پاکستان

پاکستان خانہ جنگی کے دھانے پر اور جنرل راحیل شریف دوراہے پر کھڑے ہیں

neایکسپریس نیوز ٹی وی چینل کی ڈی این ایس وین پر موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے ٹی وی چینل کے ٹیکنشن،محافظ اور ڈرائیور شہید ہوگئے اور حملے کی زمہ داری تحریک طالبان پاکستان کے افغانستان میں بیٹھے سابقہ ترجمان احسان اللہ احسان نے قبول کرلی
احسان اللہ احسان نے ایکسپریس نیوز ٹی وی چینل کے اینکر پرسن جاوید چوھردی کو فون کیا اور ان کو کہا کہ ایکسپریس ٹی وی چینل کی ڈی این ایس وین پر حملہ تحریک طالبان پاکستان نے کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے اخبارات،ٹی وی چینل مسلسل تحریک طالبان پاکستان کے نظریات کی مخالفت کررہے تھے اور ان کی جانب سے کئی مرتبہ ایکسپریس میڈیا گروپ کو تنبیہ بھی کی گئی تھی
احسان اللہ احسان کا کہنا تھا کہ جو بھی صحافی یا میڈیا گروپ تحریک طالبان پاکستان کی مخالفت کرے گا اور ان کے نظریات کے آڑے آئے گا ان کو طالبان کے حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا
تحریک طالبان پاکستان کے ایک اہم آدمی کی طرف سے یہ اعلان کہ تحریک طالبان کے نظریات کے خلاف جو آدمی بھی سرگرم ہوگا ان کی کاروائیوں کا نشانہ بنے گا یہ بات ایک مرتبہ پھر ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ طالبان اسلام اور نظریات کے نام پر پاکستان کے اندر ایک فسطائی اور مذھبی آمریت کا نظام مسلط کرنے سے کم کسی چیز پر راضی ہونے والے نہیں ہیں اور وہ اپنی رائے سے اتفاق نہ کرنے والوں کا مقابلہ دلیل یا منطق سے نہیں بلکہ بندوق کی گولی یا بم سے کرنے کے قائل ہیں
تعمیر پاکستان ویب سائٹ ہمیشہ سے یہ واضح کرتی آئی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان ہو،کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان /لشکر جھنگوی یا کوئی اور نام نہاد جہادی گروپ ہو جن کا بیس کیمپ اس وقت وزیرستان اور پاکستان کی سرحد سے ملحقہ افغانستان کا علاقہ ہے دیوبندی مسلک کے اندر تکفیری ،خارجی فکر کا علمبردار ہے جن کی اس فکر کی بنیاد مسلم تاریخ کے اس فرقے کے نظریات سے مستعار لی گئی ہے جس نے تاریخ کی کتب کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عادل تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا(دیکھئے صحاح ستہ کے کتاب الفتن و کتاب الاموال)اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحاب رسول کو یہ پیشن گوئی کی تھی کہ اسلام میں ایسا گروہ پیدا ہوگا جو خود کو قران کا بڑا شارح سمجھے گا اور قران کی آیات عتاب و غیظ کا اطلاق مسلمانوں پر کرکے ان کے خون،جان،مال عزت اور آبرو کو لوٹنا اپنے لیے جائز قرار دے دے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب کو یہ بھی بتایا تھا کہ اس فتنے کا پہلا ظہور نجد میں ہوگا اور پھر یہ فتنہ ظہور پذیر ہوتا چلا جائے گا
حضور علیہ الصلواۃ والتسلیم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو بھی خبر دی تھی کہ مسلمانوں میں ایک ایسا فتنہ جنم لے گا جو ان کے خون کا پیاسا ہوجائے گا اور مسلمانوں کی تکفیر کرکے ان کے قتل کو جائز قرار دے گا
تاریخ گواہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پیشن گوئیاں حرف بحرف درست ثابت ہوئیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت بھی عبدالرحمان نامی ایک خارجی ملعون کے ہاتھوں ہوئی
اس خارجی ٹولے نے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی قتل کرنے کی سازش کی اور آپ پر تلوار سے حملہ کیا جس میں آپ کی ران پر زخم آئے
