لبنان

اسرائیل کی خوشنودی مقصود ہے؛ سیدحسن نصر اللہ کے قتل کے لئے انعام کا تعین

syed hasan nasrulla labnonیہ کوئی نعرہ نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے مخالفین کو بدنام کرنے کےلئے انہيں یہودیت سے ربط دیتے ہیں کہ ایک انتہا پسند وہابی مفتی نے صرف اسرائیل کی خوشنودی کےلئے سید حسن نصر اللہ کے قتل کے لئے انعام مقرر کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق شام کے باغی وہابی مفتی نے کہا ہے: ہم نے سید حسن نصر اللہ کے قتل کے لئے انعام کا اعلان کیا ہے تا کہ اسرائیل کے ہاں قربت اور شرافت پائیں!۔
ملک شام میں دہشت گردوں کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والے صوبے "حمص” کی ایک مسجد کے امام جماعت "عبدللہ التمیمی” نے "یہودی ریاست کے ٹیلی ویژن چینل 2 سے بات چیت کرتے ہوئے” کہا: "ہم اسرائیل اور یہودی ریاست کے ساتھ اپنی دشمنی کی تردید کرتے ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ "وہابیوں اور اسرائیلی یہودیوں کے درمیان کسی قسم کی دشمنی نہ ہے اور نہ ہوگی بلکہ یہودی اور وہابی ایک ہی محاذ میں لڑ رہے ہیں”۔
اس وہابی مفتی نے یہودی ریاست کو خوش کرنے کے لئے اس ریاست کی ناک رگڑنے والے اور اس کو تاریخ کی پہلی شکست سے دوچار ہونے والے سید حسن نصراللہ سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "ہم نے سید حسن نصر اللہ کے قتل کے لئے انعام کا اعلان کیا ہے اور ہمارے اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست ہمیں وقعت دے اور ہمیں اعزاز و شرافت بخشے!۔
قابل ذکر ہے کہ وہابی اور صہیونی عرصہ دراز سے مسلمانان عالم کے خلاف بر سر پیکار ہیں لیکن وہابی فکر کے کئی حامی اپنے مخالفین کو طعنہ دیتے ہوئے، انہیں یہودیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کا ملزم ٹہراتے ہيں کہ یہودی ریاست کے ان ساتھیوں کو معلوم ہے کہ ان کے صہیونی حلیفوں سے نسبت دے کر کسی کو بھی بدنام کیا جاسکتا ہے۔
دریں اثنا وہابیت نے حال ہی میں شام کو غیر مستحکم کرنے کے لئے دہشت گردی کا سہارا لیا ہے جس کو وہ انقلاب کا نام دے رہے ہیں اور اس بغاوت کو امریکہ، یہودی ریاست، سعودی عرب اور قطر کی حمایت حاصل ہے۔
انقلاب کے لئے جن تقاضوں پر زور دیا جاتا ہے ان میں امریکی استعمار کے خلاف قیام اور صہیونی ریاستوں کے خلاف جدوجہد نیز سرمایہ داری نظام اور سرمایہ داروں اور اشرافیہ کے خلاف تحریک شامل ہے جبکہ شام میں انقلابی کہلوانے والوں کو امریکی استعمار اور صہیونی یا یہودی ریاست کی اعلانیہ حمایت حاصل ہے حتی کہ ان دہشت گردوں کے سرغنوں کا آخری مقصد ہی یہودی ریاست کو خوش کرنا اور اس کے مفادات کا تحفظ کرنا اور اس کو دوستی اور عدم دشمنی کا یقین دلانا ہے۔ اس بغاوت کو عرب سرمایہ داروں خاص طور پر عوام کی دولت غصب کرنے والے آل سعود اور آل ثانی خاندان کی حمایت حاصل ہے اور وہ نہ صرف العربیہ اور الجزیرہ چینل پر صہیونیت نواز تکفیریوں کے لئے تشہیری مہم چلارہے ہیں بلکہ وہاں موجود دہشت گردوں کےلئے امریکی جہازوں کے ذریعے ہتھیار ارسال کررہے ہیں اور اپنے اس عمل کو کسی سے چھپانے کی ضرورت بھی محسوس نہيں کرتے۔ تو یہ انقلاب کیونکر ہوسکتا ہے؟
جو کچھ شام میں ہورہا ہے وہ درحقیقت اسرائیل مخالف مزاحمت کو گھٹنے ٹیکنے پر آمادہ کرنے کے لئے ہورہا ہے اور ہاں اس کا ایک بڑا مقصد علاقے کے عوام کی توجہ اسلامی بیداری کی تحریکوں سے ہٹانا بھی ہے اور اگر شام کی حکومت کامیاب ہوجائے اور پاکستانی و عرب اور غیر عرب دہشت گرد ناکام ہوجائیں تو عرب ممالک کو اپنی قوموں کا سامنا کرنا پڑ ے گا اور انقلابی تحریکیں جاری رہیں گی لہذا پوری مغربی دنیا اور عرب رجعت پسند مطلق العنان بادشاہ، شیوخ اور امراء نیز القاعدہ اور طالبان اور ان جیسے دوسرے ٹولے مل کر صہیونیت کی خدمت کررہے ہيں لیکن سوال یہ ہے کہ جو لوگ ان کی حمایت کررہے ہيں ان کے پاس اس بات کا جواب بھی ہے کہ امریکہ، سعودی عرب، قطر، اسرائیل اور ترکی کا اتحاد کیسے اور کیوں؟ کیا اب بھی مسلمانوں کی آنکھیں نہيں کھلیں گی؟

آل سعود کو خصوصی طور پر اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور وہ یوں کہ آل سعود خاندان کے اندر بھی شدید مسائل پائے جاتے ہیں، بادشاہ اور ولیعہد بیمار ہيں اور وزراء تقریبا سب بڑی عمروں کے ہیں یہاں تک کہ امریکی جاسوسی ایجنسیوں کے ایک وفد نے اسی وجہ سے سعودی عرب کا مفصل دورہ کیا ہے اور امریکہ کو تشویش ہے کہ اگر بادشاہ اور ولیعہد دنیا سے اٹھ جائیں تو شہزادوں کے درمیان اقتدار کی لڑائی مغربی مفادات کو نقصان پہنچا سکتی اور ادھر عوام بھی آل سعود سے اکتا گئے ہیں اور الشرقیہ میں تو باقاعدہ عوامی تحریک چل رہی ہے جبکہ دوسرے علاقوں میں عوامی تحریک مسلسل سر اٹھاتی ہوئی نظر آتی ہے گو کہ انہيں کچل دیا جاتا ہے لیکن کچلنے سے کوئی تحریک نہیں کچلتی بلکہ اس کی جڑیں مزید مستحکم ہوتی ہیں۔ سعودی عرب میں غربت اور رہائش کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہيں اور حکومت سفید و سیاہ کی مالک بن بیٹھی ہے اور پھر قطر کے امیر اور وزیر اعظم کی جانب سے سعودی عرب پر قبضے کی باتیں بھی ہورہی ہیں چنانچہ آل سعود نے ان حالات سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے شام میں "”جمہوریت کے قیام کے لئے”” کوشاں ہیں اور وہاں دہشت گردوں کی اعلانیہ حمایت کررہے ہيں تا کہ عرب دنیا اسی جانب توجہ دیتی رہے اور اس کو انقلاب کی طرف متوجہ ہونے سے باز رکھا جاسکے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button