پاکستان

طالبان کے سید خان سجنا گروپ کو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی حاصل ہے، امریکی اخبار

sajnaمعروف صحا فی ڈیکلن واش نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مذاکرات میں جنگ بندی کے دوران مختلف بم دھماکوں نے اس بات کو تقویت دی ہے کہ قیام امن کی کوششوں نے خود طالبان کو مختلف دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت کالعدم تحریک طالبان پاکستان انتشار کا شکار ہے اور اندرونی لڑائی کے نتیجے میں اس کے 40 سے زائد جنگجو مارے جا چکے ہیں، طالبان کے گروپوں میں یہ لڑائی قیادت سنبھالنے کے مسئلے پر ہو رہی ہے۔ طالبان کے سابق امیر حکیم اللہ محسود گزشتہ نومبر میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے جس کے بعد ملا فضل اللہ کو نیا امیر مقرر کیا گیا تھا اور ایسا پہلی بار ہوا کہ طالبان کی قیادت محسود قبائل کے باہر سے لی گئی اور اسی بات نے اختلافات کو جنم دیا ہے۔ ملافضل اللہ کی نامزدگی سے امید تھی کہ وہ محسود قبائل کے درمیان جاری لڑائی کو ختم کرانے میں کامیاب رہیں گے تاہم وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس سے ان کی اپنی پوزیشن بھی کمزور ہوئی ہے۔

وزیرستان میں اس وقت خان سید سجنا اور شہریار محسود کے درمیان کالعدم تحریک طالبان کے محسود دھڑے کی قیادت سنبھالنے پر جھگڑا ہے، خان سید سجنا کا تعلق حقانی گروپ سے بتایا جاتا ہے اور مبینہ طور پر اسے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ حقانی گروپ اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر کالعدم طالبان پر حکومت پاکستان سے مذاکرات کے لیے دباؤ بھی ڈال رہا ہے، تاہم دیگر گروپ اس کے حامی نہیں۔ رپورٹ کے مطابق طالبان پر دیگر بیرونی گروپس بھی اثر انداز ہوتے ہیں جن میں ازبکستان اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے غیرملکی جہادی شامل ہیں جو نہ صرف جنوبی اور شمالی وزیرستان میں موجود ہیں بلکہ پیسہ اور شدت پسند مذہبی نظریے کے بھی حامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس صورت حال کا فائدہ اٹھانے کے لیے افغان انٹیلی جنس ایجنسی بھی سرگرم ہو گئی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ طالبان کو پاکستانی سرحدی علاقوں تک محدود رکھے اور اس کے لیے اس نے طالبان کے مختلف دھڑوں کومحفوظ پناہ گاہیں اور مالی امداد دینے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے، ملافضل اللہ کو افغانستان میں پناہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان میں طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور وہاں جنگ جاری رکھنے کا مقصد پاکستانی خفیہ ایجنسی کی ان کوششوں کا جواب ہے جن کا مقصد امریکی انخلا کے بعد پاکستانی قبائلی علاقوں میں لڑی جانے والی جنگ کو افغانستان دھکیلنا ہے۔

یاد رہے کہ کالعدم طالبان پاکستان کی جانب سے سیز فائر کے خاتمے کا اعلان ہو چکا ہے، تاہم انہوں نے مذاکرات جاری رکھنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ دوسری جانب حکومت پاکستان نے بھی طالبان کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کچھ طالبان قیدیوں کو رہا کیا اور دیگر مطالبات پر بھی غور کیا جا رہا ہے، یہ وہ تمام مشکلات ہیں کہ جس نے حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات اور قیام امن کے معاہدے کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button