مسلم علمائے کرام کی اکثریت جن میں عقائد کے لحاظ سے شیعہ اور سنّی دونوں مکاتب کے علمائے کرام شامل ہیں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ خارجی فکر کے اس مکتبہ فکر کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش شیخ ابن تیمیہ نے کی اور اس کو حجاز اور اس کے گرد و نواح میں محمد بن عبدالوہاب نجدی نے پھیلایا اور اس کے ہاتھوں سے یہ فکر ہندوستان پہنچی جہاں اس کا سرخیل شاہ ولی اللہ کا پوتا اسماعیل دھلوی بنا جس نے تقویت الایمان نامی کتاب لکھی جو محمد بن عبدالوہاب نجدی کی کتاب”کتاب التوحید”کا اردو ایڈیشن تھی اور اس نے تحریک جہاد کے نام سے ایک مسلح جدوجہد کی جس میں اس نے جہاد کے نام پر خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقوں کے مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی جس میں پختون عورتوں کو باندی اور لونڈیاں بنایا گیا اور پختون مسلمانوں کا خون بہایا گیا اور ان کے مال و منال کو لوٹ لیا گیا اور مولوی اسماعیل دھلوی،سید احمد بریلوی اور ان کے دیگر خارجی سپاہی بالآخر غیور پٹھان مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے
لیکن خارجی و تکفیری فکر شاہ اسماعیل دھلوی اور سید احمد بریلوی کے شاگروں کے زریعے سے دارالعلوم دیوبند اور وہابی مدارس تک پہنچ گئی لیکن اس فکر کا وجود دیوبندی مدارس اور دیوبندی عوام میں غالب نہیں تھا
80ء کی دھائی میں جب امریکی سی آئی اے نے افغانستان میں سویت یونین اور اس کی حامی سوشلسٹ حکومت کو شکست دینے کے لیے ایک گوریلہ وار کا پروجیکٹ بنایا تو سی آئی اے نے سعودیہ عرب کو یہ ٹاسک دیا کہ وہ اس پراکسی وار کو باقاعدہ ایک مقدس جہاد اور لڑائی کی شکل دے
سعودیہ عرب نے آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے تعاون سے پاکستان کے افغانستان کی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں دیوبندی مسلک کے ایسے مدارس کا قیام کرنا شروع کیا جو مدرسے کم اور گوریلا جنگ کی تربیت کے مرکز زیادہ تھے
ان نئے قائم ہونے والے مدارس میں پہلی مرتبہ خارجی،تکفیری نفرت کی آئیڈیالوجی کو باقاعدہ ںظام فکر میں ڈھالا گیا
سعودی عرب نے جنرل ضیاء الحق کو ایسی دیوبندی اور وہابی مذھبی شخصیات کو اپنی سرپرستی میں لینے کا حکم صادر کیا جو افغان وار کو ایک مذھبی ،مقدس فریضے کی شکل دینے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہوں
پاکستان کی 80ء کی دھائی کی سیاست اور مذھبی ٹرانسفارمیشن پر گہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ سعودی عرب اور ریگن حکومت کی آشیرباد سے جنرل ضیاءالحق نے دیوبندی اوروہابی مسلک کے نام پر سرکاری زمینوں پر جہادی مدرسے اور مساجد قائم کرنے کی اجازت دے ڈالی
جنرل ضیاء الحق نے دیوبندی اور وہابی مسلک کے ایسے مولویوں پر ہاتھ رکھا جو مذھبی شدت پسندی اور انتہا پسندی میں خارجی فکر کے حامل تھے اور پاکستان کی مذھبی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو توڑنے کی صلاحیت سے مالا مال تھے
جنرل ضیاءالحق افغان وار کو جہادی لباس پہنانے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک میں بحالی جمہوریت کی تحریک کو بھی فرقہ پرستی کی آگ سے جلانے کا خواہش مند تھا اور اس نے اس پروجیکٹ کا دائرہ پاکستان کے شہروں اور قصبوں تک بڑھا دیا
یہ وہ زمانہ تھا جب لال مسجد کا مولوی عبداللہ اور جامعہ تعلیم القران کا مولوی غلام اللہ خان جوکہ دیوبندی مسلک میں سب سے توانا خارجی فکر کی آواز تھے ضیاء الحق کے رفیق خاص ہوگئے
