مقبوضہ فلسطین

فلسطین ساز باز کے گھیرے میں

plf1فلسطین کی نام نہاد خود مختار انتظامیہ نے صہیونی ریاست کے ساتھ ساز باز مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر آمادگي ظاہر کردی ہے۔
پی ایل او کی مجلس عاملہ کے رکن یاسر عبدربہ نے اتوار کو اعلان کیا کہ فلسطینی انتظامیہ نے صہیونی ریاست کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر مبنی امریکہ کی درخواست قبول کرلی ہے۔ یاسر عبدربہ نے کہا کہ یہ مذاکرات آٹھ ہفتے جاری رہیں گے اور امریکی وزیرخارجہ جان کیری ان مذاکرات پر نگرانی کریں گے اوراسرائيلی نیز فلسطینی حکام کےساتھ الگ الگ نشستیں بھی ہونگي۔ واضح رہے بعض صحافتی حلقوں نے یہ خبریں دی تھیں کہ عنقریب صہیونی ریاست کے ساتھ فلسطین کی خود مختار انتظامیہ کے ساز باز مذاکرات کے لئے ماہرین کے مذاکرات شروع ہونے والے ہیں اور یہ مذاکرات اردن میں ہونگے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہےکہ باراک اوباما کا دورہ اردن اسی غرض سے انجام پایا ہے کہ وہ فلسطینی انتظامیہ کو ایک بار پھر صہیونی ریاست ت کے ساتھ ساز باز مذاکرات پر مجبور کرسکیں۔ فلسطینی انتظامیہ اورصہیونی ریاست کے درمیان امریکہ کی ثالثی سے دوہزار دس میں مذاکرات ہوئے تھے لیکن یہودی کالونیوں کی تعمیر جاری رہنے کی بناپر یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے۔ فلسطین کی نام نہاد انتظامیہ نے ایسے عالم میں صیہونی حکومت کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کی اعلان کیا ہےکہ اس انتظامیہ نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ جب تک صہیونی ریاست یہودی کالونیوں کی تعمیر کا عمل اور اپنی جارحانہ پالیساں ختم نہیں کرتی اس کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ قابل ذکر ہے کہ فلسطینی قوم اچھی طرح سے سمجھ گئے ہیں کہ صہیونی ریاست کے ساتھ مذاکرات کرنے کا نہ صرف کوئي فائدہ نہیں ہے بلکہ اس سے ملت فلسطین کا نقصان ہورہا ہے اور صہیونی ریاست کو اپنی جارحانہ پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں مدد مل رہی ہے لھذا ملت فلسطین نے صہیونی ریاست کے ساتھ ہرطرح کے مذاکرات ختم کرنے پر تاکید کی ہے۔ صہیونی ریاست کی تاریخ سے ساری دنیا کو معلوم ہوچکا ہےکہ قدس کی غاصب حکومت امن و صلح نہیں چاہتی اور مذاکرات کو اپنی ظالمانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کو مسلط کرنے کا ایک مفید ذریعہ سمجھتی ہے اور فلسطینی انتظامیہ کے حکام اس حقیقت کو بہت اچھی طرح درک کرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں پی ایل او کے ایک اور سینئر رہنما نبیل شعث نے کہا تھا کہ صہیونی ریاست کے ساتھ مذاکرات کرنا بے سود ہے اور ان مذاکرات کا منصوبہ صہیونی ریاست کے اھداف حاصل کرنے کےلئے بنایا گيا ہے۔ فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس کے مشیر رفیق النتشہ نے بھی کچھ دنوں قبل اعلان کیا تھا کہ صیہونی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کا کوئي فائدہ نہیں ہے بلکہ مزاحمت سے فلسطینیوں کو کافی کامیابیاں ملی ہیں۔ فلسطینی انتظامیہ کے حکام کا یہ اعتراف کہ صہیونی ریاست کے ساتھ ساز باز مذاکرات سرے سے بے سود ہیں اور ان سے ملت فلسطین کو کسی طرح کا فائدہ نہیں پہنچا ہے عملا ظاہر کرتا ہے کہ صہیونی ریاست کے ساتھ ساز باز کا عمل بنیادی طور سے بے ثمر اور بے سود ہے۔ ساز باز مذاکرات دراصل صہیونی ریاست کی جارحانہ اور غاصبانہ سازشوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے اور اسی وجہ سے ملت فلسطین نے ہمیشہ ان مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے استقامت پر زور دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button