پاکستان

طالبان کی جانب سے کم سن بچوں کو جنسی تسکین کے وعدوں کی ترغیب

taliban chaildپاکستانی مبصرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو جنسی تسکین اور جنت میں حوریں ملنے کے وعدوں کے ذریعے بہلا پھسلا کر خودکش مشنوں کے لیے بھرتی کرنے کی حکمت عملی بچوں سے زیادتی کے مترادف ہے۔
پشاور 150 جنسی کشش ایک مضبوط ترغیب ثابت ہو سکتی ہے اور پاکستانی طالبان بظاہر کم سن افراد کو صنف مخالف سے قربت کے وعدوں کے ذریعے خودکش بمباروں کے طور پر بھرتی کرنے کی انتہائی دیدہ دلیری سے کوششیں کر رہے ہیں۔
چند ہفتے قبل پنجاب میں پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے ایک سابق متوقع خودکش بمبار 17 سالہ عبد المالک نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ جب وہ خودکش بمبار بننے کی تربیت حاصل کر رہا تھا تو تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسند نوجوانوں کی جنسی خواہشات کو بیدار کر کے انہیں اپنا شکار بنا رہے تھے۔
مالک نے ٹورانٹو سے اردو زبان میں شائع ہونے والے اخبار لیڈر سے گفتگو میں کہا کہ نوجوانوں کو اپنے مشنوں کے لیے تیار کرنے کی غرض سے نوجوان خودکش بمباروں کو اندھیرے کمرے میں رکھا جاتا ہے یا ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی جاتی ہیں اور پھر خواتین کو ان کے پاس بھیج کر ان کی جنسی خواہشات کو ابھارا جاتا ہے۔
تربیت کار ان کے ذہنوں میں جنت کی حوروں کا تصور پیدا کرتے ہیں جو انہیں خودکش مشنوں میں اپنی جانوں کی قربانی دینے کے بعد حاصل ہوں گی۔
اس واقعے سے اس بات کا مزید ثبوت ملتا ہے کہ عسکریت پسند اپنے نام نہاد مقاصد کے حصول کے لیے کسی قسم کے اقدامات سے نہیں چوکتے۔ ان اقدامات کی کشش ختم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ لوگوں کے دلوں میں عسکریت پسندوں کے ہتھکنڈوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔ عسکریت پسندوں کے ان ہتھکنڈوں کو مذہبی قائدین، دانشوروں اور دیگر افراد نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور انہیں غیر انسانی اور غیر اخلاقی طریقے قرار دیا ہے۔
یہ خبریں ان اطلاعات کے بعد سامنے آئی ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ عسکریت پسند کم سن بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔
ان طریقوں کے نفسیاتی مضمرات
مذہبی رہنماؤں اور دیگر مبصرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو جنسی رویوں کا شکار بنانے سے ان پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور بچہ، اس کے اہل خانہ اور معاشرے کو نفسیاتی صدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ادارہ استحکام شراکتی کے ایک علاقائی رہنما ارشد ہارون نے کہا کہ نوجوانوں کو جنسی خواہشات کی آڑ میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا اور ایک ان دیکھی مسرت کے لیے اپنی جانیں دینے پر مجبور کرنا انتہائی مضحکہ خیز کوشش ہے۔
مالک نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ تربیت کاروں نے اسے اس بات پر قائل کر لیا کہ اگر اس نے غیرت مند طریقے سے اپنی جان دی تو مرنے کے بعد وہ ہزار گنا زیادہ جنسی تسکین اور خوشی سے لطف اندوز ہو گا۔ عسکریت پسندوں کے نزدیک غیرت مند طریقے سے جان دینے کا مطلب خودکش حملہ تھا۔
مالک نے تفتیش کے عمل میں شامل ایک سیکورٹی اہلکار کو بتایا کہ تربیتی کیمپوں میں موجود عسکریت پسند بھرتی ہونے والے بچوں کو "کسی خاتون کے ساتھ تنہائی کا موقع دیتے تھے” جو اس میں جنسی ردعمل کو جگانے کے لیے اس کے جسم کے مختلف اعضاء4 کو چھوتی تھی۔
ہارون نے عسکریت پسندوں کی جنسی حکمت عملیوں کے حوالے سے کہا کہ میں نے ایک قصہ سنا ہے جس میں ایک نو عمر بچے نے عسکریت پسندوں کا حقیقی چہرہ بے نقاب کیا تھا مگر وہ یہ کام کافی عرصے سے کر رہے ہیں۔ وہ نوجوانوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرتے ہیں یا پھر ان کے معصوم ذہنوں کو زبردستی یا اس طرح کے وعدوں کے ذریعے آلودہ کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف انسانیت کے خلاف اقدامات ہیں بلکہ انتہائی ظالمانہ بھی ہیں۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس کے مضمرات کا بھی امکان ہے۔
کراچی میں مقیم سماجی اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ڈاکٹر تابندہ نے کہا کہ میرے خیال میں یہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی بدترین شکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ 14 اور 15 سال کی عمر کے بچوں کو زبردستی جنسی سرگرمیوں سے متعارف کرانا اور ان سے مذید لذت کے وعدے کرنا ایک قابل مذمت اور تمسخر آمیز قدم ہے۔
تابندہ نے کہا کہ نوعمر بچوں کو اس طرح کی خیر اخلاقی برائی کا شکار بنانے کے سبب ان میں ڈپریشن جیسے ذہنی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عنفوان شباب کو پہنچنے سے قبل ہی چھوٹے بچوں کو صنف مخالف کے ساتھ جسمانی تعلقات پر مجبور کرنا ایسا جنسی استحصال ہے جس سے ان کی شخصیتیں مسخ ہو سکتی ہیں اور نہ صرف معاشرے بلکہ ان کے اہل خانہ اور خود ان کی آئندہ زندگیوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button