اسی زمانہ میں جامعہ بنوریہ کراچی (جس کے بانی مولانا یوسف بنوری حنفی فکر کے پکے داعی اور سلفی و غیر مقلد فکر کے سخت دشمن تھے اور ان کے امام زاہد الکوثری سمیت عرب دنیا کے ان علمائے کرام سے بہت بہترین تعلقات تھے جو سعودی وہابی کر کے سخت مخالف اور مڈل ایسٹ میں جمال عبدالناصر کے حامی خیال کئے جاتے تھے کا)کا مہہتم مفتی نظام الدین شامزئی تکفیری ،خارجی فکر پر مبنی سعودی جہادی جنگ کا نظریہ ساز بن گیا
اسی دور میں اکوڑہ خٹک میں مولوی عبدالحق حقانی کے نامور دیوبندی مدرسے کی کایا کلپ ہوئی اور یہ مدرسہ بھی تکفیری خارجی فکر اور افغان وار کے لیے ایک بیس کیمپ میں بدل گیا
دیوبندی مسلک جس کے بانی مولانا قاسم ناناتوی،مولوی زوالفقار علی اور مولوی یعقوب معتدل سنّی حنفی علماء تھے اور اس کے جید عالم انگریز سامراج کے خلاف ہندوستان میں ریشمی رومال تحریک کے بانی اسیر مالٹا مفتی محمود حسن اور مولانا حسین احمد مدنی جو کہ دیوبندی سیاسی تنظیم جمعیت العلمائے ہند کے صدر بھی تھے سب کے سب خارجی فکر کے شدید مخالف تھے اور حجاز میں اٹھنے والی وہابی تحریک کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور مولانا حسین احمد مدنی نے تو ایک کتاب “الشہاب الثاقب “کے نام سے لکھی جس میں انھوں نے “لفظ وہابیہ” کے ساتھ خبیث تک لکھا اور ان کو خارجی ٹولہ قرار دیا
لیکن شومئی قسمت پاکستان جب بنا تو یہ مولوی شبیر احمد عثمانی تھے جو سعودی بادشاہ عبدالعزیز کے قریب ہوئے اور اس وقت سے پاکستانی دیوبندی علماء کی اکثریت کا رویہ سعودی حکومت اور وہابی مسلک کے بارے میں بدل گیا(دیکھئے عثمانی کی سعودی عرب میں کنگ عبدالعزیز امو مفتی اعظم سعودی عرب کے سامنے کی گئیں تقاریر خطبات عثمانی میں)
80ء کی دھائی سے دیوبند مسلک میں خارجی فکر اور فتنہ اپنے عروج کی طرف پہنچنا شروع ہوا اور یہ 90ء کی دھائی میں جاکر طالبان کی افغانستان میں حکومت کے قیام سے اس انتہا کو تہنچنا شروع ہوگیا جسکی طرف اشارہ جمعیت العلمائے پاکستان کے سابق صدر اور علمائے اہل سنت بریلوی کے قائد الشاہ احمد نورانی نے میاں محمد نواز شریف کی سابق حکومت کے آخری سال کی اپنی تقریروں میں بارہا کیا اور انہوں نے بہت واضح کہا کہ پاکستان اور افغانستان میں بنے جہادی تربیتی کیمپ اصل میں پاکستان کے سواد اعظم اور شیعہ کے لیے تیار کئے جارہے ہیں
آج حالت یہ ہے کہ دیوبندی مسلک اس خارجی،تکفیری دھشت گرد ٹولے کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے اور دیوبندی مسلک کی اعتدال پسند سیاسی جماعت جمعیت العلمائے اسلام سمیت ہر دیوبندی تنظیم اس قدر دباؤ میں ہے کہ وہ اس ٹولے کی محالفت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے
تحریک طالبان پاکستان دیوبندی مسلک کو ایک طرح سے تسخیر کرچکی ہے (دیوبندی مسلک میں جو اس فتنے کے خلاف بند باندھنے کی کوشش میں آکے آتے ہیں ان کو بھی طالبانی دھشت گردی کا سامنا ہے اور تحریک طالبان پاکستان میں ایک گروہ ایسا موجود ہے جو اب تبلیغی جماعت کی امن پسندانہ فلاسفی کو بھی چیلنج کررہا ہے اور اس جماعت کے پیروکاروں کے لیے ایسی فضاء پیدا کرنے کا خواہاں ہے کہ ان کی طرف سے بھی تکفیری خارجی فکر کو حمائت مل جائے)اور اب اس کے ہدف پر اہل سنت بریلوی،شیعہ اور اس ملک کا ہر وہ شہری اور سماجی گروہ ہے جو ان کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتا
طالبان اس کو ڈرا دھمکا کر اور ان پر حملے کرکے ان کو اپنا طرفدار بنانے کا اعلان کرچکے ہیں
