڑھانے سے بچانے کیلئے الطاف حسین کو مزید سخت فیصلے کرنا ہونگے اور تنظیم کو فرقہ پرست عناصر سے پاک کرنا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button