تعمیر پاکستان ویب سائٹ نے مسلم لیگ نواز کی طالبان نوازی اور کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان سے یارانوں کی کہانی کئی بار بیان کی ہے اور موجودہ وفاقی حکومت کو دیوبندی تکفیری خارجی ٹولے کا سیاسی چہرہ قرار دیا تو غلط نہیں کہا
وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت پوری طرح سے پاکستان میں اس گروہ کی ہمنوائی کررہے ہیں جو تحریک طالبان پاکستان کی حمائت کرتے ہیں اور پاکستان کی عوام،صحافیوں،جج،وکلاء،جرنیل،سپاہیوں کے قاتلوں اور شیعہ،بریلوی،دیوبندی،احمدی،کرسچن اور ہندؤ مذھبی کمیونٹیز کی عبادت گاہوں پر حملے کرنے والوں کو بچانے کے درپے ہیں
مسلم لیگ نواز کی حکومت نے پولیس،فوج،ایجنسیوں سمیت قانون نافذ کرنے اور انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرنے کے زمہ دار اداروں کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں
یہی رویہ خیبرپختون خوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اختیار کررکھا ہے اور وفاقی حکومت نے قبائلی ایجنسیوں میں پولیٹکل ایجنٹوں اور ان کے سارے میکنزم کو بھی معطل کرکے رکھا ہوا
پاکستان کے صحافی،دانشور،ادیب،کالم نگار ،اس ملک کے شیعہ،سنّی بریلوی،اعتدال پسند دیوبندی و سلفی ،احمدی،ہندؤ اور کرسچن لبرل اور اعتدال پسند عوام کو سخت عدم تحفظ کا سامنا ہے اور ان کو بھی بھیڑ بکریوں کی طرح طالبان کے آگے ڈال دیا گیا ہے
حکومت کی یہ ظالمانہ پالیسی عوام کو اپنی حفاظت خود کرنے اور خود ایک ملیشیاء بنانے پر مجبور کررہی ہے
نواز شریف اینڈ کمپنی اور تحریک طالبان پاکستان کے حامی دفاع اسلام کونسل کی جماعتیں شاید انتظار کررہی ہیں کہ طالبان کے ہاتھوں ظلم اور فساد سے تنگ عوام خاص طور پر شیعہ اور سنّی بریلوی ایک مسلح ملیشیا بنانے کا اعلان کرڈالیں اور خود ان کے اڈوں کی تباہی کرنے چل نکلیں
اس طرح کے حالات پیدا ہونے شرع ہوگئے ہیں اور پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے لیے یہ لمحہ فکر ہے اور ان کے فیصلے کی اہلیت کا امتحان بھی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر ایک مکمل سول وار کے خطرے سے پاکستان کو کیسے باہر نکالتے ہیں
پاکستان مذھبی بنیادوں پر خانہ جنگی کے دھانے پر آکھڑا ہوا ہے اور یہاں تک اس کو لانے کے زمہ دار طالبان اینڈ کمپنی اور اس کے جملہ حامی ہیں جو ریاستی اور غیر ریاستی تنظیموں اور گروہوں میں موجود ہیں
پاکستان کی عوام کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا جارہا ہے ،اس ملک کے سواد اعظم اہل سنت بریلوی اور شیعہ پاکستان کو طالبانستان بنانے کی سازش کے خلاف ہیں اور ان کے غصے کا آتش فشاں اگر پھٹا تو پھر تباہی کا اندازا لگانا مشکل ہوجائے گا
طالبان اور ان جیسے دیگر گروہ پاکستان کی سلامتی اور اس کے وجود کے لیے سنگین ترین خطرہ ہیں اور ان کو سنگین خطرے کی بجائے محض بھٹکا ہوا کہنا یا گمراہ کہنا بہت بڑی غلطی ہے
مسلم تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ خارجی فکر کو کچلے بغیر اس کو صرف دلیل و منطق سے سدھارنے کی بات کبھی نتائج لیکر نہیں آئی اور معاشرے کو خلفشار سے بچایا نہ جاسکا
خارجی گروہ سے مکالمے کا کوئی نتیجہ اگر نکل سکتا ہوتا تو تاریخ میں حضرت عثمان کا قتل قران پڑھتے ہوئے اور حضرت علی کا قتل مسجد میں دوران امامت نہ ہوتا اور قران کے صفحات اور مسجد کا صحن لہو سے رنگین نہ ہوئے ہوتے

ex news

متعلقہ مضامین

Back to top button